حوا کی بیٹیاں اور دندناتے بھیڑیے


بدقسمتی تو دیکھیں ہماری ریاست مدینہ کی بات کرنے والوں کے اس ملک میں حوا کی بیٹیوں سے ریاست مدینہ سے پہلے دورجہالت سے بھی بدتر سلوک حالیہ دنوں میں کیا جارہا ہے۔ آئے روز معصوم پھول اتنی بے دردی سے مسل دیے جاتے ہیں کہ سوچ کر بھی انسان کی روح کانپ اٹھے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ اب ہماری بچیاں اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ درندگی اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ بچیاں اپنے باپ، بھائی، چچا جو غیرت کے نام پر قتل کیا کرتے تھے آج اپنی ہوس کا نشانہ بنانے پر آ پہنچے ہیں۔

بچوں سے زیادتی کے واقعات پر مبنی محکمہ داخلہ پنجاب کی رپورٹ پنجاب اسمبلی میں پیش کی گئی، رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ستمبر 2019 تک بچوں سے زیادتی کے کل 1024 مقدمات رجسٹر ہوئے، 1024 میں سے 856 مقدمات کی تفتیش مکمل کرکے چالان عدالت میں جمع کرائے گئے، لاہورمیں ستمبر 2018 سے مارچ 2019 تک بچوں سے زیادتی کے 152 مقدمات رجسٹرہوئے۔ پنجاب میں 411 بچیاں زیادتی کا نشانہ بنیں۔ جس میں 10 بچیوں کو ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق ضلع لاہور میں 94 بچیوں سے زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوئے۔

جس خوفناک تعداد میں بچیوں سے زیادتی کے کیسز سامنے آ رہے ہیں، لگتا ہے جیسے ہمارا معاشرہ بچیوں کی پرورش کے لئے سب سے بھیانک معاشرہ بن چکا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کوئی واقعہ میڈیا پر رپورٹ نہ ہو۔ یہی حال رہا تو شاید وہ وقت دور نہیں جب بیٹیوں کی پیدائش پر انہیں پیدا ہوتے ہی مار دیا جائے گا۔ ابھی ایسے بہت سے واقعات آئے روز رپورٹ ہوتے ہیں جہاں کبھی غربت کبھی غیرت تو کبھی ونی اور کبھی زیادتی کے بعد بچیوں کا قتل کردیا جاتا ہے۔

لیکن حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں ایک مثبت پیش رفت ہوئی ہے جس میں پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی رکن سیمابیہ طاہر نے قرارداد جمع کروائی ہے جس کے متن میں کہا گیا ہے کہ زینب زیادتی و قتل کے واقعے نے پورے ملک کے درو دیوار ہلا دیے تھے اور اب 10 سالہ بچی فرشتہ کی تشدد زدہ لاش اسلام آباد کے جنگل سے برآمد ہوئی۔ بچیوں کو زیادتی کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کرنے والے مجرموں کو عبرت کا نشان بناکر سرعام پھانسی کی سزا دی جائے۔ جنسی زیادتی کرنے والے مجرمان کو سرعام پھانسی دینے سے متعلق بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے اقلیتی رکن جیمز اقبال کا بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا ہے۔

مجوزہ بل کے مطابق سات سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو سزائے موت دی جائے، اگر مجرم کی عمر 21 سال سے زائد ہو تو کم سے کم سو افراد کے سامنے پھانسی دی جائے، بل میں تجویز دی گئی ہے کہ  بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے 18 سال سے کم عمر مجرموں کو عمر قید کی سزا دی جائے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس بل پر کوئی عمل درآمد بھی ہو پائے گا یا نہیں؟ کیا ہم اپنی بچیوں کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہو سکے گے کہ نہیں؟ کیا اب بچیوں کو ایک بہتر مستقبل اور خوشحال زندگی میسر ہو گی یا نہیں؟ یا پھر بچیوں کی پیدائش پر دورجہالت کے طرزِ عمل کو اپنانا پڑے گا؟ خدارا اپنی بچیوں کی حفاظت صرف ریاست پر مت چھوڑیں، انہیں صرف باہر نہیں، اپنے قریبی احباب کی ہوس سے بھی بچائیں اور بچیوں پر پڑنے والی ہر نظر میں پیار اور ہوس کا فرق پہچانیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments