خان صاحب پریشان ہونا چھوڑ دیجیئے


برمکّی خاندان خلافت عباسیہ کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل رہا اور اسی خاندان کے ایک سپوت یحییٰ برمکی نے عباسی خاندان کو انتظام حکومت چلانے میں ہر قسم کی کمک فراہم کی۔

سلطنت کی معاشی حالت ایک بار ناگفتہ بہ ہوگئی یہاں تک کہ اشیائے خوردونوش کی قلت تک بات آگئی۔ ہارون قصر خلافت میں پریشان بیٹھا ہوا تھا کہ ایسے میں یحییٰ برمکی داخل ہوئے۔ انہیں دیکھتے ہی ہارون نے معاشی حالات کا رونا شروع کیا۔ یحییٰ نے جیسے ہی سنا تو کہنے لگے

”یہ تو بہت آسان سا معاملہ ہے بس آپ میری ایک کہانی سنیئے اور اس کے بعد خود کو، اپنے خاندان کو، دربار کے وزراء کو، اور خلافت سے منسلک تمام افراد کو کام پر لگائیے۔

خلیفہ تو پہلے بہت حیران ہوا لیکن بعد میں فوراً اس کی کہانی سننے پر آمادہ ہوا۔

یحییٰ برمکی کہنے لگا ”جنگل میں بندر کو بہت دور جانا ہوا تو اپنے نومولود بچے کی فکر ستانے لگی۔ بہت سوچ بچار کے بعد آخرکار اس نے فیصلہ کیا کہ اپنے بچے کو شیر کے پاس بطور امانت چھوڑ دیں۔ جاتے وقت شیر سے وعدہ لیا کہ واپسی کے بعد بچہ صحیح سلامت ملے گا۔ شیر اور بندر کے درمیان معاہدہ ہوا اور بندر دل پر پتھر رکھ چلتا بنا۔ وقت گزرتا رہا بندر کا بچہ اور شیر ایک دوسرے سے کافی مانوس ہوگئے یہاں تک کہ شیرہر وقت اپنی پیٹھ پر بندر کا بچہ لئے گھومتا پھرتا۔ جنگل کے دوسرے جانور بھی یہ پورا کھیل دیکھتے رہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی بندر کے بچے کو وہ عزت، مقام اور اہمیت دیتے جس کا وہ ہر گز حقدار نہ تھا۔

ایک دن شیر بندر کے بچے کو پیٹھ پر بٹھائے جنگل میں ٹہل رہا تھا کہ آسمان سے ایک چیل آئی اور پلک جھپکتے ہی بندر کا بچہ لے اڑی۔

چند دنوں بعد جب بندر آیا تو اس نے اپنا بچہ مانگا۔ شیر نے اپنی بے بسی ظاہر کی جس پر بندر کو یقین نہ آیا اور پھر شیر نے ایک بہت ہی زبردست بات کہی دیکھو میں زمین کا بادشاہ ہوں اور زمین پر کبھی بھی کسی نے اس کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات ہی نہیں کی لیکن اس کو اٹھایا آسمان کے بادشاہ نے ہے اور میری وہاں کوئی پہنچ نہیں ہے یہ آخری بات کہہ کر یحییٰ برمکی خاموش ہوا اور خلیفہ کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔

محترم امیر عالی قدر۔ یہ مسائل اللہ کی طرف سے ہیں۔ ہم اگر آج خلافت کو گھمبیر مسائل میں دیکھ رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم ایسے ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں۔ ہم اگر حقیقیت میں ان تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں تو ہمیں دو انتہائی اہم کام کرنا ہوں گے۔ پہلا کام، ہمیں زمین پر انسانوں کی طرح جینا ہوگا۔ ہم دنیا کی اس عارضی زندگی میں اپنی اوقات بھول جاتے ہیں یہاں تک کہ ہم خود کو پہچانتے تک نہیں کہ ہم کون ہیں۔ ہمیں جینے کا انداز بدلنا ہوگا۔ ہم بادشاہ نہیں ہیں اس زمین پر ہم سے پہلے جو عظیم لوگ گزرے ہیں ان کی زندگی میں سادگی اورعاجزی تھی۔ ہم جب تک خلیفہ اور عام انسان تک کا یہ گیپ ختم نہیں کریں گے تب تک ایسے ہی ہم ہر چیز کا رونا روئیں گے۔

ہمیں یہ حقیقیت ماننا ہوگی کہ ہماری یہ زندگی عارضی ہے اور ایک دن ہمیں پلٹ کر یہاں سے کوچ کرجانا ہے۔ ہمیں سجدہ سیکھ کر اللہ کی طرف رجوع کرکے اس سے مدد مانگنی ہوگی اور اپنی زندگی کا ہر عمل اس کی مرضی کے تابع بنانا ہوگا۔ ہم ایسا کریں گے تو کبھی بھی ہم مسائل کا رونا نہیں روئیں گے۔

ہمیں کم از کم یہ حقیقیت ماننا پڑے گی کہ اللہ کے ہر حکم اور ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ وہ ہمیں بحرانوں میں مبتلا اسی لئے کرتا ہے تاکہ ہم اس کی طرف رجوع کریں اور رجوع کے بعد یہ تسلیم کرلیں کہ وہی مالک کل ہے اور ہم اس کے بندے ہیں۔ زوال کے بغیر بادشاہی صرف اسی کا حق ہے۔

دوسرا کام، خلافت کے زیر سایہ جس وزیر کا جو کام ہے وہ سختی سے اس پر کام شروع کریں اور غفلت کی صورت میں اسے سخت سے سخت سزا دی جائے۔

آپ کی یہ پریشانی اسی وجہ سے ہے کہ آپ ایک غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ آپ ہی یہ سب کچھ کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے۔

کہانی اور اس کے بعد یحییٰ برمکی کی باتیں سننے کے بعد خلیفہ اٹھا اور کام پر لگ گیا اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ حالات اسی نہج پر آگئے جہاں پر ہونے چاہیے تھے۔

ابھی پرسوں ہی ٹرانپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ شائع کی ہے جس کی رو سے پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے اور ستم ظریفی ملک میں آٹے کا شدید بحران۔ خان صاحب کے بارے میں قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ پریشان ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس حقیقیت سے ہم غیر ارادی طور پر انکاری ہیں کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام ہی ان تمام مسائل کا حل ہے۔ اللہ کی طرف رجوع اور سجدہ ریز ہونا اس عارضی زندگی کا سب سے بڑا اور اہم اصول ہے اور جب تک قومیں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہیں ان پر بحران اگر آبھی جائیں تو ان کا حل آسان ہوتا ہے۔

خان صاحب آپ وہ پہلے حکمران نہیں ہیں جن کو خراب حالات نے گھیرا ہوا ہے پریشان ہونا چھوڑ دیجیئے اور ایک نڈر حکمران کی طرح ان تمام لوگوں کا احتساب کرکے ان کو سزا دیجیئے جن کی وجہ سے ہر روز نئے بحران رونما ہورہے ہیں۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک میں ایسے طاقتور لوگ موجود ہیں جو حکومت کے لئے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف اگر حکومت کچھ نہیں کرسکتی تو پھر دعوے کرنا اور مخالفین کو کوسنا کہاں کی عقلمندی تھی۔

خان صاحب آپ کے انتخابات کا منشور ہی کرپشن کے خلاف جنگ تھا لیکن آپ نے دیکھا آپ ہی کی موجودگی میں کرپشن میں اضافہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ آپ اگر پاکستان کو ترقی کی حقیقی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں تو پریشان ہونا چھوڑ دیجیئے حقیقی معنوں میں کام شروع کیجیئے ورنہ تاریخ کا کوڑادان حاضر رہتا ہے۔

ہم نہ خود اپنی اصلیت دنیا کے سامنے واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ یہ حقیقت کھلے عام مانتے ہیں کہ اللہ ہی ہمارا مالک ہے اور ہم اس کے بندے ہیں اور اسی بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے تمام مسائل کا حل اللہ ہی سے مانگے۔

عام آدمی کی زندگی اتنی اجیرن بن چکی ہے کہ اس کو اپنی بقاء کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آرہا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ مشیر نہ تو یحییٰ برمکی جیسے لوگ ہیں اور حکمران نہ ہارون رشید جیسے۔

ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا ہوگا اور اس سے اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگنی ہوگی کیونکہ ہمارے اجتماعی گناہوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہوچکا ہے کہ جس کی وجہ سے ہم رجوع کی طرف سوچ بھی نہیں سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments