گرفتاری پر احتجاج کرنے والوں کی گرفتاری پر احتجاج کرنے والے گرفتار


وطن عزیز میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی انسانی حقوق کے کارکن یا کسی بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے شخص کو جبری گمشدہ یا بغاوت کا مقدمہ نہ بنایا گیا ہو۔ نئے سال کی آمد تمام ترقی پسندوں اور جمہوریت پسندوں کے لیے بھاری رہی اور ایک نئے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ ویسے تو یہ سلسلہ بہت طویل ہے جس کا احاطہ راقم الحروف کے بس کی بات نہیں مگر ایک لہر طلبہ یکجہتی مارچ سے شروع ہوئی جب لاہور میں طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین اور مقررین پر بغاوت کا مقدمہ ریاستی سرپرستی میں درج کیا گیا نشانے پر چنیدہ لوگ رکھے گئے ڈاکٹر عمار علی جان، فاروق طارق، کامل خان، اقبال لالہ (والد مشال خان) اور وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پنجاب یونیورسٹی کے طالبعلم عالمگیر وزیر شامل تھے۔

ویسے تو وہ تمام لوگ جو جبری طور پر لاپتہ کیے گئے ان کی تفصیل لکھنا ممکن نہیں جیسے ادریس خٹک، ایڈوکیٹ شفیق، انعام الرحیم، وہاب بلوچ جن میں سے کچھ کی واپسی بھی ممکن ہو گئی اور کچھ کی قسمت کا فیصلہ ابھی باقی ہے کہ آیا ان کی باقی عمر کسی زنداں میں ہی گزرے گی یا کسی ویرانے سے تشدد زدہ لاش ملے گی (خدا نہ کرے)۔ بات کرتے ہیں تازہ لہر کی جو نئے سال کے پہلے مہینے میں آئی اور یہ تاثر گہرا ہو گیا ہے کہ اب کی بار ریاست نے تمام ترقی پسندوں، جمہوریت پسندوں، برابر کے حقوق مانگنے اور آئین کی بالادستی کے خواہاں لوگوں کو دیوار سے لگانے کا عزم کر لیا ہے۔

27 جنوری کو پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ منظور پشتین کو صبح دو بجے پشاور سے گرفتار کیا گیا اور اس گرفتاری کے خلاف 28 جنوری کو مختلف ممالک کے 32 شہروں میں احتجاج کیا گیا نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے انسانی حقوق کے کارکنوں کی طرف سے ایک مظاہرے کا اہتمام کیا گیا۔ خراب موسم کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جس میں ملک کے باشعور اور پڑھے لکھے شہری سیاسی کارکنان اور قومی اسمبلی کے نمائندے بھی شامل تھے۔

ایک مکمل پرامن احتجاج جب اختتام پذیر ہوا تو پولیس نے بدترین کریک ڈاؤن کیا معزز شہریوں، قومی اسمبلی کے ارکان اور خواتین کو گھسیٹا گیا اور 30 لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعد ازاں 6 لوگوں کو رہا کر دیا گیا اور 23 لوگوں پر بغاوت، نقص امن اور انارکی پھیلانے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ان تئیس لوگوں میں اکثریت انتہائی تعلیم یافتہ باشعور اور اعلی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل لوگوں کی ہے کچھ طالبعلم ہیں اور سب میں ایک قدر مشترک ہے کہ وہ عدم تشدد کے داعی ہیں۔

پولیس نے ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات کا ذکر تک نہیں کیا مگر ضمانت کی درخواست پر سماعت کرنے والے جج موصوف نے اس بات پہ بھی زور دیا جس کا فسانے میں ذکر بھی نہیں تھا۔ بہرحال اس اقدام کی پرزور مذمت کی گئی اور احتجاج کیا گیا۔ ایسا ہی ایک احتجاج 2 فروری کو فیصل آباد میں عوامی ورکر پارٹی کے کچھ ارکان کرنے کے لیے جمع ہوئے تو 8 افراد کو حراست میں لے لیا گیا جن میں ایک 73 سالہ خاتوں سمیت تین عورتیں بھی شامل تھیں۔ تو منظر کچھ یوں ہے کہ غیر قانونی گرفتاریوں کے خلاف آواز اٹھانے پر گرفتار کیے گئے شخص کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیے گئے لوگوں کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر جاوید جان کے کچھ اشعار ان لوگوں کی نذر جو سمجھتے ہیں کہ نظریات اور آوازیں گولی اور لاٹھی کا شکار ہو سکتے ہیں۔

اے میرے دشمن اے میرے قاتل

یہ ہاتھ ٹوٹیں یا دار چوموں

تمہاری شہ رگ کو کاٹنا ہے

میرے بدن کو جو روند ڈالو

میں پھر خاموش کب رہوں گا

میں اپنے لفظوں کی سولیوں پر

تمھارے جیسوں کو موت دوں گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments