بھرے ہوئے خاموش لوگ


\"mubashir\"اوائل جوانی میں اپنی عمر سے کم لڑکیوں اور اپنی عمر سے زیادہ بابوں کو متاثر کرنے کی غرض سے مختلف مغربی اور مشرقی فلاسفرز کی لکھی مشکل مشکل کتابیں پڑھنے کا شوق سر پر سوار تھا۔ مقصد علم حاصل کرنا نہ تھا۔ مقصد لڑکیوں اور بابوں کو اپنے تزویراتی مفادات کی خاطر شیشے میں اتارنا ہوتا تھا۔ نہ لڑکیاں قابو آئیں، اور نہ ہی بابے متاثر ہوئے، مگر اس نقلی پریکٹس نے کتاب کی ایسی محبت روح میں اتار دی کہ آج تک ہے، اور زندگی کے آخری سانس تک رہے گی۔ سو، مجھے ان تمام لڑکیوں اور بابوں کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ جو زندگی میں آئے، متاثر نہ ہوئے۔ وہ اپنی راہ چل نکلے، میں اپنی ڈگر پر چلتا گیا۔ اب چونکہ عمر کے 45ویں برس میں ہوں اور \”اوائلِ بابائیت\” کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ چکا ہوں تو معلوم ہوا کہ لڑکیوں کو بالخصوص اور بابوں کو بالعموم متاثر کرنے کے لیے کرکٹ کا اک ورلڈ کپ جیتنا پڑتا ہے، چندہ مانگ کر اک ہسپتال بنانے کے بعد اسکے پیسوں کو باہر لگانا اور اپنی سیاست کے لیے استعمال کرنا پڑتا ہے، تو تب جا کر ہاتھ میں سفید چھڑی تھامے، کنٹوپ اور کلاوے پہنے ہوئے ایسے \”متاثرین\” نصیب میں آتے ہیں، کہ جن سے تمام معاشرہ ہی \”متاثر\” ہوتا ہے۔

ان مشکل کتابوں اور مضامین کے مصنفین کے نام بھی مشکل تھے: شوپنہار، سپینوزا، کانٹ، ہیگل، ہکسلی، اور ڈیورانٹ وغیرہ۔ ایسے ہی زندگی کی ٹھوکریں کھاتے کھاتے اک خیال جو پندرہ برس قبل ذہن کی زمین میں جڑ پکڑ گیا وہ یہ تھا کہ کتاب لکھنے والا اپنا فیض الفاظ میں منتقل کر رہا ہوتا ہے۔ اسے حاصل کرنے والا ہی کامیاب رہتا ہے۔ کتاب، میرے صاحبو، خدا کا بنایا ہوا معجزہ ہے، آپ چاہے کسی بھی روپ میں خدا پر یقین کرتے ہوں، یہ نہ بھی کرتے ہوں، کتاب کے معجزے سے انکار ممکن ہی نہیں۔ عجب بات کہ کسی کی ساری زندگی آپ ہزار دو ہزار روپے میں خرید کر لے آتے ہیں، اور اس زندگی سے سیکھتے ہیں۔ اس سے بھلا، بہتر اور بڑا منافع اور کیا ہوگا؟ کیا ہو سکتا بھی ہے؟

سچ کہوں گا کہ، اب گولی بازی کی عادت کافی کم ہو چکی ہے۔ انہی مشکل مصنفین میں سے اک امریکی مصنف، وِل ڈیورانٹ (Will Durant) بھی تھے۔ انکی زندگی کی آخری کتاب، کیا ہی عجب کہ انکی وفات کے تقریبا 34 برس بعد شائع ہوئی۔ اور شائع کرنے والے صاحب، جان لٹل (Joh Little) بھی کما ل کے ضدی اور انتہا کے عاشق تھے کہ ڈیورانٹ کی اس غیرشائع شدہ کتاب کے پیچھے تیس سال، جی پورے تیس سال بھاگتے رہے۔ مطمئن اور اکملیت کے قریب تر ہوتے ہوئے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں، زبان درازی سے خالی، خیال سے بھرے!

خیر، حضرت ول ڈیورانٹ رحمتہ اللہ علیہ کی آخری کتاب سے تین چار خیالات، ٹوٹا پھوٹا ترجمہ کرکے آپکی نذر ہیں:

۔ عمر کے ساتھ خودنمائی گویا بڑھتی جاتی ہے۔ مجھے دیکھیے، میں پچانوے برس کا ہو چکا ہوں اور مجھے ابھی تک خاموشی کا ہنر سیکھ اور یہ جان لینا چاہئے تھا کہ میرے محترم قاری، میرے قلم اور ذہن میں موجود شاید ہر ممکن خیال کو پڑھ چکے ہیں۔ ویسے بھی میری عمر کے لوگ اپنے خیالات میں بہت گہرے گڑے ہوتے ہیں۔ تو میں پھر کیوں لکھوں؟ میرے لکھنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ شاید یہ کہ ابھی جب میرا ایک پاؤں قبر میں ہے، تو لاپرواہی سے گزاری زندگی کے امور پر اپنے خیالات حروف میں ضبط کر دئیے جائیں۔ تو میرے محترم قاری، اپنے رسک پر ہی آگے بڑھئیے گا، میں، مگر آپکے ساتھ کی خوبصورت حدت کو خوش آمدید کہوں گا۔

۔ ہم بچوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس لیے کہ مہذب انسان زندگی کو پسند کرتے ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ ہم بچوں جیسا ہونا چاہتے ہیں، مگر ہو نہیں پاتے۔ ہم ان کی طرح اپنی فطرت پر جینا چاہتے ہیں، کسی نقل اور چھپی ہوئی کسی بھی نیت کے بغیر، کیونکہ \”بچے اور احمق، سچ ہی بولتے ہیں،\” اور دونوں اپنے خلوص میں سے خوشی کشید کرلیتے ہیں۔

۔ تحرک زندگی ہے، اسی لیے زندگی کی بےتحاشا خودنمائی جوانی میں نظر آتی ہے۔ زندگی کا عجب المیہ ہے کہ یہ فہم و تدبر تبھی دیتی ہے کہ جب اس نے آپ سے جوانی کو چرا لیا ہوتا ہے۔ جوانی میں تعمیری مصروفیت، زندگی کا نصف وقار اور نصف اطمینان ہوتا ہے۔ جیسے کہ یوٹوپیا میں، تھورِئیو نے کہا تھا کہ \”ہر شخص جو تعمیر کرتا ہے، جو خوشی اس کے دل کو ویسے لَوٹتی ہے، جیسے گھونسلہ بنانے والا پرندہ، گھونسلہ بنا لینے پر خوشی کے گیت گاتا ہے۔\” ہر شخص صرف اتنا ہی جوان رہ سکتا ہےکہ جتنے رِسک وہ مول لے سکتا ہے۔

۔ جوانی شاعری کی طرح خوبصورت اور چونکا دینے والی ہوتی ہے، مگر درمیانی عمر میں شاعری چپکے چپکے سے ہی غائب ہو جاتی ہے، اور انسان گویا نثر کی مانند خود کو اور زندگی کو آسانی سے پڑھنا اور سمجھنا چاہتا ہے۔ یہ مگر آسان نہیں ہوتا۔ عمل، خیال کی جگہ لے لیتا ہے، اور اس عمر میں کام سے بڑھ کر دوسری کوئی خوشی نہیں ہوتی۔

۔ اک فرد مر جاتا ہے، انسان نہیں مرتا۔ موت درحقیقت اک پہیلی کے علاوہ کچھ نہیں جسکو بوجھ جانے والا مگر کسی دوسرے کو اسکا مطلب نہیں بتا سکتا۔ افراد چلے جاتے ہیں، انسان زندہ اور باقی رہ جاتے ہیں، اور آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ آج سے تین ہزار سال قبل، اک شخص نے فضا میں بلند ہونے کے لئے پر ایجاد کیے۔ اسکے بیٹے، اکارس نے اپنے والد کی ایجاد پر بھروسہ کیا، بازؤں سے پر باندھ کر اڑان بھری، مگر سمندر میں گر کر ہلاک ہو گیا۔ تین ہزار برس تک افراد آتے گئے، جاتے گئے، مگر انسان اور اسکا خواب زندہ رہا، حتی کہ لیونارڈو ڈو-ونچی نے اسی خواب پر کہا کہ \”دیکھو، کہ مستقبل میں پر ہونگے!\” افراد بھلے ناکام ہوتے ہوں، زندگی میں چلتی جاتی ہے۔ اور چلتے جانے میں ہی کامیابی ہے!

باقی پھر کبھی سہی، یارو۔ ابھی تو مجھے حیران ہونے دیجیے کہ اتنی خاموشی سے بھرے ہوئے لوگ بھی کیسے کامیاب ہو جاتے ہیں؟ آخر کو دھرنے، شورش اور بدکلامی بھی تو کوئی اوصاف اور ہنر ہوا کرتے ہیں، نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments