مختلف اور غلط کا فرق


انسانی نفسیاتی ایک گنجلک اور پیچیدہ موضوع ہے۔ انسانی نفسیات کو مکمل طور پر سمجھنے کا دعویٰ آج تک کوئی نہیں کر پایا۔ یوں سمجھ لیں کہ اس موضوع کے اتنے ہی مضامین یا پہلو ہیں جتنے اس زمین پر رہتے بستے زندہ انسان۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ کوئی اس موضوع کے ہر پہلو پر عبور حاصل کر سکے یا ایسا کوئی دعویٰ کرے۔

میرے مطابق موجودہ دور میں ضرور ہے کہ ہر فرد بنیادی نفسیاتی علوم سے واقف ہو اور روزمرہ زندگی میں ان معلومات کو بروئے کار لاتے ہوئے آگے بڑھے۔

انسانی نفسیات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سامنے موجود فرد کو اس کی اپنی ذاتی حیثیت میں مکمل سمجھ کر اس کا تجزیہ کیا جائے اور اس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے بہت محتاط رویہ اپنایا جائے۔ علاوہ ازیں یہ کہ کسی رائے کو حتمی نہ سمجھا جائے کیونکہ انسان مختلف اوقات میں مختلف ذہنی حالتوں میں ہوتا ہے اور ان کے مطابق ایکٹ کرتا ہے جو ایک نارمل بات ہے۔

لیکن ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ کسی کو ہنستے دیکھ لیا تو خوش مزاجی کی سٹیمپ لگا دی، غصے میں دیکھا تو غصیل کا ٹھپہ۔ جبکہ آپ کو چند مرتبہ یا زیادہ تر مسکراتا ہوا دکھائی دینے والا شخص ضروری نہیں کہ ہمیشہ اسی حالت میں رہتا ہو اور کبھی بھی اداسی یا قنوطیت کا شکار نہ ہوا ہو اسی طرح عموماً غصے یا بیزاری کی حالت میں دکھائی دینے والا شخص بھی ضروری نہیں کہ ہمیشہ اسی حالت میں رہتا ہو اور نرمی، محبت یا خوشگواری جیسے احساسات سے بالکل عاری ہو۔

اس لیے ضرور ہے کہ فرد کی حسیّات اور جبلیات کا موازنہ دوسروں سے یوں نہ کیا جائے کہ فلاں شخص کسی دوسرے سے بہتر ہے یا بدتر بلکہ اگر موازنہ مقصود ہو بھی تو دیکھا یہ جائے کہ اک فرد دوسرے سے کتنا مختلف ہے پھر ان اختلافات کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو کسی منطقی نتیجے پر پہنچنا نہ صرف آسان ہو سکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں آپ کے ذہن میں دوسروں کے لیے مخصوص اور روایتی قسم کے منفی احساسات کا پیدا ہونا بھی نامحسوس طریقے سے ختم ہوتا چلا جاتا ہے۔

علم نفسیات ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم دوسروں کو ان کے رویوں پر گنجائش دیں۔ نفسیات کا علم ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کسی کا کوئی رویہ ہمارے لیے ناپسندیدہ بھی ہو تو ضروری نہیں کہ اسے آڑے ہاتھوں لیا جائے بلکہ ہم یہ سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں کہ یہ رویہ یا یہ ایکٹ کسی وقت کیفیت کا ردعمل بھی ہو سکتا ہے۔

ایک انسان اگر اندروں بین اور دوسرا بروں بین تو نفسیات کی اصطلاح میں اسے انفرادی اختلاف کہا جائے گا نہ کہ کسی ایک کو صحیح اور ملنسار جبکہ دوسرے کو غلط اور قنوطی۔

اسی طرح اگر ایک فرد زود رنج ہے اور فوری یا شدید ردعمل ظاہر کرتا ہے جبکہ کوئی دوسرا اپنے اعصاب پر قابو پانے کی قوت اور مہارت رکھتا ہے تو اسے بھی انفرادی اختلاف ہی سمجھا جائے گا۔

ہمارے معاشرہ کا سب سے بڑا المیہ ہماری معاشرتی اور مذہبی اقدار کا بے جا تسلط ہے۔ وہ معیارات جو انسانی زندگیوں کو سہل بنانے کے لیے قائم کیے گئے ہم نے ان آسانیوں کو اپنی انفرادی خواہشات کے بھینٹ چڑھا کر مجموعی طور پر مکدر فضا قائم کر ڈالی۔ ہمارے ہاں باقاعدہ کاؤنسلنگ کا کوئی کانسیپٹ ہی موجود نہ ہے ایسے میں ضروری ہے کہ ہم اپنے اپنے طور پر دوسروں کی بات سننے اور سمجھنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کریں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی بات کہنے کا ڈھنگ بھی سیکھیں۔

کاؤنسلنگ کی بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ دوسرے کو اپنی بات کہنے کا بھرپور موقع دیا جائے اسے مذہبی یا معاشرتی محدودات کی دہائی دے کر اس کی بات مکمل کرنے سے روکا نہ جائے کیونکہ نفسیات کا علم ہی ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اکثر اوقات محض اپنی بات کہہ لینے سے ہی فرد کو بہت ساری ذہنی الجھنوں سے چھٹکارا حاصل ہو جاتا ہے یوں وہ ذہنی طور پر آسودہ ہو سکتا ہے جبکہ اپنے محسوسات، خیالات اور سوال کو اندر ہی اندر دباتے رہنے اور خود ہی ان کے جوابات دینے اور پھر نتائج اخذ کرتے رہنے سے ذہنی الجھنوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی لیے ابلاغ کو انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور انسان کے زمین پر ظہور کے ساتھ ہی ابلاغ کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔

ایک انسانی ذہن کو آسودہ اور متحرک رکھنے کے لیے سب سے اہم ترین چیز مؤثر ابلاغ ہے اور مؤثر ابلاغ کی بنیادی ضرورت علمِ نفسیات کا ممکنہ حصول۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments