دارا شکوہ: ایک محقق اور بدنصیب شہزادہ ۔ پروفیسر سُپریا گاندھی کی نئی کتاب


دارا شکوہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ مضافات اجمیر میں پیدا ہوا۔ دارا مغل سلطنت کا وارث تھا اور اپنے والد کا چہیتا بیٹا تھا۔ دارا کی کہانی اُس کے متجسس من کی کہانی ہے جو اُس کی طاقت بھی تھی اور اُس کی تباہی کی وجہ بھی بنی۔ شاہی دربار سے ملنے والی پوری رقم کو دارا اپنی مذہبی فکر کی دھن، مذہب اور فلسفہ سے متعلق نصوص کا ترجمہ اور مغل طرز کے فن پارے بنوانے میں خرچ کرتا تھا۔

دارا کی اِسی دھن نے اُسے اپنے وقت کا سب سے زیادہ ٹھگا گیا شخص بنا دیا۔ دارا کی دلچسپی مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں تھی۔ وہ صوفیوں، یوگیوں اور الگ الگ مذاہب کے رہنماؤں سے گھرا رہتا تھا۔ 1656 ء کے شروعات میں اُس نے اپنشدوں کا ترجمہ شروع کروایا۔ اُس وقت مغلیہ سلطنت کے وارث کے علاوہ یہ کام کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ کسی کے پاس اِس طرح کے وسائل نہیں تھے۔

اُس نے سنسکرت سیکھنے کی کوشش کی۔ لیکن ایک اور کہانی بھی ہے جو دارا کی کہانی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ دارا کے مذہبی جنونی بھائی اورنگزیب عالمگیر کی کہانی۔ دونوں کی اِسی مقابلہ آرائی کے نتیجہ نے شاید ہندوستان کی تاریخ کا رخ ہی موڑ دیا۔ دارا کسی جاسوس کی طرح مذاہب کے درمیان بھائی چارے کی تلاش کرتا رہا۔ قرآن کے ایک حصہ میں چھپی کتاب کا ذکر پا کر دارا اِس بات کا قائل ہو گیا کہ یہاں اشارہ اپنشدوں کی طرف ہے۔

دارا نے فلسفہ وحدت الوجود کے اصولوں کو ماننا شروع کیا جس کے مطابق تمام مذاہب خالق کی تلاش میں کسی توحید پسند سچائی میں ملتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ندیاں سمندر میں ملتی ہیں۔ دارا کا ماننا تھا کہ ہندو ویدانتی فلسفہ کے مطالعہ سے اسلام کے پوشیدہ راز اُس کے سامنے آ رہے ہیں۔ جس سے اُسے اتنا خاص علم حاصل ہوگا کہ وہ بغیر کسی چیلینج کے تخت پر جا بیٹھے گا۔

دارا نے مغل تاج کی اپنی راہ کو کچھ ایسے دیکھا کہ وہ ایسا شخص ہے جو تمام مذہبی راز ظاہر کر دے گا۔ وہ انتہائی خود اعتمادی سے بھرا ہوا تھا۔ دارا خود کو ہر کام میں قابل مانتا تھا اور اُسے لگتا تھا کہ اُسے صلاح کاروں کی ضرورت نہیں ہے۔ جو صلاح و مشورے دیتے اُن سے وہ نفرت کرتا۔ اِسی لئے اُس کے دوست اُسے ضروری باتیں بھی نہیں بتاتے تھے۔ اُسے لگتا کہ سب اُس سے محبت کرتے ہیں اور قسمت آخر اُسی کا ساتھ دے گی۔ وہ مذہبی رواداری کے بارے میں زیادہ فکر مند رہتا اور انتظامیہ کے متعلق کم۔ اِس درمیان اورنگزیب خود کو مضبوط کر رہا تھا۔ وہ اپنے رسوخ کا دائرہ بڑھا رہا تھا۔ شاہی تخت پر قبضہ کی تیاری کر رہا تھا۔ اورنگزیب نے اپنی شخصیت کو ایک جنگجو، ایک منتظم کے طور پر ڈھالا۔

اورنگزیب عالمگیر کو ایسے شخص کے طور پر دیکھا گیا جو لوگوں کی پرواہ کرتا ہے، مذہبی عقیدت رکھتا ہے، ریاستوں پر حملوں میں ملی رقم کو اپنے ساتھیوں میں تقسیم کرتا ہے اور یہ حیرانی کی بات نہیں کہ جب جانشین کی لڑائی ہوئی تو اُن میں سے کئی لوگوں نے اُس کا ساتھ دیا۔ جب 1657 ء میں شاہ جہاں بیمار پڑا تو شاہی تخت ایک طرح سے خالی ہو گیا۔ اورنگزیب نے اِس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چال چلی۔ وہ نہ صرف اپنے بھائی کو فوجی امور میں نادان مانتا تھا بلکہ اُس کا یہ بھی خیال تھا کہ دوسرے مذاہب میں اُس کی دلچسپی سے وہ مرتد ہو گیا ہے اور حکومت کرنے کے لائق نہیں۔ اب دونوں بھائیوں کی ٹکر میدان جنگ میں ہونی تھی۔

جون 1659 ء میں دونوں افواج آگرہ کے نزدیک ساموگڑھ میں آمنے سامنے تھیں۔ شہزادہ مراد بخش نے اپنے سب سے بڑے بھائی دارا شکوہ کو شکست دینے کے لئے منجھلے بھائی اورنگزیب سے ہاتھ ملا لیا۔ جنگ اُس وقت شروع ہوئی جب دارا شکوہ نے اپنی توپوں کو اورنگزیب کی فوج کی طرف فائرنگ شروع کرنے کا حکم دیا۔ آخر کار دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے خلاف زبردست گولہ باری کا آغاز کرنا شروع کر دیا۔ بارش کے باعث گولہ باری ملتوی کرنا پڑی۔ جنگ بیحد مختصر رہی۔ کچھ مورخین کے مطابق اورنگزیب ایک راجپوت فوجی کے وار سے مرتے مرتے بچا لیکن جلد ہی سنبھل گیا۔ وہیں دارا کے ہودے کو ایک راکٹ لگا اور وہ تیزی سے ہاتھی سے اُتر گیا۔ اُس کے فوجیوں نے جلد ہی اُس کے ڈر کو سمجھ لیا۔ لڑائی ختم ہو چکی تھی۔

محض تین گھنٹے کی لڑائی میں دارا کے دس ہزار فوجی ہلاک ہو گئے۔ جو بچ گئے اُنہوں نے دارا کا ساتھ چھوڑ دیا۔ دارا کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑا۔ دارا کے ریشمی کپڑوں کی جگہ بے کار کُرتے اور سستے جوتوں نے لے لی تھی۔ آخر میں اُسے ایک افغان سردار ملک جیون نے دھوکہ دے دیا۔ ملک جیون نے اُس کی حفاظت کا وعدہ کیا اور پھر اورنگزیب کو سونپ دیا۔ اُس کے بعد پھٹے حال دارا کا ایک چھوٹے سے، معمولی سے ہاتھی پر جلوس نکلا۔

بیحد اُداس نظارہ تھا۔ جس نے بھی اُسے دیکھا اُسے ترس آ گیا کیونکہ اتنے کم وقت میں اتنا طاقتور، اتنا امیر اور اتنا مشہور شہزادہ اتنی بری حالت میں پہنچ چکا تھا۔ دورِ جدید کے صفِ اول کے ناول نگار قاضی عبدالستار نے اپنی ایک ناول میں دارا کے کردار کو حق پرست، مشترکہ تہذیب کا ترجمان، اکبرِ اعظم کا جانشین اور شعر و ادب کے معمار کے طور پر پیش کیا ہے۔ بقول قاضی صاحب، ”ساموگڑھ کے سینے میں وہ میزان نصب ہوئی جس کے ایک پلڑے میں روایت تھی اور دوسرے میں دل، ایک طرف سیاست تھی دوسری طرف محبت، ایک طرف فلسفۂ حکمت تو دوسری طرف شعر و ادب اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک طرف تلوار تھی اور دوسری طرف قلم۔ “

ساموگڑھ کی شکست کے بعد جب دارا کو اِس طرح گھمایا جارہا تھا تو اُس نے ایک بھکاری کی آواز سنی۔ بھکاری اونچی آواز میں کہہ رہا تھا، ”اے دارا، ایک زمانے میں تم اِس زمین کے مالک ہوا کرتے تھے۔ جب تم اِس سڑک سے گزرتے تھے تو مجھے کچھ نہ کچھ دیتے جاتے تھے۔ آج تمہارے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے۔ “ یہ سن کر دارا نے اپنے کندھوں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اُس پر رکھی ہوئی شال اُٹھا کر اُس بھکاری کی طرف پھینک دیا۔ اِس واقعہ کے چشم دیدوں نے یہ کہانی شہنشاہ اورنگزیب تک پہنچائی۔

پریڈ ختم ہوتے ہی دارا اور اُس کے بیٹے سِپہر کو خضرآباد کے جیلروں کے حوالے کر دیا گیا۔ اورنگزیب کے دربار میں ہوئے ”دکھاؤٹی مقدمہ“ میں درباریوں نے تقریباً ایک آواز ہو کر دارا کو سزائے موت کی سفارش کر دی۔ اور پھر 9 /ستمبر 1659 ء کو اُسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اُس کا سر کاٹ کر اورنگزیب کو پیش کیا گیا۔ اُس کے جسد خاکی کو ہمایوں کے مقبرے کے اُسی میدان میں دفن کر دیا گیا۔

مغلوں کے معیار کے مطابق دارا ایک ناکام شخص تھا۔ اُسے بدنصیب بھی کہا گیا۔ اُن شہزادوں میں سے ایک جو جانشینی کی لڑائی میں آگے نہیں بڑھ سکے۔ دارا نے اپنشدوں اور دوسری کتابوں کے جو تراجم کروائے اُن سے یورپ کے اسکالرز کی نظر اُن پر پڑی۔ دارا کی موت کے بعد اُس کا کام نہ صرف اسلام اور ہندو مذہب کے درمیان ایک اہم کڑی بن گیا بلکہ ہندوستان اور مغرب کے بھی درمیان۔ دورانِ گفتگو مصنفہ سُپریا گاندھی نے راقم الحروف کو بتایا، ”طباعت کے زمانہ سے پہلے بہت سے تعلیم یافتہ ہندو فارسی پڑھتے تھے۔ اُس دور میں کسی حد تک فارسی کو وہی حیثیت حاصل تھی جو آج انگریزی کو حاصل ہے۔ بالکل اُسی طرح جیسے اب کچھ ہندوستانی گیتا یا اپنشدوں کے انگریزی تراجم پڑھتے ہیں، ماضی میں یہ نصوص فارسی زبان میں بھی پڑھے جاتے تھے۔ دارا کے اپنشد کے ترجمہ میں ہندو اور مسلمان دونوں کے لئے پائیدار اہمیت ہے۔ “

دارا شکوہ کے حوالے سے تاریخ میں مختلف روایات موجود ہیں، تاہم اِس سے انکار ممکن نہیں کہ وہ مغلیہ سلطنت کا ایک صاحبِ علم چشم و چراغ تھا۔ وہ برصغیر میں مذہب کی بنیاد پر روا رکھی جانے والی منافرت اور تنگ نظری کو ختم کرنے کا خواہاں تھا۔ دارا شکوہ کی حیثیت کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ دارا شکوہ کی شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے دارا کے فرانسیسی ذاتی معالج فرانسوا برنیئر لکھتے ہیں، ”اگرچہ دارا مذہبی اُمور میں وسیع الخیال تھا، فلسفہ وحدت الوجود کا معتقد تھا لیکن متلون مزاج، مغرور، چڑچڑا اور بے عمل تھا۔ وہ خوشامد پسند تھا۔ دربار کی زندگی اور شہنشاہ شاہ جہاں کی بے پناہ محبت نے اُس کو برباد کر کے رکھ دیا اور تسخیر قلوب کے فن سے بیگانہ کردیا، اِس لئے مزاج و ترتیب کے لحاظ سے وہ اِس کا اہل نہیں تھا کہ کسی سخت آزمائش کا مقابلہ کر سکے۔“

مورخ سُپریا گاندھی نے دارا شکوہ کی تحقیق شدہ سوانح عمری میں یہ دکھایا ہے کہ موجودہ دور کے اندازے کے مطابق کسی تاریخی شخصیت پر بوجھ ڈالنا یا موردِ الزام ٹھہرانا کتنا غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ اچھا یا برا کہہ کر شہنشاہوں کی درجہ بندی کرنا ایک بے بنیاد امر ہے۔ کسی قیاس آرائی سے کام نہ لیتے ہوئے سُپریا گاندھی نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں مغلیہ دور کو ایک اہم مقام کے طور پر کیوں دیکھا جاتا ہے؟

کتاب بنیادی طور پر دو سمتوں یعنی شاہی تخت پر بیٹھنے کا خواب دیکھنے والے شہزادے دارا شکوہ کے فکری اور روحانی منصوبے کے ساتھ ساتھ اُس کے سیاسی منصوبے پر محیط ہے۔ یہ کتاب ایمیزون پر بھی دستیاب ہے۔ معروف پبلشر ہارپر کولِنز کے اشتراک سے ہارورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ تقریباً ساڑھے تین سَو صفحات پر مشتمل اِس دلچسپ اور معلوماتی کتاب کی قیمت سات سَو روپے (بھارتی روپیہ) کے قریب ہے۔

فیصل فاروق، ممبئی، انڈیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

فیصل فاروق، ممبئی، انڈیا

فیصل فاروق ممبئی، اِنڈیا میں رہائش پذیر کالم نِگار اور صَحافی ہیں۔

faisal-farooq has 32 posts and counting.See all posts by faisal-farooq

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments