صحافی کا کام خبر دینا ہے نہ کہ خبر لینا


انور چوہان

\"chohan\"جوں جوں زمانہ ترقی کرتا ہے ہر شعبہ میں تبدیلی اور تیزی آجاتی ہے۔ سست روی کو کمزوری اور پسماندگی کا سمبل قرار دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کام ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے مگر آج تمام شعبہ زندگی کام ہوتا نظر آنے کا تاثر دیتے نظر آتے ہیں۔ کسی سرکاری شعبہ کو لے لیں کام نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ ماہ رمضان میں آپ کسی محکمہ میں کام کی غرض سے تشریف لے جائیں تو سیٹ پر براجمان صاحب جھٹ سے آپ کو عید کے بعد آنے کا عندیہ دیں گے چونکہ موصوف یہ سمجھتے ہیں کہ ماہ رمضان میں عوامی عبادت ممکن نہیں۔ ایسے میں درخواست گزار جب محکمہ کے سربراہ سے داد رسی کے لیے رجوع کرتا ہے تو وہ بھی سنی ان سنی کرتے ہوئے محض الفاظ کے ہیر پھیر سے مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح درخواست گزار مایوس ہو کر گھر کی راہ لیتا ہے۔ اگر کام کروانا مقصود ہو تو تو سرکاری دفاتر میں مروجہ طریقہ کار کو ہی اپناتا ہے۔ اگر آپ کا تعلق کسی بااثر گھرانے یا فرد سے ہے تو اہلکار کے گوش گزار کر دیں تو آپ کا کام فوری ہو جاتا ہے۔ آیندہ آپ کی کوشش ہوگی کہ کام سفارش یا بلیک میلنگ سے نکلوا لیا جائے۔

اکثر اوقات ملازمین اخبار میں خبر کے ڈر سے کام پر آمادہ ہو جاتے تھے مگر آج اس کا کیا کریں کہ ہر وہ شخص جس کو ڈھنگ کا کوئی کام نہیں ملتا وہ صحافت کے میدان میں صحافت کی الف ب جانے بغیر صحافتی اصولوں کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں اور ایک فاتح کی طرح جابجا اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے نظر آتے ہیں۔ ان کے طریقہ کار سے لاکھ اختلاف سہی مگر عوام میں میڈیا اور میڈیا سے وابستہ افراد کی عزت دو چند ہوگئی ورنہ سرکاری افسران اور اہلکار کسی بدمست ہاتھی سے کم نہ تھے۔ میڈیا نے ان کا قبلہ درست کیا، بڑے بڑے فرعونوں کی گردنوں سے سریا نکل گیا۔ آج حکام بالا اس وقت تک مسائل کی سنگینی کا احساس نہیں کرتے جب تک میڈیا شور نہ مچائے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا ریٹنگ کے چکر میں پڑ گیا، بعض اوقات تو اتنے مضحکہ خیز مناظر ٹی وی کی سکرین پر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ناظرین کا سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے یا غصہ سے تھپڑ مارنے کو جی کرتا ہے۔ کچھ ایسا ہی نادرا دفتر کراچی کے علاقہ میں ہوا جب میں نے پہلی دفعہ یہ فوٹیج اپنے ٹی وی پر دیکھی جس میں صائمہ نامی اینکر نادرا دفتر کے باہر ہونے والی بے ضابطگیاں اپنے کیمرہ کی آنکھ سے دکھانے کی کوشش کر رہی تھی مگر سکرین پر وہ لمحے جس میں ایف سی کا اہلکار قطار میں لگے عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک رہا تھا دکھا نہ سکی۔ ایف سی کے اہلکار نے کیمرہ کی آنکھ سے بچنے کی اپنے تئیں پوری کوشش کی اور خاتون ہونے کے ناطے اس سے گلو خلاصی کرانے اور پہلوتہی کی بھر پور کوشش کی لیکن محسوس یہ ہوتا تھا کہ خاتون صحافی بھی مار کھانے کی پوری تیاری کر کے آئی ہے۔ وہ صحافی خاتون جس کو اپنے محلہ میں کوئی نہ جانتا تھا آج چائے والے لڑکے کی طرح عالمگیر شہرت حاصل کر گئی ہے۔

دنیا میں کوئی بھی سسٹم خامیوں سے مبرا نہیں ہر جرم اور زیادتی کے لئے قوانین موجود ہیں۔ اگر یہی معاملہ کسی ترقی یافتہ ملک میں پیش آیا ہوتا تو اسے مروجہ قانون کے مطابق حل کرلیا جاتا مگر مملکت پاکستان میں جب تک کسی معاملہ کی بازگشت الیکٹرونک میڈیا پر سنائی یا دکھائی نہ دے اس کو معمول کی بات ہی سمجھا جاتا ہے۔

ایسے میں مجھے اس چرواہے کا واقعہ یاد آیا جو دانستہ یا نادانستہ اپنا ریوڑ کسان کی فصل میں چھوڑ دیتا اور ہر دفعہ اس کو اتفاقیہ قرار دے کر آیندہ ایسا نہ کرنے کا کہہ کر وہ حرکت دوبارہ کرتا۔ کسان فصل کے اجڑنے پر بہت پریشان رہتا مگر چرواہا کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر نکل لیتا۔ ایک دن کسان نے تہیہ کیا کہ وہ چھپ کر سارے معاملے کی جانچ کرے گا پھر کسی فیصلے پر پہنچے گا۔ حسب عادت چرواہا اپنے ریوڑ کو کسان کی فصل میں دانستہ چھوڑ کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ کسان کو اب کسی گواہی یا چھان بین کی ضرورت نہیں تھی لہٰذا کسان نے ایک تگڑا سا ڈنڈا لیا اور چرواہے کی مرمت شروع کر دی ایسے میں چرواہے نے روتے ہوئے پوچھنے کی جسارت کی کہ آخر ایک دم اس خاطر مدارت کی وجہ کیا ہے؟ جب کہ وہ بخوبی جانتا تھا۔ جب کسان نے اس کو بتایا کہ بے شمار دفعہ تم نے اپنے ریوڑ کو میری فصل میں محض اس لئے چھوڑا تا کہ میری فصل برباد ہو جائے، چرواہے نے قسم کھائی کہ آیندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا آج معافی دے دو کسان نے کہا کہ یہ بات تو میں عرصہ سے آپ کو سمجھا رہا ہوں اس کا مطلب ہے کہ تم صرف ڈنڈے کی زبان سمجھتے ہو۔ انسان وہ ہوتا ہے جو اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کا از خود احساس کرے اور اپنے فرائض ایمان داری سے ادا کرے۔

آج صحافت نے بھی ڈنڈے کی جگہ لے لی ہے۔ کوئی ادارہ اس وقت تک مظلوم کی فریاد نہیں سنتا جب تک میڈیا چیخ چیخ کر آسمان سر پر نہ اٹھا لے۔ ایسے میں مظلوم کی داد رسی بھی ہوتی ہے مگر اکثر اوقات ڈرامہ باز لوگ من گھڑت تماشا کر کے ہمدردیوں کے ساتھ ساتھ نوٹ بھی سمیٹتے ہیں۔ کچھ ناعاقبت اندیش صحافی حضرات بھی ان ڈراموں کا حصہ بنتے ہیں۔ بلاشبہ صحافت ایک عظیم پیشہ اور مشن ہے۔ اس پر آنچ نہیں آنی چاہیے۔ ہر شہر میں پریس کلب موجود ہیں جو اکثر مل بیٹھنے یا ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ صحافت کو بے لگام ہونے سے بچانے کے لئے صحافیوں کی پیشہ ورانہ تربیت کی ضرورت ہے۔ صحافی کا کام خبر دینا ہے نہ کہ خبر لینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments