صفدر زیدی کا ناول ’بھاگ بھری‘: دہشت کا سفر


پاکستان، افغانستان، عراق، شام اور کئی دوسرے ممالک کے امن و سکون کو تہہ و بالا کرنے والے جہاد کے نام پر دہشت گردی کے موضوع پر مکمل تفصیلات اور جزئیات کے ساتھ حقائق پر مبنی صفدر زیدی کا ناول ’بھاگ بھری‘ پچھلی دہائی /اس دہائی میں بلا شبہ اردو ادب میں ایک اہم اضافہ ہے، جس پر پاکستان میں (کم از کم میرے علم کے مطابق) اس موضوع پر کوئی ایسا ضخیم ناول نہیں چھپا۔ ( مجھے یاد ہے کہ 2010 میں پاکستان میں میرے ناول ”یہ جہاد“، جو اسی موضوع سے متعلق ہے، کی تقریبِ رونمائی کے دوران اور دوسری ادبی محفلوں میں ناول کے تعارف کے دوران اس سوال پر بہت بحث ہوئی کہ اس آتشیں موضوع پر پاکستان میں تا حال کسی خاص/بڑے ادیب نے کچھ کیوں نہیں لکھا۔

ہر بار اس موضوع پر بحث کے دوران مجھے محسوس ہوتا تھا کہ ان محفلوں میں موجود اشخاص اس بارے میں کھل کر بات کرنے سے بھی کتراتے تھے۔ اس کی وجہ شاید پچھلی دہائیوں میں انسانیت کو ذلیل و رسوا کرنے والی وہ صورت حال ہو سکتی ہے، جس کی کئی جیتی جاگتی مثالیں موجود ہیں اور جس میں زبان کھولنے والے کو کافر قرار دیا جا سکتا ہے، یا اس کی زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ )

افغانستان کی جنگوں میں پاکستان کا فریق بننا، اس کے معاشرے پر منفی اثرات، کچھ خاص طبقوں کا اس سے مالی فوائد حاصل کرنا، اور دوسرے طبقے کا انتہا پسند بننا اور ذہنی اور اخلاقی افلاس کا شکار بننا، اسلامائزیشن کے نام پر پاکستان کو پستیوں میں دھکیلنے کی کوشش، ایک فرقے کا دوسرے فرقے کو کافر قرار دینا، اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح سے تعلیم یافتہ طبقے کا متاثر ہونا جیسے موضوعات مصنف نے اپنے اس ناول میں نہایت مدلل انداز میں پیش کیے ہیں۔

ناول ’بھاگ بھری‘ کا بنیادی موضوع دہشت گردی ہے۔ ساری کہانی ساون/خالد کے گرد گھومتی ہے۔ مصنف نے ساری کہانی میں ساون/خالد کے دہشت گرد بننے کے ساتھ پاکستان کے اس سے متعلقہ موجودہ سنجیدہ مسائل اور آج کے مسلمان کو پستی کی طرف دھکیلنے والے ہر موضوع کو بڑے منظم طریقے سے تمام جزیئات اور تفصیلات کے ساتھ پیش کیا ہے، جن میں اقلیتوں سے نازیبا سلوک ( جیسے بھاگ بھری کا وڈیرے کے ہاتھوں استحصال، شیعہ اور احمدی لوگوں کا قتلِ عام )، غلط مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے جہادیوں کی برین واشنگ اور ان کو دی جانے والی نامکمل، محدود اور غلط دینی تعلیم، (جیسے احادیث کی غلط تشریح، تاریخ جیسے موضوع سے دور رکھنا، مرنے کے بعد جنت میں حوروں کے ملنے اور پاکیزہ شراب ملنے کے خواب دکھانا، احادیث کو اپنے ذریعے سچ ثابت کرنے کے لئے غزوہِ ہند اور ہندوستان میں لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کی یقین دہانی کروانا )، فوجی افسروں کا دہشت گردوں کی تنظیموں کا حصے دار ہونا، ضیا الحق کے دور میں اسلامائزیشن کا عمل، اسلام کے بارے میں سوچ کو محدود کر کے ایک فرقے کا دوسرے فرقے کو دائرہِ اسلام سے خارج کر دینا، زنا کاری کے الزام پر چار گواہ پیش نہ کر سکنے کی صورت میں عورت کو سزا ملنا، با اثر لوگوں کا دہشت گردوں کے گروہوں سے تعلق، قبرستان سے قبریں بارود سے اڑا دینا، مجرموں کا پکڑے جانے کے باوجود تھانوں سے رہا ہو جانا، امریکہ کا پاکستان اور ہندوستان کی سیاست پر اثر وغیرہ۔

یہ سب موضوعات پوری طرح مصنف کی گرفت میں ہیں، یوں لگتا ہے کہ جیسے اس ناول میں پیش آنے والا ہر واقعہ اس کے تجربے میں آ چکا ہو، اور قاری صرف ناول کے نہیں بلکہ تاریخ کے اوراق الٹا رہا ہو۔ مصنف نے پاکستان میں انتہا پسندی کی سوچ کے پروان چڑھنے اور اس پر عمل کا تجزیہ نہایت ٹھوس انداز میں کیا ہے، وہ سوچ جس نے پاکستان کو اس حد تک نیچے گرا دیا کہ اسے دنیا میں ایک دہشت گرد ملک کے نام سے جانا جانے لگا۔

مصنف نے پورے ناول میں تجسّس کی فضا برقرار رکھی ہے۔ ہر باب کے بعد ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ آگے کیا ہو گا۔

’بھاگ بھری‘ کا آغاز محبت کی علامت تاج محل کے دریائے ٹیمز پر نمودار ہونے سے ہوتا ہے۔ پہلے پیرے میں قاری یہ نہیں سمجھ سکتا کہ یہ وہی ہندوستان والا تاج محل ہے یا کہ ٹیمز کے کنارے کوئی نیا تاج محل بنا ہے۔ اگلے صفحے تک پہنچتے پہنچتے یونیورسٹیوں کے طالبعلموں کی گفگتو سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی بربادی کے بعد ہندوستان والے تاج محل کو ہی ٹیمز کے کنارے منتقل کیا گیا ہے۔ اور یہ کہ ”اگر ہندوستان کبھی پھر آباد ہوا تو اس امانت کو دوبارہ وہاں منتقل کر دیا جائے گا۔ “ پھر قاری کے ذہن میں نیا سوال پیدا کر دیا جاتا ہے کہ ہندوستان میں کیا پیش آ یا ہے؟

البرٹ کا سوال ’کیا آپ کے خیال میں مذہب کا کلچر پر غالب آجانا ہندوستان کی تباہی کا باعث تھا؟ (ص 19 ) گویا مصنف قاری کے ذہن میں ایک غیر محسوس طریقے سے ایک سوال ابھارتا ہے اور پھر قاری کو بے قرار رکھتا ہے کہ وہ اس کے جواب تک پہنچنے تک انتظار کرے۔

البرٹ ساری دنیا سے لوک کہانیاں اکٹھی کرنے کے پروجیکٹ پر کام کرتا ہے اور اس داستان کو سناتا ہے۔ ’یہ کہانی 1985 میں ہندوستان کے اس حصے میں شروع ہوتی ہے، جس کا نام اس وقت پاکستان تھا۔ ناول کا ابتدائی کردار ایک اچھوت عورت ہے۔

مرکزی کردار ساون کا ہے۔ پوری کہانی اس کے ارد گرد گھومتی ہے۔ اس کے کردار میں کہیں کوئی جھول دکھائی نہیں دیتی، نہ تو وڈیرے کے کمّی کے طور پر اور نہ ہی ایک دہشت گرد کے طور پر۔ وڈیرے کے پاس کام کرتے ہوئے بھی اس کے ذہن میں باغیانہ خیالات ابھرتے ہیں۔ لیکن اس کی ماں اس کو ٹھنڈا کرتی رہتی ہے اور ایک روز وہ ڈیرے سے بھاگ جاتا ہے اور مدرسے کے قاری کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ یہیں سے اس کی برین واشنگ کا عمل شروع ہوتا ہے۔ مدرسے کا اچھا کھانا اور اسلحہ اس کو کچھ سوچنے کی مہلت ہی نہیں دیتے۔ اس کو مسلمان بنایا جاتا ہے اور پھر اس کا نام ساون سے بدل کر خالد سفیان رکھ دیاجاتا ہے۔ اور ایک جہادی کے طور پر اس کی تربیت اس طرح شروع ہوتی ہے۔

ملا عمیر مجاہدین کی بیعت لینے کے موقع پر تقریر: ’اللہ نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 95 میں وضاحت سے فرما دیا ہے کہ:

”وہ جو جہاد نہ کریں وہ مجاہدوں کی برابری نہیں کر سکتے۔ میرے مجاہد ساتھیو آپ اللہ کے منتخب افراد میں ہیں، جن کو اللہ نے اپنے دین کو اس روئے زمین پر پھیلانے کے لئے منتخب کیا ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ ہمارا جہاد افغانستان میں اسلام کے نفاذ کے بعد ختم ہو جائے گا۔ افغانستان میں اسلام کے نفاذ کے بعد تو ہمارا اصل جہاد شروع ہو گا۔ جب ہمارا جہاد شروع ہو گا تو دنیا کے تمام مظلوم افغانستان میں عدل و انصاف کے مناظر دیکھیں گے۔

وہ سب آپ کو پکاریں گے کہ آپ آؤ! کہ جس نظام نے ہمارے بچوں کے اذہان کو غلام بنا دیا ہے۔ ہم اللہ کے حکم سے افغانستان میں سب سے پہلے مغربی تعلیم کو بند کر کے، تمام اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو اسلام کے مطابق ڈھال دیں گے۔ افغانستان میں ایک ایسا نظام ِ انصاف نافذ کریں گے کہ جس کی مثال اس زمین پر نہ ہو گی۔ ”

اسی سوچ کو ضیا ء الحق نے آگے بڑھا کر پاکستان کو پستیوں میں دھکیلنے کا جرم کیا تھا۔

اس کے بعد ساون /خالد کی باقاعدہ ٹریننگ کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کو ہتھیار تھما دیے جاتے ہیں۔ اس کے شیعوں کو مارنے، سرحد پار کر کے بھارت اور کشمیر میں خونریزی کرنے کی تفصیلات پوری جزیئات کے ساتھ قاری تک پہنچتی ہیں۔

”تم کو معلوم ہے کہ تم نے کس کو قتل کیا ہے؟ “

”ایک شیعہ کو اور اس کے ساتھ ایک شیعہ بچے کو۔ “

”تمہیں معلوم ہے کہ وہ ایک بہت بڑا ڈاکٹر تھا، جس نے ہزاروں لوگوں کی جانیں بچائی تھیں؟ “

خالد کا جواب: ”پھر تو بہت اچھا کیا اسے مار کر۔ مسلمانوں کو کسی کافر کا احسان نہیں لینا چاہیے۔ “

انچارج کا دانت بھینچ کر کہنا: ”خدا غارت کرے ان لوگوں کو جو لوگوں سے انسانیت چھین کر ان کو درندہ بنا رہے ہیں۔ “ (ص 105 )

اور انچارج یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ دو انسانوں کا قاتل ہے، اسے چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے، اور دہشت گرد خالد قانون کی گرفت میں آنے سے بچ جاتا ہے۔

مسلمان انتہا پسندوں اور ہندو انتہا پسندوں کی سوچ کا موازنہ بھی مصنف نے نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے، (ص 160 )

دہلی میں نجومیوں کی کانفرنس کے بعد:

’کانفرنس کی اس مشترکہ مستقبل بینی کی وجہ سے سیاستدان طرح طرح کے بیانات دینے لگے تھے۔ ہر کوئی اپنے نظریات کی بنا پر نجومیوں کی پیش گوئی کی تشریح کر رہا تھا۔ ہندو قوم پرست تحریکوں کے رہنما کا خیال تھا کہ اکھنڈ بھارت کا خواب بہت جلد حقیقت بننے والا ہے۔ گو کہ پاکستان میں نجومیوں کی پیش گوئیاں اتنا اثر نہیں کرتیں جتنا کہ ہندوستان میں، لیکن اسلامی انتہا پسند اس پیش گوئی کی تشریح اس طرح کر رہے تھے کہ غزوہِ ہند میں پاکستان کی کامیابی ہو گی اور اس کامیابی کے نتیجے میں اسلام کا جھنڈا ہندوستان پر لہرائے گا۔ ‘

”میرے پیارے مترو، ہندوستان کی راج نیتی ہزاروں برسوں سے جنگوں اور فسادوں کے ارد گرد گھوم رہی ہے، چاہے وہ مہا یُدھ ہو یا تقسیم کے دنگے۔ گجرات کے فسادات ہوں یا سکھوں کا قتلِ عام۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں راج نیتی انسانی خون کی بھینٹ مانگتی ہے۔ جو اس راج نیتی کی دیوی کو خون کی بھینٹ چڑھائے گا وہ اسی کے چرنوں میں بیٹھے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں جو آج مسلمان نظر آتے ہیں وہ اصل میں ہندو ہی تھے، جن کو عربوں ترکوں اور افغانوں کی بے رحم تلواروں کے خوف نے مسلمان بنا دیا تھا۔ اب ان مسلمانوں کو ان کے پرانے دھرم کی طرف ہی لوٹانا ہو گا۔ جیسے مغلوں کی تلواروں نے انہیں ہندو سے مسلمان بنایا تھا، اسی طرح سے اب ہماری تلواریں ان کو مسلمان سے ہندو بنائیں گی۔ “ (ص 153 )

دہشت گردوں کی برین واشنگ کا حال کہ ایٹمی میزائیل چل چکے ہیں۔ ہندوپاک تباہ ہو چکے ہیں۔ تابکاری اثرات سے انسان اور جانور ختم ہو چکے ہیں، کھیت اجڑ چکے ہیں، لیکن جہادیوں کے دماغ میں بٹھائی گئی باتیں ان کے ذہن سے نہیں نکلتیں، جن کی عکاسی ان مکالموں سے ہوتی ہے۔ ”

معاویہ: ”اللہ عذاب نازل کرے سفید کافروں پر، جنہوں نے یہ ایٹمی ہتھیار ایجاد کیے۔ “

خالد نے جواب میں کہا: ”کمانڈر صاحب، ایسے نہ کہیں، ہمارے سینکڑوں مسلمان سائنسدانوں نے بڑی محنت سے ایٹم بم ایجاد کیا تھا۔ “

معاویہ نے خالد کی اصلاح کرتے ہوئے کہا:

”ہم نے ایٹم بم ایجاد نہیں، چوری کیا تھا۔ “

معاویہ کی بات سن کر خالد خاموش ہو گیا۔

خالد کو خاموش دیکھ کر معاویہ سوچنے لگا: ”اگر مجھے ایٹم بم کی تباہی کا اندازہ ہوتا تو میں قاری صاحب کو مشورہ دیتا کہ وہ ہندوستان کو جنگ پر نہ اکسائیں۔ “ لیکن۔ لیکن وہ غزوہِ ہند، ! وہ حدیث میں غلبۂ ہند کی بشارت! نہیں نہیں۔ حدیث کبھی جھوٹی نہیں ہو سکتی، یقیناً مسلمان یہاں پر حکومت کریں گے۔ اس خطے کے چپے چپے پر مسجدیں ہوں گی، تب بت پرستی کا نام و نشان تک ڈھونڈے سے نہ ملے گا۔ ”

مصنف نے اپنے ناول میں ہندوستان اور پاکستان کے بیچ ایٹمی ہتھیار چل جانے پر امریکہ کے دوغلے کردار کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

پاکستانی جنرل کے ایٹمی میزائل داغنے کے بعد :

”میزائیل لانچ ہوتے ہی سی آئی اے نے صدر امریکہ کو اس وقعے کے بارے میں بتا دیا، جنہوں نے فوراً ہی ہاٹ لائن پر وزیرِ اعظم ہندوستان کو فون کر کے دفاعی اقامات کی ہدایت کی۔ حکومتِ ہند اس خبر سے لرز گئی تھی۔ ہندوستانی آرمی کی کمان نے فوراً امریکہ کی فراہم کردہ میزائل دفاعی ڈھال کو متحرک کر دیا۔ “

”دفاعی شیلڈ کو متحرک کرتے ہی حکومتِ ہند نے اسلام آباد پر ایٹمی میزائیل داغنے کا حکم جاری کر دیا۔ امریکا انڈیا اور پاکستان کی ایٹمی تنصیبات میں ہونے والی حرکات و سکنات پر ہمہ وقت نظر رکھے ہوئے تھا۔ ہندوستان سے میزائل داغے جانے کا حکم جاری ہوتے ہی امریکا نے پاکستانی حکومت کو آگاہ کر دیا۔ پاکستان کے دفاعی حکام نے فوراً میزائل دفاعی ڈھال کو متحرک کر کے اپنی ہوائی حدود محفوظ کر لیں۔ “ (ص 196 )

دونوں اطراف دفاعی نظام کے متحرک ہونے کے باجود پاکستان اور ہندوستان سے چلنے والے میزائلوں کے کے نتیجے میں ایٹمی تابکاری کے ہیبت ناک نتائج سامنے آتے ہیں، جس کے سارے خطے کی زندگی کو مفلوج کر دینے والے خطرناک اور دیرپا اثرات تفصیل سے بیان کر کے مصنف نے اپنے ناول کے قاری کو آگہی دینے کا ایک فرض انجام دیا ہے۔

ساون/خالد کے انجام لئے بھی قاری متجسس ہے کہ کیا خالد آخری وقت تک خالد رہے گا یا واپس ساون بن جائے گا۔

ساون ایٹمی تابکاری کے اثرات سے ہلاک ہونے کے قریب ہے، لیکن افغانستان میں خلافتِ اسلامیہ کے جھنڈے لہرانے کی بات کرتا ہے۔ ایک سکھ کھڑک سنگھ اس کی آنکھیں کھولتا ہے اور اس کے ذریعے اس کو اسلام کی حقیقت اور تاریخ کا پتہ چلتا ہے۔ زندگی کی آخری سانسیں لیتے ہوئے وہ اپنے جرائم کا اقرار کرتا ہے اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ اسے اس کے پرانے نام ساون سے بلایا جائے۔

مجموعی طور پر ناول ”بھاگ بھری“ پچھلی دہائی کے بہترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔

پوری کہانی پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ ناول کا نام بھاگ بھری کی بجائے شاید ساون ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا، کیونکہ ناول کا مرکزی کردار ”ساون“ ہے۔ بھاگ بھری کا کردار۔ وہی پرانی وڈیروں کی زیادتی کا شکار ہونے والی ایک عام اچھوت عورت کی کہانی ہے، جس نے ایک وڈیرے کے ناجائز بچے کو جنم دیا، اس بچے کو کھو دیا، پھردوبارہ ملنے پر اس کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے پایا۔ آخری حصے میں کچھ مواقع پر بھاگ بھری کے خالد کے اسلام کی تشریح کے جواب میں کچھ مکالمے زوردار ہیں، لیکن ناول کے نام کی کہانی سے زیادہ مطابقت نہیں۔ اور ویسے بھی بھاگ بھری کا مطلب ہے ”اچھی قسمت والی ’لیکن کہانی میں اس کی قسمت صرف چند لمحوں کے لئے اپنے بیٹے ساون سے دوبارہ ملاقات کے علاوہ ساری کہانی میں کہیں بھی اچھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments