کشمیربنے گا پاکستان سے کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت تک کا سفر


بٹوارے کے بعد کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کے قبائل نے 1948 میں کشمیر پر لشکر کشی کی۔ ہری سنگھ گاندھی کے پاس گئے اور کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے پر دستخط کردیے۔ ہندوستان ایک طرف اقوام متحدہ گیا تو دوسری طرف جنگ چھیڑ دی اور آخر کار کشمیر بھی ٹوٹ گیا۔ گلگت بلتستان اورمظفرآباد تک کا علاقہ آزاد کشمیر پاکستان کے پاس رہ گیا اور جموں کشمیر، لداخ ہندوستان کے حصے میں آیا۔

جبکہ کشمیر کا ایک حصہ اکسائی چین کے پاس ہے۔ اس کے بعد کشمیر اور کشمیری دونوں ملکوں کے درمیان پراکسی جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔ پاکستان البدر اور الشمس سے لے کر مجاھدین تک وہاں پر استعمال کرتے رہے تو ہندوستان بھی انتہاپسند ہندو اور فوج کو استعمال کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کے جنگ میں کشمیر ی ہی قتل ہورہے ہیں اورایک اندازے کے مطابق اب تک لاکھوں کشمیری قتل ہوئے اور لاکھوں نے حجرت کی۔ اب تک تین براہ راست جنگیں کشمیر کے نام پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہوئی ہیں۔ 1965 جنگ، 1989 کی مجاھدین پاکستان کے ساتھ جنگ، اور 1999 کارگل کی جنگ۔

انڈیا پاکستان کے ساتھ شامل کشمیر کو مقبوضہ اور پاکستان ہندوستان کے ساتھ شامل کشمیر کو مقبوضہ کہتے ہیں۔

کشمیر جنت نظیر وادی آج تک آگ و خون میں لت پت ہے اور دونوں ممالک کے حکمران اپنے اپنے عوام کو کشمیر کے نام پر بے وقوف بنارہے ہیں اور حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اسی کشمیر کی وجہ سے دونوں ملکوں کی فوجی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہواہے اورعوام بنیادی سھولتوں کے لئے ترس رہے ہیں۔ جب بھی عوام کے بنیادی مسائل اور سولین کی بالادستی کی بات ہوتی ہے تو کشمیر میں بارڈر پر ٹینشن پیدا کی جاتی ہے۔ عمران خان کی حکومت میں مودی نے آئین کی 370 آرٹیکل کو ختم کرکے جموں کشمیر کو ہندوستان میں مکمل طور پر شامل کرلیا۔

تو پاکستان نے بھی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے ساتھ ساتھ خاموشی کے ساتھ آزاد کشمیر کی آزادانہ حیثیت کو ختم کرنے جارہی ہے۔ اور یہ سب کچھ رضامندی سے نہیں ہورہی بلکہ دنیا اور معاشی پریشر کی بدولت دونوں ممالک مجبور ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ ختم کردیں لیکن کشمیر مسئلہ ختم کرنا اب بھی اتنا آسان نہیں ایک تو کشمیر میں دونوں طرف جنگی جنونی تنظیموں کے سربراہوں کے مفادات، بیوروکریسی کے مفادات اور سٹیٹسکو کے خواہش مند حکمرانوں کے مفادات اب بھی کشمیر ایشو میں موجود ہیں۔

لیکن پاکستان کے کل 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے لئے پوسٹرز، بینرز دیکھ کر لگتا ہے کہ اب کشمیر ایشو آہستہ آہستہ سرد خانے میں چلی جائے گی کیونکہ کشمیر بنے گا پاکستان کے نعروں کی بجائے آج کشمیریوں کی جدوجھد کی حمایت کریں گے۔ مظلوم کشمیریوں کی فریاد دنیا تک پہنچائیں گے۔ کشمیر پر دنیا کیوں خاموش ہے کے نعروں تک بات پہنچ گئی۔

آخر میں میری خواہش ہے بلکہ تمام انسان دوست اور باشعور لوگوں کی خواہش ہے کہ خطے میں امن کے لئے کشمیر، اٖفغانستان اور ایران میں امن ضروری ہے۔ تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر اور باہمی مفاد پر مبنی تعلقات پاکستان کے معاشی، سیاسی اور سماجی بہتری اور ترقی کے لئے ضروری ہے۔ انتہاپسندی اور فرقہ واریت کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکے گا اگر کشمیرمسئلہ حل ہوگیا۔

بلکہ دونوں ممالک کی سیکیورٹی ریاستی بیانئیے پر مبنی ماحول بھی آہستہ آہستہ تبدیل ہوجائے گا۔ اور وقت کی ضرورت بھی ہے کہ دونوں ممالک اپنی عوام کے بنیادی ضرورتوں پر توجہ دیں جنگ، نفرتیں کبھی بھی مسئلے کو حل نہیں کرسکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments