جامع مسجد خدا آباد


کراچی سے انڈس ہائی وے (شاہراہِ مہران) کے ذریعے، بالائی (شمالی) سندھ کے شہروں کی طرف سفر کرتے ہوئے جب ہم سیوھن کے عظیم تاریخی شہر کو عبُور کرنے کے بعد دادو کی طرف بڑھتے ہیں، تو بھان سیّدآباد کا چھوٹا سا قصبہ عبُور کرنے کے بعد دادُو سے پہلے، سڑک کی دائیں جانب (مشرق میں ) ایک بہت ہی خوبصُورت مسجد ہر آنے جانے والے کی توّجہ اپنی طرف مبذُول کرانے میں کامیاب رہتی ہے، اور اس سڑک سے گزرنے والا ہر مسافر اس مسجد کو تا حدِ نگاہ دیکھتا جاتا ہے۔

تاریخ جانتی ہے اور اس کے ذریعے ہم سب بھی، کہ آج کل ایک اسٹاپ کی صُورت میں واقع یہ چھوٹی سی جگہ، جس کا نام تاریخی طور پر ’خدا آباد‘ ہے، کسی دور میں اپنا عرُوج دیکھ چکی ہے اور عرُوج بھی اس قدر عرُوج کہ یہ جگہ کلہوڑا دور میں سندھ کا دارالحکُومت رہ چکی ہے۔ سندھ کا دارالحکُومت تو اس مقام سے تھوڑی دیر قبل گزر چکنے والا شہر سیوھن بھی رہا ہے، (جو تب ’سیوستان‘ کہلاتا تھا، جب یہ سندھ کی گدّی تھا) ، مگر حسرت ’خدا آباد‘ کے ویرانے پر ہوتی ہے جہاں آج اس جامع مسجد اور اسی سے تھوڑے ہی فاصلے پر مغرب کی سمت واقع ’میاں یار مُحمّد کلہوڑو کے مقبرے‘ کے علاوہ اور کوئی قابلِ ذکر نشان موجُود نہیں ہے، جسے دیکھ کر یہ یقین کیا جا سکے کہ یہ مقام بھی کبھی سندھ جیسی عظیم ریاست کا دارالحکُومت تھا۔

یہی حال ’برہمن آباد‘ (جس کا بعد میں نام ’منصُورہ‘ رکھا گیا) کا بھی ہے، (بلکہ اُس کا حال تو خدا آباد سے بھی ابتر ہے، کیُونکہ وہ مقام سوائے آثارِ قدیمہ کے اب اور کچھ نہیں ہے۔ ) حالت ’کلہوڑا آباد‘ کی بھی کچھ الگ نہیں ہے، جہاں دیگر کلہوڑا حکمرانوں اور ان کے گھر کے افراد کے علاوہ میاں نُور مُحمّد کلہوڑو اور ان کی اہلیہ ’مائی گُلاں‘ بھی آرامی ہیں۔ کلہوڑا آباد کا مقام ’دولت پُور‘ صفن نامی قصبے کے قریب مشرق میں واقع ہے۔

سندھ میں موجُود ایسے شہر، قصبے، گاؤں یا علاقے، جو کسی زمانے میں سندھ (بحیثیت ریاست یا ملک) کے دارالحکُومت رہ چکے ہیں، اُن کے ماضی اور حال پر بھی کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں مگر آج کی اس نگارش میں صرف خدا آباد اور وہاں واقع جامع مسجد ہی کا ذکر مقصُود ہے۔ مگر اس حوالے سے تفصیلاً بات کرنے سے پہلے اتنا سُنتے چلئے کہ سندھ نے کلہوڑا دورِ حکُومت کے دوران جتنے دارالحکُومت تبدیل کیے اُتنے شاید کسی اور دور میں تبدیل نہیں کیے۔

یہ بھی یاد رہے کہ کلہوڑا دورِ حکُومت کے دوران دہلی میں مرکزی حکُومت مغلوں کی تھی اور سندھ میں کلہوڑے راج کر رہے تھے۔ مغل حکُومت کی شاخ یا فرینچائز ہونے کی وجہ سے کلہوڑا دور کے بیشتر حکمران ہرطرح سے مغلوں کو خوش کرنے میں مشغُول رہتے تھے اور اُن کی طرز حکمرانی سے لے کر اور بہت معاملات میں اُن کی نقل کیا کرتے تھے جس بات کی سب سے بڑی دلیل فنِ تعمیرات میں مغلوں کی دلچسپی ہے۔ جس کو جُوں کا تُوں کلہوڑوں نے اپنا لیا یہی وجہ ہے کہ آپ کو برِصغیر ہندوپاک میں جہاں ہر قریے اور ہر شہر میں مغلوں کی تعمیرات (بالخصُوص مساجد اور مقبرے ) نظر آئیں گے، اُسی طرح سندھ کے ہر علاقے میں آپ کو کلہوڑوں کی تعمیر شدہ مساجد اور مقبرے ملیں گے۔

ایک حکمران کے مرنے کے بعد اُس کے بیٹے یا بیوی نے جیسے اُس حکمران کا مقبرہ بنانا اپنا فرض سمجھا۔ اس عمل سے اور کچھ ہُوا یا نہ ہوا، مگر ایک تو ان حکمرانوں کو باقی حاکموں کی بنسبت زیادہ یاد رکھا گیا (رکھا جا رہا ہے ) اور دُوسرا یہ کہ مجمُوعی طور پُورا ہندوستان حسین تعمیرات سے سَج گیا۔ گویا برصغیر میں جتنی تعمیرات مغلوں اور کلہوڑوں نے کروائیں، اُتنی کسی اور حکمران نے نہیں کروائیں۔ کلہوڑوں نے 1701 ء سے لے کر 1783 ء تک  تقریباً 82 برس سندھ پر حکمرانی کی، جس کے دوران اُن کے 12 حکمران مختلف ادوار میں حکُومت کرتے رہے۔

خدا آباد کا یہ علاقہ اور یہ جامع مسجد، سندھ کے ضلع دادو میں، دادو شہر کے جنوب میں، اس سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر انڈس ہائی وے پر واقع ہے۔ مغل سلطنت کے دور میں ملتان کے گورنر مغل شہزادہ معزالدّین نے کلہوڑہ حکمرانوں کو زیرِ بار کرنے کے لیے 1700 ء میں کلہوڑوں کے مرکزی گاؤں ’گاڑھی‘ (جوموجودہ تحصیل خیرپور ناتھن شاہ میں واقع ہے ) پر حملہ کیا۔ گاج ندی کے کنارے ’کھوڑ‘ (ٹوڑ) کے مقام پر خونریز جنگ ہوئی، جس میں دونوں اطراف کے جرنیل مارے گئے۔

تاریخِ ’تحفتہ الکرام‘ کے مصنف، میر علی شیر قانع ٹھٹوی کے مطابق، اس لڑائی سے پورے علاقے میں خُون کے نالے بہے تھے۔ میاں دین محمد کلہوڑو گرفتار ہوئے اور ملتان میں 28 کارکنوں کے ساتھ مارے گئے، جبکہ اس کے چھوٹے بھائی میاں یار محمد کلہوڑو نے خان آف قلات کے وہاں پناہ لے لی۔ کچھ عرصے کے بعد ( 1701 ء میں ) میاں یارمحمد کلہوڑو واپس سندھ آئے اور گاؤں ’گاہا‘ (تحصیل جوہی) میں بیٹھ کر میانوال تحریک کو فعال کیا اور سامتانی، مرکھپور اور فتحپور (اب دادو ضلع کے گاؤں ) کے علاقوں پر اپنا اثر و رسُوخ بڑھایا۔

اسی اثنا میں میاں یار محمّد نے مغل شہنشاہوں کو بھی راضی کیا۔ مغل شہنشاہت نے اُسے ’خدایار‘ کا خطاب دے کر، سندھ پر حکومت کا پروانہ دیا، تو میاں یارمحمد کلہوڑو نے ’گاہا‘ گاؤں کے قریب پنہور قبیلے کی ’شکارپور پنہورکی‘ نامی بستی اپنے قبضے میں لے کر، اسے ’خدا آباد‘ کا نام دے کر نیا شہر برپا کیا اور اسے اپنی حکومت کا پہلا صدر مقام بنایا۔ سندھ کی تاریخ میں یہ بستی ’خداباد‘ کے نام سے پہچانی جاتی ہے اور کلہوڑا حکمرانوں کا پہلا بڑا صدر مقام یہی سمجھا جاتا ہے۔

اس شہر کے بارے میں مؤرخین کے بیانات تاریخ میں درج ہیں کہ یہ بڑے رقبے پر پھیلا ہوا شہر تھا۔ حکمرانوں کی حویلیوں کے علاوہ اور بھی بہت خوبصورت عمارتیں یہاں موجُود تھیں۔ اس شہر میں مختلف دیدہ زیب باغات بھی تھے۔ دریائے سندھ کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے یہ مقام تجارت کا مرکز بھی تھا۔ اس شہر میں میاں یارمحمّد نے اس جامع مسجد کی بنیاد ڈالی، جس کی تعمیرات کا کام اُس کے بیٹے میاں نورمحمد کلہوڑو نے مکمل کیا۔

یہ جامع مسجد آج بھی صفحہء ہستی پر موجود ہے، جو طرزِ تعمیر کی نادر مثال ہے۔ اس کی دیواریں، مغلیہ اور اسلامی خطاطی کے نادر نمُونوں سے آراستہ ہیں۔ یہ مسجد ایک ضخیم پلیٹ فارم پر تعمیرشدہ ہے جو زمین سے 8 فٹ اُونچا ہے۔ اس پلیٹ فارم کی لمبائی 92 فٹ اور چوڑائی 85 فٹ ہے۔ یہ مسجد مجموعی طور پر تین حصّوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصّے میں اس کے 3 گنبذ نظر آتے ہیں، جن کے اندر سندھ کی مخصُوص کاشی (مصّوری کے نمونوں سے سجی ہوئی دیدہ زیب اِینٹوں ) کا قابلِ رشک کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

ان کاشی کی اینٹوں کے اُوپر بھی گُلکاری اور پھُول بُوٹوں کا کام کیا گیا ہے۔ مسجد کی دیواروں کی موٹائی اندازاً 7 فٹ ہے جو اس عمارت کی مضبُوطی کی علامت ہے۔ مرکزی گنبذ کا سائز برابر والے دونوں گنبذوں سے بڑا ہے جس کی لمبائی 21 فٹ اور چوڑائی 20 فٹ ہے جبکہ باقی گنبذوں کا سائز 20 بائی 20 فٹ ہے۔ ان گنبذوں کی دیواریں، باقی مسجد کی دیواروں سے زیادہ موٹی ہیں جن کی ضخامت 11 فٹ ہے۔ مسجد کا دوسرا حصّہ ایک بغیر چَھت کے ایوان پر مشتمل ہے جس کی حیثیت مسجد کے برآمدے کی سی کہی جا سکتی ہے۔

اس حصّے کی پیمائش، لمبائی میں 25 فٹ اور چوڑائی میں 83 فٹ ہے۔ اس حصّے کی دیواروں کی موٹائی بھی گنبذوں کی طرح 11 فٹ ہے۔ اس حصّے میں تین دروازے نصب ہیں جن پر کنول کے پُھولوں کی گلکاری قابل دِید بھی ہے، تو قابلِ داد بھی اور اس دور کے ماہر کاریگروں کی مہارت کی مُنہ بولتی مثال بھی! مسجد کے اس حصّے پر بھی کاشی کی اِینٹوں کی کاریگری قابلِ تعریف ہے۔ یہاں کاشی کی 3 اقسام کی اینٹیں لگی ہوئی ہیں جن میں سفید، نیلے اور ہرے رنگ کی 8 بائی 8 انچ کی مربع شکل کی اینٹیں شامل ہیں، جو مسجد کی زیب و زینت میں بجا طور پر اضافہ کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ اس حصّے میں چھوٹی چھوٹی اینٹوں کو آپس میں ملا کر بھی دیوار پر چسپاں کیا گیا ہے اور بہترین نقاشی کی گئی ہے۔ اس مسجد کا تِیسرا حصّہ بڑا اور کشادہ صحن ہے، جس پر اندازاً 1500 لوگ با آسانی بہ یک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس صحن کی لمبائی 90 فٹ اور چوڑائی بھی 90 فٹ ہے۔ مسجد کا مرکزی دروازہ لکڑی کا بنا ہوا ہے اور بہت کشادہ ہے جس کی اُونچائی 8 فٹ ہے۔ اس کے 10 زینے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک اس مسجد کی حالت زبُون ہو چکی تھی اور گنبذوں میں بھی دراڑیں پڑ چکی تھیں مگر آئین کی 18 ویں ترمیم سے محکمہء آثار قدیمہ صُوبے کو منتقل ہونے کے بعد سندھ کے اور کئی آثارِ قدیمہ کی طرح جامع مسجد خدا آباد کی بھی تکنیکی اور پیشہ ورانہ انداز میں دیکھ بھال (کنزرویشن) ہونے کے بعد اب اس کی عمر اور بڑھ گئی ہے اور یہ مسجد اپنے قدیمی حسن کے انداز میں تروتازہ لگ رہی ہے۔

اس مسجد کی اہم اور اچھی بات یہ بھی ہے کہ یہاں آج بھی پنج وقتہ با جماعت نماز ادا ہوتی ہے ۔ اس کے بام و در میں آج بھی آذان کی آواز گُونجتی ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ اس شہر کے قریب میاں یارمحمد کلہوڑو کا مقبرہ بھی ہے جہاں ایک چھوٹا سا ریلوی اسٹیشن بھی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ضلع نوشہروفیروز میں ’ہالانی‘ شہر میں قومی شاہراہ (نیشنل ہائی وے ) پر تعمیر شدہ ’محراب مسجد‘ اس خدا آباد مسجد ہی کی طرز پر تعمیرکی ہوئی ایک قدرے چھوٹی مسجد ہے جو میر محراب خان (جن کے نام پر ’محراب پور‘ شہر آباد ہے ) نے اِسی مسجد کے نقشے کو ذہن میں رکھ کر تعمیر کروائی تھی اور اُسے خدا آباد مسجد کا چھوٹے سائز کا نمونہ یا ’ریپلیکا‘ کہا جا سکتا ہے۔

خدا آباد کا مقام اور یہ جامع مسجد اس خطّے کا عظیم ورثہ ہے اور اپنے ورثے کی حفاظت ہم میں سے ہر کسی پر فرض ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments