مخدوم محمّد معین ٹھٹویؒ اور محمّد ہاشم ٹھٹویؒ: اپنے عہد کے دو جیّد عالم


آج 18 ویں صدی کی، سندھ کی، دو انتہائی معتبر اور اہم شخصیات کا ذکر مقصُود ہے، جن کی علمی خدمات آنے والے زمانوں تک فراموش کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ان دونوں شخصیات کا تعلق ٹھٹہ کی اُس عظیم سر زمین سے ہے، جو آج کل تو پان گُٹکے کے استعمال کے لحاظ سے پاکستان کے بدنام ترین شہروں میں سے ایک ہے، جہاں کی عمارتوں کی دیواروں پر کوئی بھی رنگ کروا دیں، اُس کی بنیادوں نے بہر حال پان کی لالی میں لال ہی ہونا ہوتا ہے، مگر یہی ٹھٹہ، سیوستان (موجودہ سیہون) اور روہڑی کی طرح ماضی میں علم اور عرفان کا محور و مرکز رہا ہے، جہاں کے کتبخانے، مدرسے اور قد آور عالم، عالمِ اسلام ہی میں نہیں، بلکہ یورپ اور دیگر مغربی ممالک تک مشہور تھے۔

ان میں سے ایک عالم، مخدوم محمّد معین ٹھٹویؒ 1675 ء میں پیدا ہو کر 1747 ء میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے، جبکہ دوسرے عالم، مخدوم محمّ ہاشم ٹھٹویؒ، جو مخدوم معین کے شاگرد بھی کہے جاتے ہیں، 1691 ء میں پیدا ہو کر 1760 ء میں اس جہان سے چلے گئے۔ مخدوم محمّد معین ٹھٹویؒ (جن کا عرف ِعام ”مخدُوم میاں ٹھارو“ تھا) ، مخدوم محمّد ہاشم ٹھٹوی ؒکے اُستاد تھے یا نہیں تھے، اس حوالے سے قلمی شواہد بہت کم ملتے ہیں، البتہ یہ حقیقت مسمّم ہے کہ دونوں کے درمیان بہت بڑے پیمانے کے علمی اختلافات اور مناظرے تک ہوتے رہے۔

اس کے باوجود ان دونوں جیّد علماء کی علمی حیثیت اور کارناموں سے دُنیا کا کوئی بھی علم شناس انکار نہیں کرسکتا۔ مخدوم محمّد معین ٹھٹویؒ، میمن قوم سے تعلق رکھتے تھے اور موجودہ بدین ضلع کے علاقے ”رُوپا“ کے باشندے تھے، جہاں سے اُن کے والد کُوچ کر کے ٹھٹہ میں آباد ہوئے، مخدوم محمّد معین، مخدوم عنایت اللہ کے شاگرد بنے اور میاں ابوالقاسم درس ولد شیخ عبیداللہ نقشبندی کی صُحبت میں رہے۔ میاں ٹھارو کے ساتھ سندھ کے باشندوں کی عقیدت اس لیے بھی زیادہ ہے، کہ وہ سندھی زبان کے عظیم ترین شاعر، حضرت شاہ عبدللطیف بھٹائیؒ کے نہ صرف ہمعصر تھے، بلکہ اُن کے دوست بھی تھے۔

شاہ سائیں ؒ کے ساتھ میاں ٹھاروؒ کی فارسی خط و کتابت اپنے دور کی سربستہ تاریخ ہے۔ مخدوم محمّد معین ٹھٹویؒ، کپڑے کی بُنَت کا کام کرتے تھے، جس سے متاثر ہو کر شاہ لطیفؒ نے اپنے کلام میں اس پیشے اور یہ کام کرنے والوں کا بہت نفاست اور کثرت سے ذکر کیا ہے۔ مخدوم معینؒ، ٹھٹہ اور باقی سندھ کے اُس وقت کے تمام عالموں میں سورج کی طرح نمایاں تھے۔ فقہ اُن کی مہارت کا خاص موضوع تھا۔ وہ کئی کتب کے مصنف ہیں۔ اُنہوں نے فارسی اور ہندی میں ”تسلیم“ اور ”بیراگی“ کے تخلص سے کئی اشعار بھی کہے۔

طویل مفہوم کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا میاں ٹھاروؒ کا خاصہ تھا۔ اُن کے پاس بڑے امراء، حکام اور اہم شخصیات علمی مسائل حل کروانے کی غرض سے آتی رہتی تھیں۔ وہ شریعت کی سختی سے پابندی کرتے تھے اور ”السماع معراج الاولیاء“ کے قائل تھے۔ لحٰذا سماع کا خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے۔ میاں ٹھاروؒ اُن خوش قسمت علماء میں سے تھے، جن کا نام اُن کی حیات میں ہے درخشاں رہا۔ وہ اعلیٰ درجے کے انسان اور اپنے خون پسینے کی کمائی سے زندگی بسر کرنے والے محنت کش تھے۔

مخدوم محمّد معین ٹھٹویؒ کی وفات پر شاہ لطیفؒ، بذاتِ خود اُن کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے بھٹ شاہ سے ٹھٹہ تشریف لائے، بلکہ مضبوط روایت کے مطابق اُن کی نمازِ جنازہ بھی شاہ لطیفؒ نے ہی پڑھوائی، جس کے بعد شاہ سائیں ؒ نے فرمایا ”اب ہمارا ٹھٹہ میں کون ہے کہ ہم آئیں۔ ہم اب اِس شہر میں کبھی نہیں آئیں گے! “ ہُوا بھی ایسا ہی کہ شاہ لطیفؒ اپنی باقی زندگی میں پھر کبھی ٹھٹہ تشریف نہیں لائے۔ اُن کے اس بیان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ شاہ لطیفؒ کا مخدوم محمّد ہاشم ٹھٹویؒ کے ساتھ کوئی علمی یا ذاتی تعلق نہیں رہا۔

ساتھ ساتھ عالموں کے گڑھ۔ ٹھٹہ جیسے شہر میں ایک عظیم عالم کی نمازِ جنازھ میں (جس میں دُور دراز سے اسی قد کے کئی علماء شرکت کے لیے موجود ہوں گے ) شاہ عبداللطیف بھٹائی کا امام بننا، خود شاہ سائیں ؒ کی عظیم علمی قامت کی گواہی دیتا ہے، جس کا ان کے پیچھے نماز ادا کر کے خود اس دور کے ان کے معاصرین علماء نے اقرار کیا۔

شیخ الحدیث، مخدوم محمّد ہاشم ٹھٹویؒ ایک باشریعت بزرگ، زاہدالزماں، ایک گوہرِ یگانہ اور علمی خزینہ تھے۔ اُن کے والد، مولوی عبدالغفور سندھیؒ، ٹھٹہ ضلع کے شہر میرپور بٹھورو کے مکین تھے۔ اُن کے جدِ ہائے امجد ’قریشی‘ قبیلے سے متعلق تھے۔ مخدوم ہاشمؒ نے فقہ کے امُور مخدوم ابوالحسن میمن ٹھٹویؒ سے سیکھے۔ تحریر و تقریر میں مہارت اور نام پیدا کر کے انہوں نے مخدوم محمّد معین ٹھٹویؒ سے کئی علمی بحث مباحثوں میں اختلاف رکھا۔

اُن کے دور میں کئی غیر شرعی کار گزاریاں ہوئیں، جن کو اُنہوں نے انتہائی علمی تدبّر سے طے کیا۔ مخدوم ہاشمؒ کی ہر تصنیف عالمانہ اورمحققانہ ہے۔ اُنہوں نے 350 سے زائد کتابیں تصنیف کیں، جبکہ ایک ہزار سے زائد فقہی مسائل بھی سمجھائے۔ اُن کی کچھ کتب یورپ اور ہندوستان کے اہم کتبخانوں کی زینت ہیں، جبکہ اُن میں سے کچھ مصر میں بھی درسی کتب کے طور پر آج تک پڑھائی جاتی ہیں۔ سندھی زبان میں اُن کی شہرہ آفاق تصانیف میں ”ذبحِ شکار“، ”زاد الفقیر“، ”فرائض الاسلام“ اور ”قوۃ العاشقین“ شامل ہیں۔

”بیاضِ ہاشمی“ اُن کا لافانی شاہکار ہے، جو تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ مخدوم محمّد ہاشم ٹھٹویؒ کا میری نظر میں سب سے بڑا کارنامہ، آنحضرتﷺ کا زندگی بھر کا روزنامچہ ترتیب دینا اور تحریر کرنا ہے، جو عربی زبان میں ہے اور جسے دُنیا کی ہر زبان میں ترجمہ ہونا چاہیے۔ یہ اعزاز مخدوم ہاشمؒ کے علاوہ کسی اور اُمّتی کے حصّے میں نہیں آیا۔ اُنہوں نے سن 1722 ء میں حج کیا، جہاں جا کر مدینہ منورہ میں اُنہوں نے دین کا درس دیا۔

واپسی پر وہ ہندوستان میں ”سُورت“ کی بندر گاہ پر ٹھہرے، جہاں سید محمّد اسد اللہ سُورتی نقشبندیؒ کے معتقد بنے۔ مخدوم عبداللطیف اور مخدوم عبدالرحمٰن مخدُوم ہاشمؒ کی اولادِ نرینہ تھے۔ اسلامی اقدار و روایات کے تحفظ کے حوالے سے اُنہوں نے اپنے دور کے حکمرانوں، بشمول احمد شاہ ابدالی، میاں غلام شاہ کلہوڑو اور نادر شاہ کے ساتھ نکتہ چینی پر مشتمل سخت خط و کتابت بھی کی۔

میں نے ان دونوں جیّد عالموں کے حوالے سے سخت اختلافات کی روایات کا سُن کر اپنے مُربّی استاد اور اپنے دور کے عظیم عالم، ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ سے یہ سوال کیا تھا کہ وہ مجھے اُن امور کے حوالے سے آگاہ کریں، جن کی وجہ سے اُن دونوں کے درمیان اختلافات رہے، تو ڈاکٹر بلوچ صاحب نے اپنے علمی قد و قامت کے عین مطابق مجھے یہ جواب دے کر خاموش کرا دیا کہ: ”دو بڑے پہاڑوں کی چوٹیاں ہی ایک دوسرے کو دیکھ سکتی ہے۔ اور ہم ٹھہرے ان دونوں پہاڑوں کی اوٹ میں پستی میں کھڑے! “

مخدوم محمّد معین ٹھٹویؒ اور مخدوم محمّد ہاشم ٹھٹویؒ، ٹھٹہ میں مکلی کے تاریخی قبرستان میں ایک دوسرے کے پڑوس میں آرامی ہیں۔ اللہ ہمیں ان دونوں کے عالمانہ فیض سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین! )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments