بے لگام مہنگائی کو روکنے کی ضرورت ہے


ٹماٹروں کے بعد ملک میں آٹے کے بحران کی ہر طرف دھوم مچی ہوئی ہے، جس سے مہنگائی کی ماری عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پہلے ہی اشیائے خورونوش کی چیزوں میں مسلسل اضافہ رکنے کا نام نہیں لے رہا اوپر سے ملک میں انتہائی اہمیت کی حامل خوراک کی قلت نے حکومت کے سارے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت عوام کی لازمی خوراک کی تقسیم کار میں ناکامی سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے مہنگائی کا جن مکمل طور پر بوتل سے باہر آچکا ہے اور دندناتاپھررہا ہے۔

حالیہ چند دنوں میں گھریلو استعمال ہونے والی گیس ایل پی جی میں 40 فیصد کا اضافہ کیا گیا، جبکہ دسمبر میں ایل پی جی کے نرخ 120 روپے تھے اور اب صرف ایک ماہ کے اندر اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ عوام گیس سلنڈر بھروانے کی سکت کھو بیٹھے ہیں۔ اشیاء ضروریہ کی روزبروز بڑھتی قیمتوں کے ساتھ ساتھ گھریلو استعمال کی اکثرخورونوش کی چیزوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں، گزشتہ ایک سال کے دوران میں ہونے والی مہنگائی نے عوام کی کمر جھکا دی ہے، اور اب آٹے جیسی بنیادی خوراک کے بحران کاپیداہونا بالکل بھی اچھا شگون نہیں ہے۔

حالیہ مہنگائی کی شرح میں کمی ہونے کی بجائے روز اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے اعداد و شماربالکل بھی تسلی بخش نہیں اور اشیائے ضروریہ بارے یہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ملک میں ہفتہ وار مہنگائی میں بیس فیصدتک اضافہ ہوا، ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی کابوجھ زیادہ تر گھریلو اشیاء پر پڑا ہے، جن میں کچن کے استعمال میں آنے والی 27 اشیاء ایسی ہیں جن کی قیمتیں حکومت کی طرف سے بڑھائی گئی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 20 کلو آٹے کا تھیلا 25 روپے مہنگا ہوکر 968 روپے کا، زندہ مرغی کی قیمت میں 15 روپے اضافہ، دال مونگ 3 روپے، دال مسور 2.5 روپے، دال ماش و چنامیں دودو روپے کا اضافہ ہوا اور لہسن نے 6 روپے کی جست لگائی، اس کے علاوہ کوکنگ آئل بناسپتی گھی کی قیمتوں میں بھی معمولی اضافہ کیا گیا، پھل، سبزی کے ریٹوں میں جو بڑوھتری ہوئی وہ اس کے علاوہ ہے۔

لہذا اس ہوشربا مہنگائی کے طوفان سے جو لوگ بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں ان میں زیادہ تر نوکری پیشہ افراد یا دیہاڑی دار مزدورشامل ہیں، جو ہفتہ وار یا ماہانہ وار صرف اتناکماتے ہیں، جس سے ان کے گھر کی کفالت بھی بہت مشکل سے ہوتی ہے۔ دوا دارو، میڈیکل کے اخراجات برداشت کرنا ان کے بس سے باہر ہوچکا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے حالات میں جب وزیراعظم صاحب کا گھر دولاکھ میں نہیں چل سکتا، بیس تیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا اپناکا گھر کس طرح چلایا سکتا ہے؟

جیسے جیسے اشیائے خورونوش کے نرخوں میں اضافہ ہوتاہے غریب دیہاڑی دار مزدور کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑنا شروع ہوجاتا ہے، جس سے عام آدمی کے مالی حالات درگوں ہونے لگتے ہیں۔ وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ آمدنی وہیں کی وہیں ہے اور اخراجات میں بے حد اضافہ ہوتاجارہا ہے جسے کم از کم موجودہ تنخواہ میں گزارہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ پھر میڈیا پر بحرانی خبروں کا سننا غریب آدمی کے اعصاب پر سوار ہوجاتی ہیں، جیسے آٹے کے بحران کے ساتھ ہی چینی کے بحران کی خبریں گردش میں ہیں، ایسے میں متوسط فیملی کا گزربسر جن اشیاء پر ہوتا ہے اگروہی مارکیٹ سے سستے داموں ملنے کی بجایے، ناپید ہونے لگیں تو غریب آدمی کیا کرے گا۔ مارکیٹ میں ہر چیز کی رسد ضرورت سے زیادہ ہونے کے بعد بھی چیزیں سرکاری نرخوں میں نہیں ملتی۔ منافع خوروں نے کچن کے بڑے سے لے چھوٹے ائٹم تک، ہر ایک چیز میں برداشت سے باہرمن مانا اضافہ کر رکھا ہے۔

دال، مرچ، چاول، گھی، چینی، چائے کی پتی، مسالہ جات، خشک دودھ کے ساتھ ماچس، نمک کی تھیلی تک ناجائز منافع کمایا جارہا ہے۔ حکومت اشیاء خورونوش کے جو سرکاری نرخ نامے جاری کرتی ہے وہ ان منافع خوروں کے آگے ردی کی حیثیت بھی نہیں رکھتے، تو وہ سرکاری نرخوں کیوں کھاتے میں لائیں گے، اس ملی بھگت میں اوپر تک کے منافع خوروں کی سرپرستی شامل ہے۔ اگر کسی سے اس حوالے سے بات کی جائے تو وہ یہی کہتا نظر آتا ہے کہ ہمیں تو منڈی سے مہنگاملتا ہے، یا وہول سیلرہمیں مہنگا دیتے ہیں، جب ہمیں میٹریل مارکیٹ سے سستا ملے گا توہم بھی سرکاری ریٹ پراشیاء بیچیں گے۔ غرضیکہ ہر کوئی اپنی دانست میں خود کو صحیح سمجھتا ہے، اگر ایسا ہے تو پھر حکومت کو چاہیے کہ وہ بڑے مل مالکان کی گرفت کرے اور ذخیرہ اندوزوں کی گوشمالی کرے تاکہ مارکیٹ میں مصنوعی بحران پیدا کرکے یہ لوگ غریب کی کھال ادھیڑ نے سے باز رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments