حکومت کی معاشی ناکامیاں اور ارکان پارلیمنٹ کا گھگھو گھوڑا


کراچی میں ایک غریب رکشا ڈرائیور نے خود کشی کرلی۔ قرض خواہوں کے تقاضوں اور گزر بسر کے لئے مناسب آمدنی حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد 45 سالہ شخص نے خود پر تیل چھڑک کر آگ لگا لی۔ کراچی میں ایک ماہ کے اندر غربت کی وجہ سے خود سوزی کے ذریعے اپنی جان لینے کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔ ایک ماہ پہلے چار بچوں کے ایک باپ نے بھی اپنے اہل خاندان کی ضروریات پوری کرنے میں ناکامی پر مایوس ہوکر خود کشی کرلی تھی۔
خود کشی کا یہ واقعہ ایک ایسے روز پیش آیا ہے جب سینیٹ میں نمائیندگان اس بل پر بحث کررہے تھے کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے یا اسے فی الحال معطل کردیا جائے ۔ اس دوران وزیروں اور سینیٹرز خوشگوار تبصرے کر رہے تھے اور چٹکلے چھوڑے جارہے تھے۔ اس کی بہتر مثال وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا صورت حال پر تبصرہ تھا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک شخص نے خراب معاشی حالات میں بیٹے کو گھگھو گھوڑا اور بہترین حالات میں بلیک سٹیلین (شبدیز)لے کر دیا تھا۔ اس لیے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ملکی معاشی حالات ٹھیک ہیں تو تنخواہوں میں اضافہ کریں، ورنہ گھگھو گھوڑے پر گزارا کریں‘۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کا بل حکمران پارٹی کے چیف وہپ سینیٹر سجاد حسین طوری نے پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ 85 فیصد سینیٹرز اضافہ کے حامی ہیں۔ تاہم آج اس بل پر ووٹنگ کے دوران بل کی حمایت میں صرف 15 سینیٹرز نے ووٹ دیا جبکہ 29 نے اس کی مخالفت کی۔
یہ صورت حال ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کا بل پیش ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر کڑی تنقید اور پیپلز پارٹی کی مخالفت کی وجہ سے تبدیل ہوئی تھی۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کے غریب اور متوسط طبقات شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں ، عوامی نمائندوں کی تنخواہوں میں کثیر اضافہ کی تجویز پر حیر ت اور غم و غصہ کا اظہار سامنے آیا تھا۔ اسی لئے حکمران تحریک انصاف کو اپنی رائے تبدیل کرنا پڑی اور سینیٹ میں یہ بل منظور نہیں ہوسکا۔ تحریک انصاف نے بھی رائے شماری میں بل کی مخالفت کا فیصلہ کیا تھا ۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بھی موجودہ حالات میں سینیٹرز کی تنخواہوں و مراعات میں اضافہ کو اشتعال انگیز سمجھتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔
یوں اس سال کے شروع میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کے موقع پر پیدا ہونے والے ’اتفاق رائے‘ جیسے مناظر اس بل پر رائے دہی کے موقع پر بھی دیکھنے میں آئے جب تینوں بڑی پارٹیاں کسی نکتہ پر اتفاق رائے کا اظہار رکررہی تھیں۔ تاہم اس بار یہ ’اتفاق رائے‘ کسی دباؤ یا سیاسی مصالحت کی وجہ سے نہیں بلکہ عوامی غم و غصہ کے خوف کی وجہ سے دیکھنے میں آیا۔ حالانکہ سینیٹر سجاد طوری کی اس رائے سے اختلاف ممکن نہیں ہوسکتا کہ سینیٹرز کی بہت بڑی اکثریت تنخواہوں میں اضافہ کی خواہشمند ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ سمیت متعدد چھوٹی جماعتوں کے سینیٹرز نے تنخواہوں میں اضافہ کی حمایت کی۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر محمد علی سیف نے تو بل کی حمایت میں پرجوش تقریر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بہت سے ارکان اسمبلی کا کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی نہیں ہے اس لئے اضافہ ضروری ہے۔ تاہم جن ارکان کو اس اضافہ کی ضرورت نہیں ہے ، وہ اسے یا تو خزانہ میں واپس جمع کروا دیا کریں یا خیرات کر دیں۔ تاہم ان کی یہ دلیل بھی مجوزہ بل کی حمایت میں اکثریت حاصل کرنے میں معاون نہیں ہوسکی۔ مہنگائی و غربت اور گھر کا خرچہ پورا نہ ہونے کی اس بحث کو دراصل وزیر اعظم عمران خان نے ہی چند ہفتے پہلے شروع کیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے لئے اپنی تنخواہ میں گھر کا خرچہ چلانا ممکن نہیں ہے۔ اس شکایت پر وزیر اعظم سے کسی نے یہ تو نہیں پوچھا کہ ان کی تنخواہ کتنی ہے اور وزیر اعظم بننے سے پہلے ان کے گھر کا خرچہ کیسے پورا ہوتا تھا؟ تاہم اسی دوران سوشل میڈیا پر کابینہ کے اس فیصلہ کی خبریں گشت کرنے لگیں کہ وزیر اعظم کی تنخواہ دو لاکھ روپے ماہانہ سے بڑھاکر آٹھ لاکھ روپے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس خبر نے اتنی شدت اختیار کی کہ وزیر اعظم ہاؤس کو اس کی تردید کرنا پڑی کہ ایسا کوئی فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی سینیٹ میں تحریک انصاف کے چیف وہپ کی طرف سے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کا بل پیش کرنے کے اقدام سے یہ ضرور واضح ہؤا کہ حکمران حلقوں میں سرکاری عہدیداروں اور عوامی نمائیندوں کی تنخواہوں میں اضافہ کا معاملہ اعلیٰ ترین سطح پر زیر غور ضرور ہے۔ واضح ہے جب ملک کا وزیر اعظم تنخواہ کی کمی اور مہنگائی کا شکوہ کرے گا تو حکومت میں اس پر ہلچل تو ہوگی۔ لیکن ارکان اسمبلی اور وزیر اعظم کی کم تنخواہ پر پریشان حکمرانوں کو البتہ اس بات پر غور کرنے کا وقت نہیں ملتا کہ جب لاکھوں روپے تنخواہ اور مراعات وصول کرنے والے وزیر اعظم یا ارکان اسمبلی کو مالی ’دباؤ‘ کا سامنا ہے تو عام آدمی کن مشکلات کا سامنا کررہا ہوگا۔ حکومت کی باالخصوص اور سیاست دانوں کی باالعموم یہی بے حسی دراصل تشویش کا اصل سبب ہے۔
کراچی اسٹاک ایکسچینج میں حصص کی قیمت میں اچانک کمی کی خبریں بھی ملک کی دگرگوں اور کسی حد تک بے قابو معاشی صورت حال کا پتہ دیتی ہیں ۔ اخباری رپورٹس کے مطابق اس کی جزوی وجہ تو عالمی سطح پر مندی کا رجحان ہو سکتی ہے لیکن اس کی اصل وجہ جنوری کے دوران مہنگائی کے انڈکس میں غیرمعمولی اضافہ بنا ہے۔ حکومت کے تخمینہ کے مطابق جنوری میں افراط زر کی شرح کا اندازہ 13 اعشاریہ 6 فیصد تھا لیکن اعداد و شمار کے مطابق سال رواں کے پہلے ماہ کے دوران مہنگائی میں اضافہ ایک فیصد زیادہ یعنی 14 اعشاریہ 6 فیصد رہا۔ اس اضافہ کی وجہ آئی ایم ایف کی عائد مالی پابندیاں بتائی گئی ہیں۔ حکومت مقررہ اہداف کے مطابق ریونیو میں اضافہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی جس کا اثررسد اور طلب میں خرابی اور مہنگائی میں اضافہ کی صورت میں دیکھنے میں آرہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں خسارہ پورا کرنے کے لئے حکومت کو منی بجٹ لانا پڑے گا اور آئی ایم ایف مزید پابندیاں عائد کرے گا تاکہ مالی اہداف پورے کئے جاسکیں گے۔ ان سب اقدامات کی قیمت بہر حال اشیائے صرف میں ہوشربا اضافہ کی صورت میں عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے۔
وزارت خزانہ گزشتہ ہفتہ کے دوران قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں یہ اعتراف کرچکی ہے کہ اس حکومت کے پہلے پندرہ ماہ کے دوران ملک پر اندرونی و بیرونی قرضوں میں چالیس فیصد اضافہ ہؤا ہے۔ اندرون ملک قرض لینے کے لئے ایک قانون کے ذریعے کچھ حدود مقرر کی گئی ہیں ۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ حکومت نے وہ حدود بھی توڑی ہیں یعنی عملی طور سے حکومت خود ہی قانون شکنی کی مرتکب ہوئی ہے۔ مجموعی قرض کو کل قومی پیداوار کے چار فیصد کی حد میں رکھنے کے اصول کا پرچار بھی کیا جاتا ہے بلکہ مالی رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسے آئیندہ چند برس کے دوران ساڑھے تین فیصد کی شرح پر لایا جائے گا لیکن اس وقت ملک پر قومی پیداوار کے ساڑھے نو فیصد کے لگ بھگ قرض لادا جاچکا ہے۔ پیدا وار میں مسلسل کمی، سرکاری آمدنی میں تعطل اور مالی منڈیوں میں بے اعتباری کی وجہ سے قرضوں میں کمی اور معاشی صورت حال بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
قوموں اور ملکوں کو مختلف وجوہات کی وجہ سے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ان سے نمٹنے کے لئے جو عوامل درکار ہوتے ہیں وہ پاکستان میں ناپید ہیں۔ ملکی حکومت اور مالی انتظام پر عوام کا اعتماد بحال کرنا اس مشکل سے نکلنے کے لئے بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کے لئے حکومت کو یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ اسے صورت حال کی سنجیدگی کا اندازہ ہے اور مالی بحران پر قابو پانے کے لئے مؤثر اقدامات کئے جارہے ہیں۔ تاہم ملک کے وزیر اعظم سمیت سیاسی قیادت یہ اعتبار بحال کرنے میں ناکام ہے۔ عمران خان کی باتیں معیشت سے مکمل طور سے نابلد ہونے کی علامت ہیں۔ وہ سیاسی ضرورتوں کے لئے بیانات جاری کرتے ہیں لیکن منڈیوں پر ان کے اثرات کا اندازہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توقع کی جاتی ہے کہ عمران خان خود کو اپوزیشن لیڈر سمجھنا بند کریں اور حکومت کے ذمہ دار سربراہ کے طور پر گفتگو کرنا سیکھیں۔
حکومت کی مالی پالیسی مکمل طور سے عالمی اداروں کو ’آؤٹ سورس‘ کی گئی ہے۔ ان اداروں کی رپورٹوں میں جن اشاریوں کا ذکر ہوتا ہے وہ قرض وصول کرنے کے لئے ان کے اپنے اہداف کے مطابق تیار کئے جاتے ہیں لیکن وزیر اعظم کسی غور و فکر کے بغیر اسے اپنی حکومت کی شاندار کارکردگی قرار دے کر ایک دوسال میں معاشی ترقی کی خبریں نشر کرتے رہتے ہیں ۔ یہ اعلانات مطلوبہ تبدیلیاں رونما ہونے کی صورت خود ان کے گلے کی ہڈی بن سکتے ہیں لیکن عمران خا ن کو یقین ہے کہ اس وقت تک لوگ ان کے سابقہ بیانات کو بھول کر ان کی نئی باتوں پر کان دھرنے لگیں گے۔
حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بحران سے نکلنے کا کوئی حل تلاش کرنے کی بجائےنزلے زکام سے بچنے کے لئے نمونیے میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی پالیسی ملکی معیشت کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments