اماں! کوئٹہ کے ماتھے کو بھی آگ سے داغ دیں


\"barkat-kakar\"موت سے بچنے کے لیے انسانوں نے کیا جتن نہیں کیے ہوں گے۔ دُعا سے لے کر دوا تک، منت مراد سے نذر و نیاز تک، آدمی ہر حربہ، سو جتن کرتا ہے۔ ہمارے یہاں ہر کوئی یہی کہتا ہے، کہ اگر دوا دارو سے کام نہ بنے، تو \’\’دم و چو\’\’ کا در تو کھلا ہی رہتا ہے۔ البتہ اگر خون ناحق بہے، تو اس کے حساب و علاج کا طریقہ کسی اور طور سے ہوتا ہے۔ یہ امر مصدقہ ہے، کہ خون ناحق بہنے پر قدرت اپنا احتجاج رِکارڈ کرایا کرتی ہے۔ شاید قدرت کی مزاج پرسی اور عیادت کے اپنے طور طریقے ہوتے ہیں۔ وہ دھرنے، دعوے اور دورے نہیں کیا کرتی۔ اسی لیے کبھی خون ناحق پر سرخ، تو کبھی کالی آندھی چلنا شروع ہوجاتی تھی۔ اپنے سرخ و سیاہ ہاتھوں سے، یہ آندھیاں، شہتوت کے دراز قامت درختوں کے سروں کے بال نوچ لیا کرتی تھیں۔ بنی نوع آدم کے خون ناحق پر نوحہ کناں ہوا کرتی تھیں۔ بنی آدم تاڑ لیتے کہ ہو نہ ہو، کہیں کوئی خون ناحق ضرور بہا ہے۔

گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے قدرت نے اپنی اس روش پر نظر ثانی کی ہے۔ جب سے شہر کوئٹہ کو مقتل گاہ بن گیا ہے، سیکڑوں کے حساب سے معصوم لوگ قتل ہو جاتے ہیں۔ کوئٹہ؛ صوبے کا بڑا شہر اپنے مکینوں کے قتل ہونے پر کف افسوس ملتا ہے، اور پھر جنازے قرب و جوار کے دیہاتوں اور قصبوں کو بھیج دیے جاتے ہیں۔ اب یہ احوال ہے، کہ قدرت نے چپ سادھ لی ہے۔ نہ تو آندھی اور نا ہی طوفان کی کوئی علامت ہے، اور نا ہی قادر کی جانب سے کوئی اور شگون۔ اگر قادر کوئی آدم زاد ہوتا، تو ہم اندازہ لگا سکتے تھے، کہ اسے سی پیک میں کوئی ٹھیکا دیا گیا ہے۔ یا پھر آف شور کمپنی کی وجہ سے بلیک میل کیا گیا ہے۔ لیکن یہاں ایسا کوئی معاملہ نہیں دکھائی دیتا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے، کہ خون ناحق کی فراوانی پر روزمرہ احتجاج کرنا اس کے لیے ممکن نہ رہا ہو۔ جب سے آندھیوں اور طوفانوں نے آنا بند کیا ہے، اس کی جگہ طوفانی دوروں نے لے لی ہے۔ کوئٹہ کے مکینوں سے کٹے ہوئے، سیاست دانوں، حکمرانوں کے طوفانی دورے۔ ادھر لاشیں گرتی ہیں، اُدھر یہ جھٹ پٹ مقتل گاہ پہنچ جاتے ہیں۔ صوبائی وزیر داخلہ ہوں، یا وفاقی وزیر داخلہ، فورا انگلی اٹھا کر پڑوس کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جیسے وہاں سے کسی آتے جاتے کو دیکھا ہے۔ دشمن ملک کی ایجنسی کی آستین پر، اس خون ناحق کے داغ تلاش کیے جا چکے ہوتے ہیں۔ لیجیے! گویا فرض ادا کر دیا جاتا ہے۔

سربراہان وطن میٹنگ کرتے ہیں۔ عرس کا موقع ہے، تو کبھی ان سیاسی جماعتوں کا میلہ بھی لگتا ہے۔ اجلاس ہوتے ہیں۔ سر جوڑے جاتے ہیں۔ کمیٹیاں بنتی ہیں۔ اس دوران وقت گزرتا ہے، زخم مندمل بھی نہیں ہوتے، کہ پھر وار ہو جاتا ہے۔ لاشیں گرتی ہیں، اجلاس ہوتے ہیں، کمیٹیاں بنتی ہیں، لیکن امن کی، آشتی کی کمیٹی نہیں نکل کر دیتی۔ کبھی صبح، کبھی شام، کبھی شب، نیم شب۔ اُدھر وکیل، اُدھر خواتین کی جامعہ، اُدھر پولیس ٹریننگ سینٹر، سب۔ سب کا سب، خار خار، لہو رنگ۔

مجھ سمیت کوئٹہ میں سکونت پذیر کئی ہیں، جو اذیت کے اس خاص احساس سے گزر رہے ہیں۔ میں خود کو الف لیلی کے اُس خونچکاں داستان میں، اپنے آپ کو اس ڈرپوک بادشاہ کی رعایا کی طرح محسوس کرتا ہوں، جو ہر مہینے، ایک دوشیزہ، سات اونٹ، ایک خوں خوار سانپ کا خراج دیتا تھا۔ جس کی بدولت اس کی بادشاہت قائم و دائم رہتی۔ ہاں اس داستان میں، داستان گو نے بادشاہ کو لڑکی کے گھر والوں، اعزا و اقارب سے تعزیت کرتے نہیں بتایا ہے۔ نا ہی عذاب الہی کی صورت، گھنٹوں روڈ بلاک کرنے کا ذکر ہے۔ البتہ اس بادشاہ کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے، کہ وہ دھاندلی سے گریز کرتا ہے۔ لگان میں دی جانے والی دوشیزاوں میں، اپنی بیٹی کے نام کا بھی قرعہ ڈالتا ہے۔ اُسے بیرون ملک تعلیم کے لیے نہیں بھیج دیتا۔ اور نہ کم عمری میں شادی کراتے ہیں۔ جیسی نیت ویسی مراد! خدا کا کرنا دیکھیے کہ اِدھر بادشاہ کی بیٹی کے نام قرعہ نکل آیا، ادھر وہ ایک مہان سورما کی شہر میں آمد ہوتی ہے، اور پھر وہ دوشیزہ کو اس عذاب سے، اور بادشاہ کی بادشاہت کو بچا لیتا ہے۔ میلوں لمبے زہریلے سانپ کا کام تمام کردیتا ہے۔

لیکن ہماری قسمت میں ایسا بادشاہ کہاں؟ ہم جمعے کی نماز میں جن کےنام کا خطبہ پڑھتے ہیں، وہ تو آہن گری کرتے کرتے خود بھی لوہے کا ہو کر رہ گیا ہے۔ کیوں نہ ہوں، جیسے چکی میں آٹا پیستے مزدور آٹے کی طرح لگت ہے، یہی کچھ ان کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ ان کی رگوں میں خون کے بجائے سی پیک کی ریل اور میٹرو کی بسیں دوڑتی ہیں۔ بینائی کی حالت یہ ہے کہ بلوچستان کو سونے، تانبے، کوئلے، گیس اور ڈیپ سی پورٹ سے آگے دیکھ ہی نہیں پاتے۔ انہیں کون بتلائے کہ جہاں سے سونا نکلتا ہے، وہاں آج بھی لوگ ملیریا سے مرجاتے ہیں۔ پچاس فی صد سے زیادہ آبادی پینے کی صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے ہیپیٹائٹس بی اور سی کا شکار ہے۔ اور تو اور، وہاں پانچ تو کیا ایک سردار بھی نہیں رہتا۔ گمان غالب یہی ہے، کہ کوئٹہ اور پشاور میں رونما ہونے والے ممکنہ دہشت گردانہ خراج کے لیے، وہ پہلے ہی سے تقاریر لکھوا کر رکھتے ہیں۔

پولیس تربیتی مرکز میں زخمی ہونے والے ایک ریکروٹ نے رو رو کر بس اتنا ہی کہا، کہ کاش میں ان کا بدلہ لیے پاوں، نہیں تو ان کے ساتھ شہید ہو جاتا۔ شاید وہ دوستی کی اس روایت کا پاس رکھنا چاہتا ہے، جو بلوچستان کے دیہاتوں میں بلوچ اور پشتونوں کا خاصہ ہے۔ پشتو کی لوک شاعری کی ایک صنف میں، اک دوشیزہ نے اسی احساس کو، اک غاڑہ (Couplet) میں سمونے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ موصوفہ کا درد بھی یہ ہے، کہ موت ان کی ہم جولیوں کو ایک ایک کر کے ابدی نیند سلا رہی ہے، اور اب صرف وہی زندہ رہ گئی ہیں۔ اپنی قسمت پرماتم کرتے ہوئے، ان کا کہنا ہے۔ \’\’اماں! میرے ماتھے کو آگ سے داغ دیں، کہ میری ہم جولیاں موت کے پنجوں سے نہیں بچ پاتیں۔\’\’

شاید کوئٹہ کے باسیوں کو بھی، ماں کہلانے والی ریاست سے یہی مطالبہ کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments