جگنوؤں کو مرنے سے بچائیں


وی سی آر کے ہیڈ کو پرفیوم یا نئے نوٹ سے صاف کرنے، پھنسی ہوئی خراب کیسٹ کو کاٹ کر نئے سرے سے جوڑنے اور اسی طرح کے کئی الل ٹپ جگاڑوں کی مدد زندگی گزارتے بڑے ہو کر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر سائنسی تحقیقات کی برکات سے بھرپور فائدے اٹھانے والی ہم شاید پہلی اور آخری نسل ہیں۔ ہم سے پہلے والے نئی ایجادات اور معلومات کی اس فراوانی سے بہت حد تک محروم رہے یا ان ”برکات“ سے بہرہ مند ہونے کو درکار مطلوبہ ”تکنیکی راہ و رسم“ پیدا نہیں کر پائے ہیں۔ ہم سے بعد والی ”ساؤنڈ کلاؤڈ“ سے فیضیاب ہونے والی نسل ”رحمت گرامو فون ہاؤس“ کا نام سن کر حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر زبان حال سے پوچھتی ہے کہ یہ کس دنیا کی بات ہے۔

سائنس، صنعت اور سرمائے کے باہم تعامل سے تیزی سے ترقی اور جدیدیت کی شاہراہ پر دوڑتی اس دنیا کی راہ میں صرف ٹیکنالوجی کی پرانی صورتیں ہی نہیں، فطرت کے رنگ بھی قصہ پارینہ بنتے جا رہے ہیں۔ اب فطرت کے بہت سے روپ آج بڑے ہوتے بچوں کو حقیقت کی بجائے ”ورچوئل حقیقت“ میں ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ روشنی اور امید کے لیے ہمارے شاعروں کا پسندیدہ استعارہ جگنو معدومیت کے خطرے سے دو چار ہے۔ بایو سائنس نامی جریدے میں شائع ہونے والی 49 ماہرین حیاتیات کی ایک تحقیق میں یہ بات بتائی گئی ہے۔ ان ماہرین کی دلچسپی کا میدان ”جگنو“ ہے۔

جگنو کی، جسے فائر فلائی، کینڈل فلائی، گلو وارم، فائر بیٹل، فائر وارم، لیمپیرڈ وغیرہ بھی کہا جاتا ہے، دنیا بھر میں 2000 سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان میں سے متعدد اقسام کو معدوم ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ جگنوؤں کی نسل ختم ہونے کی وجوہات میں مسکن کا خاتمہ (habitat loss) اور روشنی کی آلودگی (light pollution) شامل ہیں۔

مؤخر الذکر سے مراد مصنوعی روشنیوں کا طوفان ہے جو ہماری نام نہاد جدید زندگی کا لازمہ بن چکی ہیں۔ ہم راتوں کو جاگتے، سفر کرتے اور کاروبار کرتے ہیں۔ ہمارے شہر اور تجارتی مراکز جگمک جگمگ کر رہے ہوتے ہیں۔ تاہم اس چکا چوند کا نقصان اپنی دم پر قمقمہ جلائے اڑتے ہوئے ان ننھے کیڑوں کو یہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے ساتھی کو دم پر جلتی بجھتی روشنی سے ”پیلوں پکیاں نے، آ چنوں رل یار“ کا پیغام نہیں دے پاتے اور یوں دو محبت کرنے والوں کا ملن نہیں ہو پاتا۔ یہ جدائیاں ان کی ابادی میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہیں۔

بظاہر یہ عام سی خبر ایک وارننگ ہے کہ حضرت انسان کو ترقی اور فطری ماحول میں توازن کو بہرحال مدنظر رکھنا ہو گا۔ ورنہ آج جگنو، کل تتلیاں اور پرسوں انسان خود معدومیت کے خطرے سے دو چار ہو گا۔ منجنیقوں کی ایجاد سے ہائیڈروجن بموں تک اور جنگی جہازوں کی صورت فضاؤں کو مسموم کرتے مہلک آہنی پرندوں کی صورت میں جدید دنیا نے اسلحے کے نام پر پل بھر میں انسانیت کو بھسم کرنے کا بہت سا سامان پہلے ہی تیار کر رکھا ہے۔ اب روشنی اور زندگی کے استعارے بھی مرنے جا رہے ہیں۔ وطن عزیز میں تو استعارے والے جگنو کب سے مر رہے ہیں۔ کمیابی سے نایابی کا ان کا خطرناک سفر جاری ہے۔ شعر، رقص اور تصویر و غنا پر لگی قدغنین استعاراتی جگنوؤں کے درپے ہیں۔

بایو سائنس میں اپنے سروے کے نتائج پر مبنی سٹڈی شائع کرانے والے ماہرین حیاتیات کے بقول اب اصل والا جگنو بھی مرنے جا رہا ہے۔ کل مثال دینے کو بھی کوئی نہیں بچے گا۔ مثال بھی تو اسی کی ہوتی ہے جو اصل میں موجود ہو۔ جس کا وجود ہی نہیں ہو گا اس کی مثال کیسے دی جائے گی؟ کل ہمارے بچے شاید نغمے میں بھی ماؤں سے اس خواہش کا اظہار نہ کریں۔

کہ ہم کو تتلیوں کے

جگنوؤں کے دیس جانا ہے

ہمیں رنگوں کے جگنو

روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں

ترقی کریں توازن کے ساتھ۔ اسی طرح خاموش بھلے رہیں لیکن خاموشی بھی توازن کے ساتھ ہی اچھی لگتی ہے۔ کچھ بولیں بھی، تاکہ استعارے والے جگنوؤں کو بھی بے موسمی وفات کا دکھ چھوڑ کر جانے سے روکا جا سکے۔

نیوزی لینڈ کی ایک جھیل پر جگنوؤں کی جھلک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments