طاہرہ عبداللہ زندہ باد!


دل چاہتا ہے خوب کھلکھلا کر ہنسیں آج!

اپنی ہم نام (طاہرہ عبداللہ) کو آہنی لہجے میں بات کرتے سنا ہے ایک منمناتے اور جاہل مرد کے سامنے، جو عورت عورت نامی مخلوق سے جنم لے کے، لسانی اور دماغی صلاحیتیں اسی عورت کے توسط سے پا کے، انہی صلاحیتوں کے بل بوتے پہ قلم سے عورت کی بےوفائی کے نوحے لکھتا ہے اور زبان زہر اگلتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ فراموش کر دیتا ہے کہ اس کے وجود کا پور پور عورت کے احسانوں کا مرہون منت ہے۔

ہم نے طاہرہ عبداللہ اور خلیل الرحمن قمر کا مکالمہ سنا ہے۔ جس میں موصوف زہر آلود لہجے میں فرما رہے ہیں کہ عورت اور مرد کے حقوق بالکل مختلف ہیں کیونکہ دونوں کے پاس مختلف چیزیں ہیں۔ کاش قمر صاحب انگریزی فلموں سےخیال سرقہ کرنے کے علاوہ کچھ بنیادی سائنسی نکات سے بھی آگاہی حاصل کر لیتے تو اچھا ہوتا۔

عورت کا وجود چھیالیس کروموسومز کی بنت ہے اور مرد کا بھی، یہاں تک دونوں کی جنس کا تعین نہیں ہوا۔ اب ان چھیالیس میں سے دو XX کروموسومز نےعورت کو عورت بنایا اور مرد کے حصے میں دو XY آئے۔

آگے کا قصہ اب کچھ یوں ہے کہ تمام کروموسومز میں سے X سب سے زور آورکروموسوم سمجھا جاتا ہے کہ تمام تر ذہانت، علمی قابلیت اور کامیابیاں X کی بدولت ہیں۔ عورت کے پاس قدرت کی طرف سے دو X اسے مضبوط تر بناتے ہیں۔ اسی لئے عورت لمبی عمر پاتی ہے، تمام سرد وگرم سہتی ہے اور خلیل جیسے مرد کی لن ترانیاں سن کے بھی مسکراتی ہے۔

مرد کے پاس XY میں موجود واحد X ماں کی طرف سے آتا ہے, سو جو تھوڑی سی عقل پائی جاتی ہے وہ بھی ماں کی دی ہوئی خیرات ہے۔ Y کروموسوم جو باپ سے ملتا ہے، وہ نامکمل کرموسوم ہے، ساکت (Inert) ، جامد (stagnant) اور لولا لنگڑا (جس کا چوتھا Strand غائب ہے) اس لنجے کروموسوم کا عقل، سوچ اور دانش سے دور دور تک تعلق نہیں۔

تو کن مختلف چیزوں کی بات کرتے ہو تم خلیل الرحمن قمر! یہ کس چیز کا گھمنڈ ہے؟ تمہارا سامان عورت سے کم ہی نکلے گا جیسے بھی حساب کرو!

مزید گل فشانی کرتے ہوئے موصوف فرماتے ہیں، عورت مرد کے حقوق میں سےحصہ مانگتی ہے جو نہیں دیا جا سکتا۔ اتنی عقل سے پیدل بات یقیناً خلیل جیسا ڈرامہ باز ہی کہہ سکتا ہے۔ عورت کی ذات میں حصہ بٹانے والے! کیا تمہیں علم ہے کہ زندگی شروع کہاں سے ہوتی ہے اور کیسے ہوتی ہے؟

چلیے ایک سفر کی منظر کشی کرتے ہیں، لاموجود سے وجود تک کا سفر!

رحم مادرمیں نطفہ ٹھہر چکا ہے۔ اس نطفے کو انسان بننے کے لوازمات کے ساتھ نو ماہ کا عرصہ درکار ہے۔ سانس کے لئے آکسیجن چاہیے، بڑھوتری کے لئے خوراک چاہیے، محفوظ ٹھکانہ اور غذا چاہیے، حفاظت چاہیے، محبت چاہیے، جو قدرت ماں کے ذریعے اس نطفے کو بغیر اس کی جنس معلوم کئے دیتی ہے، اور یہ ہیں وہ حقوق جن کا آغاز زندگی ٹھہرنے کے ساتھ ہو جاتا ہے، مرد و عورت کی تخصیص کیے بنا۔

ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم اس نطفے کو رحم مادر میں انسان کے روپ میں ڈھلتے دیکھتے ہیں۔ ایک ایک دن، لمحہ بہ لمحہ، قدم بہ قدم۔ وہی دماغ، ایک سے ہاتھ پیر، ایک ہی طرح دھڑکتا قلب، ایک سی آنکھیں، ناک، منہ، کان۔ نہ بننے کےعمل میں کوئی فرق ہوا، نہ پیدائش میں۔ ایک ہی راستہ ہے جس سے دونوں کا دنیا میں ظہور ہونا ہے۔

لیجیئے پیدائش ہو چکی، اب پوچھنا یہ ہے خلیل الرحمن سے کون سی تمہاری چیزیں ہم سے مختلف ٹھہریں کہ تمہارے اور ہمارے حقوق مختلف ٹھہرے، تم اعلی اور ہم ارزاں قرار دیے گئے۔

فرض کیجئے کہ ایک دن رب کائنات یہ سوچ لے کہ چلیے جھگڑا ہی ختم کرتے ہیں، خلیل الرحمن قمر کے مختلف سامان کے غرور کا۔ سو اب سے تمام بچے جو ایک لڑکا لڑکی ہونے کی معمولی نشانی کے ساتھ جنم لیتے تھے، وہ پندرہ برس کی عمر میں ظاہر کی جائے گی۔

لیجیے نہ رہا بانس اور بانسری بھی گئی بھاڑ میں۔ لڈو پیڑے، مبارکبادیاں، غرور،فخر، اور مختلف ہونے کی اکڑ، کس بات پہ بھائی اب؟

بچہ آیا ہے دنیا میں اور انسان کا بچہ ہے، ہنستا بھی ہے، کھاتا پیتا بھی ہے بولتا بھی ہے اور سوچتا بھی ہے۔ بس یہ نہیں معلوم کہ جنسی تقسیم میں کہاں کھڑا ہے؟ پڑ گئے نا سوچ میں کہ کیسے پالیں اب؟ کہاں مختلف ٹھہرائیں؟

اب تعلیم بھی برابر، غذا بھی برابر، لباس بھی ایک جیسا، الفت و شفقت میں بھی فرق نہیں، زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع بھی یکساں، اعتماد کی آبیاری بھی ایک سی، جیون ساتھی چننے کی آزادی بھی، معاشرے میں ایک جیسے حقوق کی آگہی اور شعور بھی۔ اور پھر جب قدرت سن شباب پہ جنسی پہچان دے، تب معاشرے میں ایسے مرد وعورت ہوں جنہیں نہ اپنی مصنوعی بالادستی کا زعم ہو اور نہ ہی دوسرے کے کمزور اور مختلف ہونے کا شائبہ کہ پیدا ہونے سےشباب تک کی عمر کی اٹھان ایک سی بنیاد پہ اٹھائی گئی ہے۔

ہمارا دل چاہتا ہے کہ سمون دی بوائر کا وہ جملہ دہرا دیا جائے جس نے پچھلے پچھتر برس میں کروڑوں انسانوں کے دماغ صنفی مساوات کی تفہیم سے روشن کئے ہیں اور جو غالباً خلیل الرحمن قمر نے نہیں پڑھا اور اگر پڑھا تو یقیناً نہیں سمجھا

“One is not born, but rather becomes, a woman

سو ثابت ہوا خلیل الرحمن قمر کہ یہ جو مختلف چیزوں کا رونا تم نے رویا ہے،ان کا کہیں وجود نہیں۔ یہ جو مختلف سلوک ہے عورت سے، یہ سب تم جیسےمردوں کی کرشمہ سازی ہے، دماغ کا فتور ہے۔ یہ جو تم اپنے حقوق پہاڑ کی چوٹی پہ لئے بیٹھے ہو یہ تم جیسوں کی اختراع ہیں جو پدرسری نظام کو برقرار رکھنے کے لئےعورت کو جذباتی ڈائیلاگ والے ڈراموں میں مقید رکھتے ہیں۔

تمہیں عورت کی آواز پھنکار لگتی ہے، تم اس پھنکار سے چڑتے ہو، یہی کہا نا تم نے!

ایک کمزور مرد کے پاس ہے ہی کیا سوائے عورت کے لئے نت نئے القابات کے۔ تمہارے پاس جب بات کا جواب نہ ہو تو تمہیں عورت فاترالعقل نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ تم اپنے آپ کو ایک شکاری باز کے روپ میں دیکھتے ہو اور تمہیں عورت چڑیا کی شکل میں چاہیئے تاکہ جہاں چاہو، جیسےچاہو، شکار کر سکو۔

مرد کے جال میں نہ پھنسنے والی کو، سر بلند کر کے اپنے غصب شدہ حقوق کی بات کرنے والی کو تم حقارت سے فیمینسٹ پکارتے ہو۔ تمہاری ننھی منی سی عقل جو کہ تم نے اپنی ماں سے ہی مستعار لی، تمہیں یہ بات سجھانے سے قاصر ہے کہ عورت، عورت بعد میں ہے، پہلے وہ انسان ہے تمہارے جیسی انسان، بلکہ تم سے بہتر انسان۔

اس کا بھی آسمان کی وسعتوں، ارض زمین کی دل کشیوں ، پرواز کرتے پنچھیوں، قوس قزح کے رنگوں، رم جھم کی برساتوں کے ساتھ ساتھ حصول علم، روزگار کے مواقع ، معاشی آزادی رفیق سفر کے چناؤ اور اپنی زندگی پہ اپنےاختیار کا اتنا ہی حق ہے جتنا تمہارا۔

یہ حق رحم مادر میں نطفے کی شکل میں سفر کا آغاز کرتے ہوۓ خالق کی طرف سے تمہیں بھی ملا اور ہمیں بھی، اور اسے تم نہ چھین سکتے ہو نہ اس پہ قابض ہوسکتے ہو فرق صرف یہ کہ تم نے کسی خمار آلود لمحے میں یہ مغالطہ پال لیا کہ تم پر ادب اترتا ہے، نازل ہوتا ہے، دراصل تم جہالت کے نزلے میں مبتلا ہو۔ ادب انسانی شعور کی اعلیٰ ترین سطح پر تخلیق کیا جاتا ہے، اترتا تو موتیا ہے ان آنکھوں میں جو عورت اور مرد کی مساوات سے کھلنے والے امکانات دیکھنے سے قاصر ہیں!

کیا سمجھے، خلیل الرحمن قمر!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments