سرمد کھوسٹ فلمی تماشا چھوڑیں، یہاں قومی تماشا جاری ہے


مہنگائی سے ستائی عوام کے لیے خوش خبری، پنجاب، سندھ و وفاق نے نشر ہونے سے قبل ہی فلم ”زندگی تماشا“ نقص امن کے پیش نظر نشر ہونے سے روک دی۔ گزشتہ چند روز سے فلم سے متعلق خبریں خبر ناموں کی سرخیوں کی زینت بنی رہی جب ڈائریکٹر سرمد سلطان کھوسٹ نے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر ایک طویل ”کھلے خط“ کے ذریعے ان خیالات کا اظہار کیا کہ انہیں فلم کی ریلیز سے متعلق دھمکیاں مل رہی ہیں۔ وہ کیا کریں؟ کھلے خط میں کسی مقام پر یہ بھی کہتے ہیں کہ فلم میں کسی فرقے یا گروہ کا تذکرہ ہی نہیں، کہانی ایک داڑھی والے شخص کے گرد گھومتی ہے جسے عرف عام میں مولوی کہتے ہیں۔ یہ ایک اچھے مولوی کی کہانی ہے۔

مگر پھر بھی ٹریلر کی بنیاد پر ایک مخصوص گروہ (تحریک لبیک) ان کے اور ان کے کام کے درپے ہے۔ فلم میں ایسا کیا ہے یہ تومکمل فلم دیکھ کر ہی بتایا جاسکتا ہے مگر اب تک فلم بنانے والی ٹیم کی جانب سے جو کچھ کہانی بارے بتایا گیا ہے اس پر ایسا شدید ردعمل سامنے آنے کی کوئی معقول وجہ تا حال سمجھ نہیں آسکی۔ کئی اخلاق و روایات سے دور ڈرامے فلمیں پہلے سے آن ائیر ہیں یا ہوچکے مگر ایسا ردعمل نہیں آیا۔ ڈرامے تو چھوڑیں جھوٹی کہانیاں ہوتی ہیں۔ حقیقی زندگی میں جانے ایسا کیا کیا ہورہا ہے مگرمجال ہے کسی کو اشتعال آرہا ہے نا شرم۔ کوئی مدینے کے نام پر جھوٹ بول رہا ہے تو کوئی سرکار مدینہؐ کا نام لے کر۔

بعد ازاں فلم ڈائریکٹر نے صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس سے مدد کی اپیل بھی کردی۔ حالانکہ انہیں سمجھنا چاہیے تھا یہ سب لوگ تو انتہائی لاچار ہیں۔ اگر کسی کو ان کی بے بسی دیکھنی ہو تو دیکھ لے کیسے صدر مملکت کہہ رہے ہیں ملک میں آٹے کا بحران کا کون ذمہ دار ہے۔ مجھے معلوم نہیں حالانکہ مجھے معلوم ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم کا کیا کہنا ایک تو وہ ہینڈسم بہت ہیں دوسرا انہیں ہر بات بیوی یا ٹی وی سے بتا چلتی ہے، چونکہ وہ اس وقت عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کے لیے بیرون ملک ہیں تو انہیں وہاں کیونکر پتا چلے گا۔

آرمی چیف کے اپنے عقیدے سے متعلق سوال اٹھتے رہے ہیں اور اب تو یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ جانے انجانے میں وہ کس کس غدار و ملک دشمن (جلیلہ حیدر) سے ملتے رہے ہیں۔ رہی بات چیف جسٹس کی تو وہ اگر کسی مقدمے میں ریماکس دے دیں تو پانچویں نسل کی جنگ کا سماں ہوتا ہے۔ اگر کسی کو یہ باتیں سیاسی تناظر میں نظر آئیں تو بالکل ان پر یقین نہ کرے بس نومبر 2017 ئیا 2018 ءکا وقت یاد کرلے جب یہ تمام حضرات بلاتفریق اسی مخصوص گروہ سے دھمکیاں و گالیاں کھا رہے تھے (جس سے سرمد کو دھمکیاں مل رہی ہیں) اور ریاست دور سہمی ہوئی تماشا دیکھ رہی تھی۔

میری ذاتی رائے میں اس نام کی فلم بنانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں، جہاں ایک وزیر پرائم ٹائم کے ٹاک شو میں میز پر بوٹ رکھ کے تماشا لگائے، پیمرا میزبان پر 60 دن کی پابندی لگا ئے پھر وہ پابندی کا حکم نامہ واپس لے کر تماشا لگا لے۔ جب ملک میں چھوٹے چھوٹے بچے درندگی کا نشانہ بن رہے ہوں، کبھی قاتل تو کبھی گواہ نہ ملے اور ریاست کے ”بڑوں“ کواپنی انا کی جنگ سے فرصت نہ ہو۔ جبری گمشدگیوں کی نمائندگی کرنے والا وکیل (کرنل ر انعام رحیم) ہی گم ہو جائے، پھر کوئی ادارہ حراست قبول کرے، عدالت رہائی کا حکم دے مگر پھر بھی رہائی نہ ہو۔ اعلیٰ عدالت میں حکومت کہے یہ شخص جاسوسی و حساس معلومات افشا کرنے کامرتکب ہے۔ اب سنتے ہیں 38 روز بعد حکومت مشروط رہائی پر راضی ہے، شرائط اتنی سادہ ہیں کہ ہنسی آئے، وکیل صاحب راولپنڈی، اسلام آباد سے باہر نہ جائیں، تحقیقات میں تعاون کریں، پاسپورٹ جمع کروائیں، لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ بتائیں۔ انسانی حقوق کی سرکردہ کارکن وکیل جلیلہ حیدر کو بیرون ملک سفر سے یہ کہہ کرروک دیا جائے کہ آپ کا نام واچ لسٹ پر ہے اور الزام ہے ملک مخالف سرگرمیوں کا۔

سمجھ نہیں آتی موکل کا وکیل خود وکیل کا محتاج ہو تو موکل کیا کرے۔ زندگی تماشا بنی کی ایک اور کہانی یہ کہ لڑکی پسند کی شادی کے کیس میں عدالت جائے اور مجسٹریٹ اسے زیادتی کا نشانہ بنا دے۔ سالہا سال کے قیدی ضمانت پر رہا ہوجائیں اور پتا چلے جو الزام لگے تھے ان کا تذکرہ تو ریفرنس میں ہی نہیں۔ ایسی کئی مثالیں روز ہمارے اردگرد کسی نا کسی شکل میں موجود ہوتی ہیں، ایسے میں یہی کہہ سکتے ہیں جب حقیقت میں ہی زندگی تماشا بنی ہوئی ہے تو فلم کی کیا ضرورت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments