قائد میں خرابی نہیں، ہمیں خود کو بدلنے کی ضرورت ہے


عوام۔ جیسے ہی یہ لفظ کانوں میں پڑتا ہے یا ہم خود اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں تو دماغ میں ایک بہت ہی مظلوم، دُکھی اور مصیبتوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی کسی مخلوق کا تصور دماغ میں اُبھرتا ہے، جو کہ دراصل ہم خود ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم سو فیصد عوام مظلوم ہے؟ دکھی ہے؟ اور مصیبتوں کے پہاڑ تلے دبی ہوئی ہے۔ شاید ایسا نہیں ہے۔ پہلے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ عوام کا مطلب کیا ہے؟ جی ہاں عوام کہتے ہے عام لوگوں کو، جو اپنے میں سے ہی کسی عام آدمی کو اپنے ووٹ سے خاص بناتی ہے۔

تاکہ وہ ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کچھ مثبت اقدامات کرے، تعلیم کو سستا اور معیاری بنائے، علاج معالجے کی سہولیات مہیاکرے، غربت کے خاتمے کے لئے منصوبہ بندی کرے، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔ مگر پھر سوال دماغ میں اُبھرتا ہے کہ اِن ستر سالوں میں ایسا کیوں نہ ہو سکا؟ اِس بات کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ایک اور بات کرتے چلیں، لوگوں کا خیال ہے کہ سیاست امیروں کا شوق ہے یا امیروں کے کرنے کی چیز ہے، یا صرف وہ لوگ سیاست کرتے ہیں جن کے باپ دادا سیاست کرتے چلے آرہے ہیں۔

بات اگراپنے ملک پاکستان کی کیجائے تو کسی حد تک درست بھی ہے۔ آپ کے پاس پیسے ہے، آپ کے پاس فقط بی اے کی ڈگری ہے، اصلی یا نقلی ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے، کوئی فرق نہیں پڑتا یہ سہولت شاید دنیا میں یہیں میسر ہے، بہرحال آگے بڑھتے ہے، تو جناب اِس کے علاوہ تھوڑا بہت اثرورسوخ ہے تو آپ منسٹر بننے کے معیار پر سو فیصد پورے اُترتے ہے۔ آج کل کسی اِدارے میں کلرک بھی بھرتی کرنا ہو تو کم سے کم ماسٹر ڈگری مانگی جاتی ہے، مگر ملک چلانے کے لئے نقلی بی اے کی ڈگری بھی کافی ہے اِس سے تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے لئے ملک چلانا اِتنا اہم نہیں جتنا ایک دفتر یا اِدارہ چلانا ہے، یہ بہرحال ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

چلئے اب ہم اپنے اُس سوال کی طرف چلتے ہے کہ آخر بچھلے ستر سالوں میں عوام کو وہ سب کچھ کیوں نہیں ملا جس کی آس میں وہ کسی عام آدمی کو اپنے ووٹ سے خاص بناتی ہے۔

یہ عام آدمی آتا کہاں سے ہے؟ یہ عام آدمی ہم عوام میں سے ہی آتا ہے۔ اکثر سنتے ہے جیسے اعمال ویسے حکمران، بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے کیونکہ جو بھی حکمران آئے گا ہم میں سے ہی آئے گا مطلب تم ٹھیک ہوگے تو حکمران خود ٹھیک ہوں گے، مگر یہ بات سو فیصد ٹھیک بھی نہیں ہے، کیونکہ جب بھی لوگ سیدھے راستے سے بھٹک جاتے ہے تو اللہ اُن کے لئے ایک حکمران اور قائد کا بندوبست فرما دیتا ہے۔ تمام انبیاء کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

اسی طرح صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، کے حکمران بننے سے چند دن یا چند گھنٹے قبل تو سب ایماندار اور نیک نہیں ہو گئے تھے، ان حکمرانوں کے حکومت سنبھالتے ہی لوگوں نے ان کے اعمال کو دیکھ کرنیکی اور ایمانداری کا راستہ اپنایا۔ بلاشبہ ہمیں بھی ایک قائد کی ضرورت ہے۔ نہ کہ کسی منتظم کی۔ آب تک جو بھی حکمران آئے وہ کسی حد تک منتظم تو اچھے ثابت ہوتے رہے مگر اچھے قائد ثابت نہیں ہوسکے۔

ایسی مثالیں بھی ہے کہ ہم عوام نے متوسط طبقے کے لوگوں کو بھی ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھجوایا، کہ یہ ہم میں سے ہیں ہمارے مسائل اور مشکلات کو بہتر سمجھتے ہے، مگر نتیجہ کیا نکلا عوام کی زندگی تو نہیں بدلی ہاں مگر اُس متوسط طبقے کے بندے کی زندگی ضرور بدل گئی، اپنے آس پاس نظر دوڑائیے آپ کو ایسے بندے ضرور نظر آجائیں گے۔

ہم چاہتے ہے کہ ہمارے حالات بدل جائے، ہم اپنے حالات بدلنا چاہتے ہے مگر خود کو بدلنا نہیں چاہتے، ہم اپنے بچوں کو یہ تو بتاتے ہے کہ خنزیر کا نام لینے سے زبان ناپاک ہو جاتی ہے، مگرجو حرام کی کمائی ہم خود کھاتے ہے اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہے، اُس سے نہ تو ہماری زبان ناپاک ہوتی ہے، نہ دل داغدار ہوتا ہے، رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ہم سے، کم تولنے کو، اور قسم کھا کر خراب مال کو اچھا بتا کر بیچنے کو ہم چالاکی تصور کرتے ہیں۔

جھوٹ سے بھی ہماری زبانیں ناپاک نہیں ہوتی، چھوٹے چھوٹے بچوں بچیوں سے زیادتی کر کے ہماری روح ناپاک نہیں ہوتی مگر خنزیر کا نام لینے سے زبان ناپاک ہو جاتی ہے۔ اِن خصوصیات کے ساتھ کیسے ہم اُمید کریں کہ ہمارے حالات ٹھیک ہو جاینگے۔ سو میں سے ننانوے فیصد ہم لوگ اپنی اپنی طاقت اور اپنے اپنے دائرے میں رہ کر نافرمانی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر جہاں چار لوگ اکٹھے ہو جاتے ہے حکومت کو کوسنا شروع ہوجاتے ہے، ہم اپنے اپنے گریبانوں میں بھی تو جھانکے۔

جو ہم ٹھیک کر سکتے ہے وہ تو ہم کریں مگر ہم نہیں کرتے کہ پہلے دوسرا کرے پھر ہم بھی کر لینگے۔ ہمیشہ مثال باہر کے ممالک کی دی جاتی ہے کہ وہاں کتنا اچھا نظام ہے، علاج مفت، تعلیم معیاری، صاف ستھری سڑکیں، فلاں فلاں اور فلاں، مگر یہ نہیں سوچتے کہ وہ بھی تو ہماری طرح انسان ہے پھر کیا وجہ کہ وہ ہم سے بہتر نظر آتے ہے۔ یورپ میں ہزار برائیاں سہی مگر وہاں اِنسان کی بنیادی ضروریات کو اولین ترجیح دی جاتی ہے، کیونکہ وہ لوگ ٹیکس دیتے ہے اور ہم ٹیکس چوری کے طریقے تلاش کرتے رہتے ہے، اور مزے کی بات کہ ٹیکس کیسے بچانا ہے یہ طریقے بھی ہمیں وہ بتاتا ہے جو قانون کی تعلیم حاصل کر کے وکیل بنتا ہے اور اِنصاف کا علمبردار ہوتا ہے۔

تو جناب سدھار لیجیے حالات، کیسے سدھرینگے؟ یورپ میں اِنسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کا بھی خیال کیا جاتا ہے، کتوں کو بھی سکھایا جاتا ہے کہ تکلیف میں کسی کی وہ کیسے مدد کر سکتے ہیں اور ہمارے ہاں گلی کا کتے کے کا تو کیا ذکر کرنا، جو پالتو کتے گھروں میں ہوتے ہے، اُن کا نام چاہے، ٹامی ہو، ٹائیگر ہو، جیکی ہو یا پھر پرنس ہو وہ طبیعت سے کتا ہی ہوتا ہے کیونکہ ماحول اور تربیت اپنا اثر قائم رکھتی ہے۔

تو جناب ضرورت اگر اچھے قائد کی ہے تو اُس سے زیادہ ضرورت خود کو بدلنے کی ہے۔ ورنہ ہمارے حالات بہتر تو کیا اِس سے بھی بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔ خود فیصلہ کیجیئے کہ اصل قصوروار کون ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments