موجودہ تعلیمی نظام اور جدید غلام


فقیر تو ایک ہی مشہور ہے وہ جس کے پاس دولت نہ ہو۔ مگر اس معاشرے میں ہم اس فقیر کو بھول گئے جو کہ اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری کی بھیک مانگتا ہے (جس کو مہذب دنیا نے ایک نیا روپ دیا ہوا ہے جاب کا) لیکن اپنی مادری زبان کی خوب صورتی ہے کہ کوئی چیز پردے میں رہتی نہیں ہے۔ نوکری تو لفظ نکلا ہی نوکر سے ہے۔ جی ہاں وہی نوکر جس کو آپ حکم دیتے ہیں اور اپنی مرضی سے کام کرواتے اور اپنی مر ضی سے کام پر رکھتے اور نکال دیتے۔

اعلٰی تعلیم کے بعد بھی انسان نوکر بننے کو تیار ہو تا ہے!

ہمارا تعلیمی نظام ہم کو لیڈر بنانے کی بجائے نوکر اور غلام بنا رہا ہے۔ آج کل کے دور میں نوکری کی تلاش سب کو ہے۔ اگر اس کو دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک نوجوان ذہن ایک فقیر بن جاتا ہے۔ وہ فقیر جو بہت مجبور ہوتا ہے اور کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ مطلب کے تعلیم حاصل کر کے انسان ایک جدید فقیر بن جاتا ہے۔

اسی طرح نوکری مل جانے پر طرح طرح کی مبارک باد ملنی شروع ہو جاتی ہیں۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ وہ نوکری حاصل کر نے کے بعد ایک رو بوٹ بن چکا ہے جس کو اب وہ ادارہ چلائے گا اور جب دل کیا نکال دے گا۔ روٹی کی بھوک نے انسان کی سوچنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیا ہے۔ انسان اب خوب سے خوب کی تلا ش بھی پیسے دیکھ کر کرتا ہے۔

میر ا یہ ماننا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ہم کو بس اتنا علم دیتا ہے کہ جس کو حاصل کر کے ہم ایک جدید غلام اور نوکر بن سکیں۔ پچھلے وقتوں میں لونڈیاں اور غلام ہوتے تھے اور اب جدید قسم کے غلام بھی نظروں کے سامنے ہیں۔ یہ سب اس انگر یز ی نظام کے حامیوں کا کیا دھرا ہے جو آج ہم یہاں پر کھڑے! برصغیر میں انگریز اپنے دفاتر میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو رکھتے تھے اور اُن کو اجرت دیا کرتے تھے۔ ایک نوکر بننے کے لیے آج بھی بہت سے مراحل سے گزرنا پڑتاہے۔

ایک کاغذ کا سرٹیفیکیٹ، ایک انگریزی لباس، فر فر انگریزی، اور پھر انٹر ویو کے ایک دور سے گزر کر اور ادارے کی پسند پر آپ کو نوکر چنا جاتاہے۔ ادارہ آپ کے کام کے اوقات اور پیسا مقرر کرتاہے۔ جب بننا ہی نوکر ہے تو اتنی ذلالت کیوں؟ نوکر ہونے کے لیے اتنی تگُ دو؟ اس سب کے بعد آپ اپنی پوری زندگی اس ادارے کے نام کر دیتے ہیں اور وہ زندگی میں کائنات پر غور وفکر یعنی کے مسلسل جستجو مر جاتی ہے اور انسان صرف پیسے کمانے والی مشین (روبوٹ) بن جاتا۔

لارڈ میکالے کے مطابق:

برصغیر کا تعلیمی نظام انگریزوں سے دوچار ہندوستانیوں کی ایک کلاس تشکیل دے گا جو برطانویوں اور ہندوستانیوں کے مابین ثقافتی وسطی کا کام کرے گا۔

یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آج کے تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ طلب علم میں بھی علم کی جستجو ختم ہو گئی ہے۔ مجھے تو مسلمانوں کا وہ حسین ماضی یاد ہے جب سائنس اور طب کے شعبے میں مسلمانوں کا نام تھا جس میں ابن سینا، ال فاربی، جابر بن حیان، ابو ال قاسم الزہراوی، ابن ظہر اور بہت سے نام شامل ہیں۔ آج کے دور میں ایک اعلٰی تعلیم یافتہ شخص نہ صرف علم کی جستجو مار کے بیٹھا ہے بلکہ انگر یز حضرات کے بنائے ہوئے اداروں میں کام کرتا ہے۔

انگریز ہماری سوچ کو غلام کر کے اس برصغیر سے چلے گئے تھے اورہمارا تعلیمی نظام اور اس کا نصاب بھی انگریزوں کی جستجو پر مبنی ہے۔ غلام ابن غلام چلے آ رہے ہیں اور جا رہے ہیں اس دنیا سے۔ جستجو اور سوچنے کی ذمے داری انگریزوں کی ہے اور ہم ان کی بتائی ہو ئی چیز کو سمجھتے اور ان کے اداروں میں کام کر کے ساری زندگی غلامی کی زندگی گزار کے چلے جاتے ہیں۔ سب کچھ تو انگریزوں کا بنایا اور دیا ہوا ہے! ہم کو خود اپنے تعلیمی نظام کوصحیح کرنا ہو گا۔ ایسا تعلیمی نظام بنانے کی ضرورت ہے جو کہ لیڈر اور سائنسداں پیدا کرے۔ ایسا نظام نہ صرف ملک کی ترقی کا سبب بنے گا بلکہ دنیا میں پھر سے مسلمانوں کا شاندار دور آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments