بنجمن انتھونی: سجناں وی مر جانا


رُخصت کا ایک پورا سلسلہ بڑھتا، پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ میں نے اس کو محلّہ چھوڑتے دیکھا، پھر ایک ادارے سے، اس شہر سے اور ملک سے، اب بنجمن انتھونی کو دنیا سے رُخصت ہوتے دیکھ رہا ہوں، اس سفر کے لیے رخصت ہوتے جہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں اور میرے دل میں طوفان بپا ہے۔ وہ میرا دوست تھا، بہت کچھ اور شاید کچھ نہیں۔ اپنے پیچھے یادوں کا سلسلہ چھوڑ گیا جس سے رُخصت ہونا ممکن نہیں۔

یادوں کو ترتیب کے ساتھ رکھنے کی کوشش کروں تو غالباً 1986ء میں ہماری ملاقات کراچی کے عیسیٰ نگری کے رومن کیتھولک چرچ میں ہوئی تھی۔ اپنی اپنی زندگی کی متعیّن راہوں پر چلتے ہوئے ہماری مڈھ بھیڑ ہوگئی تو شاید یہ محض اتفاق تھا۔ میں آغا خان یونیورسٹی کے شعبہ کمیونٹی ہیلتھ سائنسز سے منسلک ہو گیا تھا اور میڈیکل طلبا کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ جس منصوبے سے وابستہ ہوا اس میں کراچی کی کچیّ آبادیوں میں پرائمری ہیلتھ کیئر کے پروٹو ٹائپ بنائے جارہے تھے کہ صحت کے شعبے میں ترّقی کی مثال قائم کر سکیں۔ اورنگی کے بعد ماری پور کے نزدیک گریکس ولیج اور چنیسر گوٹھ اسی منصوبے کا حصّہ تھے جب میں نے بھی وہاں کام شروع کیا۔

یہاں سے آگے چل کر نئے علاقے کی تلاش شروع ہوئی تو عیسیٰ نگری کا نام سامنے آیا جو حسن اسکوائر کے سامنے اور یونیورسٹی سے نزدیک واقع تھی۔ یہاں زیادہ تر پنجابی کرسچن آباد تھے اور علاقہ سماجی پسماندگی کا شکار تھا۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچّوں اور عورتوں کی صحت کے بارے میں پروگرام ترتیب دینے کے لیے چرچ میں علاقے کے لوگوں کے ساتھ ایک ملاقات رکھی گئی جس کے بعد چھوٹے بچّوں کے وزن اور غذائی نشوونما کے بارے میں بات ہونے لگی۔ وہاں موجود لوگوں میں ایک نوجوان بھی تھا جو آگے بڑھ کر آیا اور ہماری مدد کرنے لگا۔ اپنا نام اس نے بنجمن انتھونی بتایا۔ وہ چرچ میں کام کرنے والے ماسٹر نعمت کا بیٹا تھا اور ان دنوں فارغ تھا۔ اس نے آگے کے پروگراموں میں بھی مدد دینے کے لیے رضاکارانہ پیش کش کی، یہ سلسلہ آگے چلا یہاں تک کہ وہ اس علاقے میں ترّقی کی ایسی سرگرمیوں کا لازمی جزو بن گیا۔ ایسے کاموں میں وہ معقول اور قرینے کا آدمی ثابت ہوا، سمجھ دار اور سماجی رابطوں کو جاننے والا۔ علاقے میں اس کو اچھی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ہمارے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر برائنٹ نے ایک نئی تقرّری کی گنجائش پیدا کی اور بنجمن انتھونی کمیونٹی کوآرڈی نیٹر کے طور پر کام کرنے لگا۔

اس منصوبے نے تیزی سے ترّقی کی۔ اس علاقے میں صحت کا مرکز قائم کیا گیا جہاں ڈاکٹر، نرسیں، طلباء باقاعدگی سے آتے تھے۔ گھر گھر جاکر ماں بچّے کی صحت کی تعلیم دینے والی کمیونٹی ہیلتھ ورکرز مقرّرکی گئیں جن میں سے ہر ایک کے ذمّے علیحدہ علیحدہ گھر تھے۔ اور گھر گھر جاکر صحت کی بنیادی تعلیم ان کا کام ٹھہرا۔ پروگرام کو مزید فروغ ملا جب بنجمن کی بیوی پروین بھی اس میں شامل ہوگئی اور ایک اچھی مثال قائم ہوگئی ورنہ بعض لوگ اس سے پہلے ہچر مچر کر رہے تھے۔ پروین کام میں بھی ہوشیار تھی اور بہت ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض پورے کرتی تھی۔

اس کچیّ آبادی میں کام کرنے کی ذمّہ داری میرے سر آ گئی اور مجھے فیلڈ ڈائریکٹر مقرّر کیا گیا۔ شروع کے دنوں میں میرے قدم وہاں مضبوط کرنے کے لیے ڈاکٹر بزمی انعام نے بہت ساتھ دیا اور اس کے بعد ڈاکٹر سلیم سوہانی اور ڈاکٹر فلک ناز رحمٰن کا میں خاص طور پر ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہماری اس چھوٹی سی ٹیم نے بڑی لگن اور جانفشانی کے ساتھ کام کیے، کڑا وقت بھی دیکھا۔ لیکن ہر بحران سے گزر گئے۔ ہمارے ہاتھ مضبوط کرنے میں بنجمن انتھونی نمایاں تھے اور ان کے بغیر یہ راستہ سہل نہ ہوتا۔ سماجی دباؤ کا شکار کچیّ آبادی میں کام کرنے کی اپنی مشکلات ہوتی ہیں اور ان حالات میں کام کرنا پورے کمٹ منٹ کے بغیر ممکن نہ تھا۔ بنجمن کے گھر میں مجھے خاندان کے فرد کی سی حیثیت مل گئی۔ پروین نے مجھے اپنا بھائی بنا لیا اور کبھی بنجمن کے بارے میں مذاق سے کہتی، آپ کے بہنوئی نے فلاں کام نہیں کیا! ان کا خلوص اور اعتبار میری زندگی کا روشن سرمایہ ہے۔

کام کی لگن کے ساتھ ساتھ میرے اس نام نہاد بہنوئی کی یہ خاص بات تھی کہ وہ نچلا نہیں بیٹھتا تھا۔ کچھ نہ کچھ کرتا رہتا۔ زندہ دل تھا اور سیر تفریح کے موقع ڈھونڈتا رہتا تھا۔ ہنسی مذاق کی باتیں کرتا تھا۔ کبھی کبھی موڈ میں آتا تو گانے لگتا تھا۔ اس کو نورجہاں کی آواز میں یہ گانا پسند تھا اور میں نے کئی دفعہ اس کو گاتے ہوئے سنا۔

کس نام سے پکاروں، کیا نام ہے تمہارا

کیوں تم کو دیکھتے ہی دل کھو گیا ہمارا

یہ گانا فلم ”غرناطہ“ سے تھا جو مجھے بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ فلم اندلس کی عکاسی کرتی ہے مگر اس طرح کہ غرناطہ، چکوال یا جھنگ کا مضافات معلوم ہوتا ہے۔ اس گانے کو سنتے ہوئے غرناطہ، عیسیٰ نگری کے قریب آجاتا تھا۔

عیسیٰ نگری کراچی کی تمام کچیّ آبادیوں کی طرح بہت متحرک اور فعال آبادی تھی جس میں وہ تمام خاصیتیں اور خوبیاں موجود تھیں جن سے ایسی بستیاں عبارت ہیں۔ بنجمن کے ذریعے سے مجھے اس بستی کو جاننے، سمجھنے کا موقع ملا۔ یہاں میں نے زندگی کی وہ سطح دیکھی جس کا اس سے پہلے تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ایسی آبادیوں سے دل چسپی پیدا ہوئی تو اس حوالے سے علاقے کے نئے پرانے مکینوں سے گفتگو ممکن ہوئی۔ ہم نے ”زبانی تاریخ“ کے کئی انٹرویو ریکارڈ کیے جس میں لوگوں نے نہ صرف اپنی انفرادی زندگی میں تبدیلی کی نشان دہی کی بلکہ یہ کہ یہ بستی کیسے آباد ہوئی، لوگ کہاں سے آئے اور کون لوگ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں زندگی نے کیا رنگ ڈھنگ اختیار کیے۔

اس تمام سلسلے کا جو حصّہ تحریر میں آگیا، وہ بنجمن کے علاوہ شریف سوز، آصف شہباز، محبوب جان اور نسرین اسٹیفن سے گفتگو پر مبنی تھا۔ اور یہ سارا احوال رسالہ ”آج“ کی اس خصوصی اشاعت میں سامنے آیا جو 1996 ء میں ”کراچی کی کہانی“ کے نام سے اجمل کمال نے ترتیب دی اور اب بھی کراچی کی تاریخ، سماجی رجحانات اور تضادات کے بارے میں دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہماری اس گفتگو کا سلسلہ آگے چلا اور خاص طور پر اسلم مارٹن نے ایکٹوزم (activism) اور مقامی سیاست میں تیزی سے بڑھتے ہوئے کرپشن کے بارے میں بات کی کہ اسٹیبلشمنٹ کس طرح سیاسی شعور رکھنے والے افراد کو خرید کر اپنا حصّہ بنا لیتا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ ایک پوری کتاب ہوگی اور (کچیّ آبادیوں کے بارے میں) تسنیم صدیقی کا مضمون اس کا مقدمہ ہوگا۔ لیکن یہ افسانہ پورا ہوتے ہوتے رہ گیا۔

دوسری تمام سماجی برائیوں کے ساتھ عیسیٰ نگری میں ہیروئن کی وبا خاص طور پر نوجوانوں میں پھیل رہی تھی۔ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی وساطت سے ہم نے اس کی روک تھام کا پروگرام بنایا اس میں بنجمن کے علاوہ آصف شہباز اور محبوب جان نے میرے ساتھ تربیت حاصل کی۔ ہمارا اندازہ تھا کہ نوجوان اس نشے کی طرف یوں بھی مائل ہوتے ہیں کہ ان کے پاس فارغ اوقات میں مشغول رہنے کے طریقے ایک ایک کرکے ختم ہوگئے ورنہ اسی علاقے میں ڈرامے، کھیل کود، جسمانی تربیت، آپس کے میل جول کے بہت سے روایتی طریقے لوگوں میں رائج تھے۔ اس پروگرام کے تحت ”مُثبت اور صحت مند“ سرگرمیوں کے مواقع دوبارہ سے رائج کیے گئے۔ لیکن اس طرح کی سرگرمیاں نشے کی آسانی سے دستیابی، اس سے وابستہ ایک کالی، اندھیری معیشت اور سب سے بڑھ کر احساس محرومی کے سامنے کہاں ٹھہر سکتی تھیں۔ محبوب جان نے بڑی وضاحت کے ساتھ بتایا تھا کہ یہ پورا نظام کس طرح ان نوجوانوں کو تلاش کرتا ہے جس کو تھوڑا بہت پیسہ چاہیے اور پھر اپنا حصّہ بنا لیتا ہے۔ ”زبانی تاریخ“ کا یہ حصّہ آج بھی بہت عبرت ناک معلوم ہوتا ہے۔

چھوٹی عمر سے لے کر بنجمن نے عیسیٰ نگری میں خوش اور مطمئن زندگی گزاری۔ بچّوں کو پال پوس کر بڑا کیا، بیٹیوں کی شادی کی۔ اپنی تعلیم کا سلسلہ ادھورا چھوڑ دیا تھا، اس کو دوبارہ شروع کیا اور بی اے کے امتحان میں کامیاب ہوئے۔ بلکہ پروین کو بھی پڑھائی کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کے لیے راغب کیا۔ ماحول میں بڑھتے ہوئے تعصّب اور تنگ نظری کا ذکر انہوں نے اپنی اس گفتگو میں کیا تھا۔ ملک کے اور شہر کے حالات جس نہج پر جا رہے تھے، اس میں تفریق بڑھتی جا رہی تھی۔ اقلیت کے لیے راستے محدود ہوتے جا رہے تھے۔ پہلے اس میں طبقاتی فرق اور کچھ پرانے چھوت چھات کا اثر بھی تھا لیکن اب مذہبی منافرت اس آگ میں جلتی پر تیل کا کام کرنے لگی۔

بنجمن اور ان کا خاندان عیسیٰ نگری چھوڑ کر گلستان جوہر کے ایک فلیٹ میں منتقل ہوگئے۔ پروین آغا خان یونیورسٹی میں کام کرتی رہیں لیکن بنجمن ضیاء الدین یونیورسٹی آ گئے۔ جہاں وہ آغا خان یونیورسٹی کے پرانے منصوبے کی طرح سکندر آباد کے علاقے میں صحت کی تعلیم و ترویج کا کام کرنے لگے جو کلفٹن میں یونیورسٹی سے متصّل ہے۔ اس کام میں شروع شروع میں ان کو مشکل ہوئی کہ یہ علاقہ ان کے لیے نیا تھا مگر جلد ہی انہوں نے کام سنبھال لیا۔ اس دوران بنجمن کا اکلوتا چھوٹا بھائی یوسف اور ان کی دو بیٹیاں شادی کے بعد ہالینڈ منتقل ہوچکے تھے۔ پروین اور بنجمن بھی ایک دن پناہ گزین کے طور پر ہالینڈ جا پہنچے۔

ہالینڈ میں بھی انہوں نے بڑے صبر اور استقامت کے ساتھ حالات کا سامنا کیا۔ مجھے بتاتے رہتے تھے کہ نئی زبان سیکھ رہے ہیں اور پاسپورٹ ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ سارے وقت کام کرنے کے عادی تھے، اس لیے فارغ بیٹھے رہنا بھی ان کے لیے مشکل تھا۔ مشکل حالات کو بنجمن ہنستے کھیلتے سہہ لینے کے عادی تھے۔ یہاں بھی انہوں نے ایسا ہی کیا لیکن اس بارے میں مجھے اتنا ہی معلوم ہے جو میں نے ان کی زبانی سُنا۔ وہیں سے ان کا جنازہ اٹھا۔ کسی نے فیس بک پر لائیور اسٹریمنگ کر دی تو اتنی دور بیٹھ کر بھی میں یہاں دیکھ سکا۔ جاڑے کی تیز ہوا میں اڑتے ہوئے کوٹ اور موٹے لبادوں میں جانے پہچانے لوگ دعا کے مانوس الفاظ پڑھتے ہوئے تابوت اٹھائے چل رہے ہیں۔ افسوس کہ اس تابوت کا بوجھ میں اپنے کاندھوں پر نہ اٹھا سکا۔ پھر بنجمن اس اجنبی مٹّی کی تہہ میں پہنچ گئے اور جو سفر عیسیٰ نگری سے شروع ہوا تھا، ہالینڈ کے قبرستان میں ختم ہوگیا۔ زبانی تاریخ پوری نہ ہوسکی۔ تاریخ بنانے والا یہاں سے چلا گیا۔ اُٹھ گیا ناوک فگن۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments