”میڈم سیکرٹری“ میڈلین البرائٹ کی یادداشتیں


یہ امریکہ کی ممتاز دانشور، استاد، سفارت کار اور سابق وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ کی خود نوشت ہے۔ پہلی بار 2003 ء میں شائع ہوئی۔ مجھے عمومی پیرائے میں بیان واقعات متوجہ نہیں کرتے۔ انداز بیان میں علمی روشنی پھوٹتی دکھائی نہ دے تو دل اوبھ جاتا ہے۔ میڈلین البرائٹ کمیونسٹ ریاست چیکو سلواکیہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ اور والد ہائی سکول میں ملے اور چند برسوں بعد 1935 میں شادی کر لی۔ والدہ کی تعلیم سکول تک تھی تاہم انہیں ثقافتی سرگرمیوں میں ازحد دلچسپی تھی۔

شادی کے بعد وہ پراگ کے ایسے اپارٹمنٹ میں منتقل ہوئے جو فنکارانہ ہنر سے آراستہ تھا۔ دونوں جلد ہی شہر کی کیفے سوسائٹی میں معروف ہو گئے۔ والد نے جرمن اور فرانسیسی زبانیں پڑھ رکھی تھیں، 23 سال کی عمر میں انہوں نے قانون میں پی ایچ ڈی حاصل کر لی۔ چودہ ماہ لازمی فوجی خدمات انجام دیں اور پھر چیکوسلواکیہ کے محکمہ خارجہ میں ملازمت اختیار کر لی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کمیونزم اپنی بہار پر تھا۔ امریکہ عالمی معاملات میں طاقتور ہو چکا تھا مگر اسے اپنی طاقت کے پھیلاؤ کا اندازہ نہیں تھا۔

والد فکری لحاظ سے سرمایہ دارانہ جمہوریت کو پسند کرتے تھے اس طرح ان کے تعلقات اور دوستی کے رابطے ان مقامی اور بین الاقوامی سفارت کاروں سے مضبوط ہوئے جو کمیونزم کی بجائے جمہوریت سے وفادار تھے۔ شاید اس سوچ کے باعث وہ جب اقوام متحدہ میں چیکوسلواکیہ کے مندوب بنا کر بھیجے گئے تو رپورٹنگ میں امریکی مفادات کا رنگ بھرتا گیا۔ وہ نازیوں کی بپا کردہ شورش کے باعث Benesکی جلاوطن حکومت کے مدد گار بن گئے، انہیں برطانوی ریڈیو اور اخبارات تک رسائی ملی اور وہ ہٹلر کے قبضے کے خلاف بولتے رہے۔

کمسن میڈلین البرائٹ نے بی بی سی ریڈیو پر اپنے والد کی آواز کئی بار سنی اور پھر اپنے بولنے کے شوق کو نکھارا۔ خانہ جنگی کے دنوں میں ریڈکراس نے پناہ گزیں بچوں پر ایک دستاویزی فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ میڈلین کو اس کے ابتدائیہ میں ایک کردار دیا گیا جو انہوں نے بہت توجہ اور سنجیدگی سے ادا کیا۔ معاوضے کے طور پر انہیں گلابی رنگ کا بھس بھرا خرگوش ملا۔ ان دنوں وہ انگلینڈ میں مقیم تھیں۔ والد کی کوششوں سے جنگ عظیم دوم کے خاتمہ کے چند برس بعد اس یہودی خاندان کو امریکہ میں شہریت مل گئی۔

میڈلین البرائٹ بتاتی ہیں کہ انہوں نے سیاسی و سفارتی امور کی تعلیم اور تربیت کیسے حاصل کی۔ وہ عوامی رضا کار کے طور پر کام کرتی رہیں، سیاسی امیدواروں کے لئے چندہ جمع کیا، خیر کے کاموں میں سرگرم کردار ادا کیا، نئے نئے لوگوں سے ملیں اور سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کا آفاق بھی وسیع کیا۔ پھر وہ سینٹ اور وائٹ وائٹ ہاؤس میں ملازمت کرتی رہیں۔ ایک موقع پر انہیں ذمہ داری تفویض کی گئی کہ وہ قومی سطح پر کردار ادا کرنے کے لئے ڈیمو کریٹ امیدواروں کی رہنمائی کریں، پھر انہیں ایک تھنک ٹینک کا سربراہ بنایا گیا، کئی برس وہ یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز پڑھاتی رہیں۔

ہر سال وہ پہلے سے زیادہ علم، مہارت اور تعلقات کا دائرہ بڑھاتی گئیں اس کے باوجود ان کا خیال ہے کہ صدر کلنٹن نے 1992 ء میں جب انہیں اقوام متحدہ میں امریکہ کا مستقل سفیر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تو چند لوگ ہی ان سے واقف تھے۔ میڈلین البرائٹ کا کہنا ہے کہ انہیں امریکہ کا سیکرٹری آف سٹیٹ بننا ایک یادگار تجربہ لگا اور وہ اپنے دور کے ہر طرح کے مشاہدات و واقعات کے متعلق لکھنا چاہتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کانگرس میں کی گئی تقاریر یا سرکاری تقریبات میں اظہار خیال اپنی صلاحیت ظاہر کرنے کے لئے ناکافی ہیں۔

علم سے محبت کرنے والے رہنماؤں کو کتاب لکھنی چاہیے۔ ”میڈم سیکرٹری“ کی اپنی ضخامت 550 صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کے مطابق ”مجھے امریکہ کی فارن سیکرٹری مقرر کیا گیا تو ڈپلومیٹک سکیورٹی سروس نے کہا کہ آپ کے گھر میں ہمیں ایک دکان بنانا ہے۔ گھر کا باغیچہ جہاں ختم ہوتا ہے وہاں گیراج ہے، یہ ان کے کام آ سکتا تھا۔ گیراج میں میری بیٹی کے سکول کے زمانے کی نوٹ بکس بھری ہوئی تھی، پرانے صندوق، پشتی تھیلے، میرے والدین کے کاغذات اور بہت سا کباڑ۔

ہم نے یہ سامان سٹور میں منتقل کیا۔ سکیورٹی ایجنٹوں نے ٹیلی فون کے تار بچھانے کے لئے میرے باغیچے میں کھدائی کی اجازت مانگی جہاں میگنولیا کا بڑا سا پیڑ تھا۔ ان لوگوں نے پوری گلی میں گاڑیاں پارک کر دیں۔ میرے ہمسایوں کے لئے مسائل پیدا ہوئے تاہم وہ پرجوش تھے کہ ان کی ہمسائی ایک اعلیٰ عہدے پر کام کرے گی۔ ”“ 1997 ء سے مجھ سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا میں جوڈ ازم کی پیروی کروں گی، مجھے نہیں لگتا کیونکہ میں نے ایک مسیحی کے طور پر پرورش پائی ہے اور اپنے عقیدے سے دستبرداری آسان کام نہیں۔

میں باقاعدگی کے ساتھ چرچ نہیں جاتی مگر میں اہم مواقع، ایسٹر اور کرسمس پر ضرور چرچ جاتی ہوں۔ میرے خاندان کے یہودی ہونے کی خبر عام ہوئی تو پوچھا گیا یہودی ہونا کیسے محسوس ہوتا ہے۔ میں نے ہمیشہ خود کو مختلف انداز سے دیکھا، پہلے میں صرف امریکی ہوں اس کے بعد چیکو سلاواکین۔ بہرحال خون کا تعلق بہت اہم سمجھا جاتا ہے اور ساٹھ لاکھ یہودیوں کی موت کی وجہ ان کا یہودی خون سے تعلق ہونا تھا۔ ”“ 12 ستمبر 2002 ء کو صدر جارج ڈبلیو بش نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔

مجھے ان سے اتفاق کرنا پڑا۔ امریکہ کی مستقل مندوب کے طور پر میں نے ایسی ہی کئی تقاریر کی تھیں۔ امریکہ اور صدام حسین کے درمیان جھگڑا تین صدور کے زمانے تک پھیلا ہوا ہے۔ تصادم پر مبنی اس پالیسی کے نتیجے میں نائن الیون کے ہولناک واقعات ہوئے۔ اس ڈرامے میں کئی کردار تھے۔ یہ واقعہ میرے دور میں ہوا اور دنیا ابھی اس کے اثرات کئی عشروں تک دیکھے گی۔ ” (جاری ہے )
بشکریہ روزنامہ 92


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments