میرے پاس آپ کے سیشنل مارکس ہیں


ہم جب بھی اپنی نجی محفلوں میں بیٹھیں یا اپنے اردگرد معاشرتی رویوں کو دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ حسد، کینہ، لالچ، خوشامد اور مبالغہ آرایاں تباہ کر دینے کی حد تک اجناس میں سرایت کر چُکی ہیں۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟

ایسا کیوں ہے کہ حق بات کرنے کی بجائے ہمیشہ ڈنگ ٹپاؤ مُہم کو ترجیح دی جاتی ہے؟

ایسا کیوں ہے کہ ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ اپنے سینئر سے بنا کر رکھنا؟

ایسا کیوں ہے کہ ”boss is always right“ جیسے جُملے کو آج تک کوئی بھی چیلینج نہیں کر سکا؟

ایسا اس لیے ہے کیونکہ ہماری جامعات انسانوں کی ایسی کھیپ نکالنے میں ناکام ہیں جو اپنی دائرے سے باہر سوچ سکیں۔ جو بھی طالب علم کسی جامعہ سے فارغ التحصیل ہو کر نکلتا ہے اُس کے اگلے ایک دو سال تو بس یہی سوچنے میں گُزر جاتے ہیں کہ اُس نے پڑھا کیا تھا۔ نوکریوں کے حُصولکے لئے جو ٹیسٹ لیے جاتے ہیں اُن کا اُس کی چار یا پانچ سالہ تعلیم سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔

گریجوئٹ ہونے کے بعد اُسے کوئی گائیڈ اُٹھانی پڑتی ہے جس کے کثیرالانتخاب سوالات کو رٹا مار کر وہ کوئی نوکری حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اس کی سو فیصد ذمہ دار ہائر ایجوکیشن کمیشن اور جامعات کا نظام ہے جو طالب ِ علموں کو لیڈر نہیں، ماتحت بناتا ہے۔

جو سکھاتا ہے کہ اگر تمہاری وجہ سے استاد کے ماتھے پر شکن آئی تو تمہاری ڈگری خطرے میں پڑ جائے گی۔

جو اس امر کی ترویج کرتا ہے کہ کتاب پڑھ کر سوچنا چھوڑو اور فقط نوٹس سے کام چلاؤ۔ ہمارے ہاں کتنی ہی جامعات ہیں جہاں کورسز کے اندر کتابوں کا ٹیکسٹ پڑھایا جاتا ہے؟ وہ صرف سمسٹر کی آؤٹ لائن کی حد تک ہوتی ہیں اورایک سمسٹر کاجتنا کم عرصہ ہوتا ہے اُس میں طالب علم وہ کاپی شُدہ سلائڈز ہی پڑھ لے تو بڑی بات ہوتی ہے۔

کسی بھی جامعہ میں داخلہ لینے کے بعد ابھی طالب علم کمر ہی سیدھی کر رہا ہوتا ہے کہ مڈز آ جاتے ہیں اور مڈز کے غم سے نکلے ہوئے جمعہ جمعہ چار دن ہوئے ہوتے ہیں کہ فائنل امتحانات کی ڈیٹ شیٹ نوٹس بورڈ پر آویزاں ہو جاتی ہے۔

اس سب کے بیچ بیس نمبر کے سیشنل ہوتے ہیں جو اُس مضمون کے پروفیسر کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ طالب علم سو میں سے اسی نمبروں کو چھوڑ کر اُن بیس نمبروں کے پیچھے بھاگتے ہیں کیونکہ وہ بیس نمبر ہی اُن اَسی نمبروں کی ضمانت ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے سامنے جنسی ہراسگی جیسے واقعات سامنے آتے ہیں۔

مختلف جامعات میں بہت سے اچھے پروفیسر بھی ہوتے ہیں جو اپنا کام ایمانداری کے ساتھ کرتے ہیں مگر باقی نناوے فیصد لیکچررز اور پروفیسرز کی وجہ سے وہ ایک فیصد بھی بدنام ہو جاتے ہیں۔

چونکہ جامعات میں لیکچرر بھرتی کرنے کا کوئی قانون ہی نہیں اس لیے اگر مختلف جامعات کے مختلف شعبوں کا مطالعہ کیاجائے تو وہاں پرکام کرنے والا کوئی بھی ایسا لیکچرر نظر نہیں آئے گا جو اپنے صدر ِ شعبہ سے اختلاف ِ رائے رکھتا ہو۔

جامعات اساتذہ کو بھرتی کرنے میں آزاد ہیں اور کوئی بھی اُن سے اس بھرتی کا طریقئہ کار طلب کرنے والا نہیں ہے۔ جس طرح باقی اداروں میں پنجاب پبلک سروس کمیشن یا فیڈرل پبلک سروس کمیشن افراد بھرتی کر کے شعبوں کی مانگ کے مطابق انہیں پہنچاتی ہے اسی طرح ایچ ای سی کو بھی چائیے کہ ہر جامعہ سے صرف اس کی مانگ طلب کرے اور آزاد بھرتی کے ذریعے لیکچرز اور پروفیسر اُس جامعہ کو بھیج دیں۔

اس سے میرٹ کا بھی بول بالا ہو گا اور نیا آنے والا اُستاد اپنی سوچ کے مطابق طالب علموں کے علم میں اضافہ کر سکے گا۔ وہ اس پریشر سے پاک ہوگا کہ اُسے اُسکے صدر ِ شعبہ یا وائس چانسلر نے بھرتی کیا ہے۔ اس لیے وہ اُن کے مفادات کے لئے نہیں بلکہ طالب علموں کے مفادات کے لئے کام کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments