محترم یاسر پیرزادہ صاحب! ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟


”ہم سب“ میں شائع شدہ پانچ فروری 2020 کے اس کالم میں جو محترم یاسر پیرزادہ صاحب کا تحریر کردہ ہے۔ محترم پیرزادہ صاحب اسرائیل اور پاکستان کے درمیان مادی ترقی میں تفاوت۔ اس کے پسِ منظر اور وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

”جب ہم بے بس ہو کر خدا سے دعا کرتے ہیں تو دراصل اُ سے ان قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں جو ممکن نہیں۔ “

:پھر ایک غلط فہمی کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

”ہم سمجھتے ہیں دعاؤں سے دنیاوی مسئلے حل ہو سکتے ہیں (پیغمبروں کی فضیلت اور اُن کی دعا کی بات الگ ہے جسے ہم گناہگار نہیں پا سکتے ) “

اس کے بعد اسی فقرہ میں از خود ہی یہ بھی طے فرما لیتے ہیں کہ

”جبکہ مذہب کا یہ (یعنی دعا کے ذریعہ مسائل کا حل ہونا) موضوع ہی نہیں، مذہب تو انسان کے زندگی بعد از موت کے معاملے کو سلجھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ مرنے کے بعد جب تم اٹھائے جاؤ گے تو روزِ حشر بر پا ہوگا، وہاں جزا اور سزا کا تعین ہو گا“

اور

مسلمانوں کو آخرت کی تیاری کی یہ تلقین کرتے ہوئے کہ

”ضروری ہے کہ تم دنیا میں ایک پاکیزہ زندگی اپنے رب کے احکامات کے مطابق گزارو“

لکھتے ہیں کہ

”اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکیزہ زندگی گزارنے کی صورت میں دنیا میں تم پر کوئی آنچ نہیں آئے گی“

یہ سب بتا دینے کے بعد لکھتے ہیں کہ

”اس دنیا میں انصاف اور عدل نہیں ہوتا مگر قیامت کے روز عدل بھی ہو گا اور رحم بھی۔ سو خدا کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کا اجر ہمیں بعد ازموت جنت کی صورت میں ملے گا۔ یہ خدا کا وعدہ ہے“

دعاؤں کی قبولیت اور عدم قبولیت کو اکثر علماء اس سے پیشتر بھی موضوع بنا چکے ہیں اور ان کو ماضی قریب کی تاریخ میں دو بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو وہ ہیں جو مضمون نگار کی طرح دعا کو دنیوی معاملات میں ذرہ بھر بھی نفع بخش تصّور نہیں کرتے اور نیچر کے قوانین کو ہی مطلق سمجھتے ہیں۔ برِ صغیر کے نامور اصلاح پسند سرسیّد احمد خاں اس طبقہ کے سرخیل تھے۔ دوسری جانب کے علماء ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم تک دعاؤں کے مادی دنیا پر اثر پذیر ہونے کے قائل تو ہیں مگر اِن دعاؤں کی عدم قبولیت کا باعث مسلمانوں کی اپنی ہی بداعمالیوں کو قرار دیتے ہیں۔ اور اس پہلو سے مادی پسماندگی کی وجہ بھی بد اعمالیوں کو ہی قرار دیتے ہیں۔

پیرزادہ صاحب نے دعاؤں کا اثر حشر کے دن کے لئے مخصوص کر کے ایک بالکل نئی بحث کا آغاز کردیا ہے۔ اگر ان کے موقف کو برحق سمجھ لیا جائے تو آج وہ گروہ (جس کا ذکر انہوں نے مضمون کے آغاز میں کیا ہے جس نے بغیر دعا کی مدد کے محض مادی وسائل پر انحصار کرکے دنیا بھر میں مادی فضیلت حاصل کر لی ہے ) اور ایک پاکستانی مسلمان گروہ بھی جو بغیر دعا کے اس مادی سعی کو ہی ترقی کا زینہ سمجھتا ہے اسی نتیجہ پر پہنچنے پر یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ مرنے کے بعد بھی دوبارہ زندگی ملے گی لہذا ان کے لئے موت بعد الحیات خیالِ محض کے سوا کچھ نہیں ہے۔

کیونکہ موت کے بعد آج تک کوئی بھی لوٹ کر نہیں آیا جو اس امر کی تصدیق کرتا۔ یہ بات مشکوک ہوجانے کے بعد اگلے مرحلہ پر خدا کا ہونا نہ ہونا بھی برابر قرار پاتا ہے۔ یہ تو پھر وہی بات ہوئی جو علامہ اقبال کے محبوب نامور جرمن فلاسفر فریڈرش نیٹشے نے کہی تھی کہ ”خدا فوت ہو چکا ہے“۔ اسی بنا پر خدا کی وفات کا اعلان 1966 ٹائم رسالے میں بھی باقاعدہ شائع کیا گیا۔

یہ بات تو درست ہے کہ خدا کی ہستی کو محض معاشرے کے دباؤ کے تحت تسلیم کرنا۔ جہلا کی پیروی کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن پیرزادہ صاحب کی تشکیک ترقی کرتے کرتے اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ بندے اور خدا کے درمیان ایک بنیادی لنک دعا کو سِرے سے نابود قرار دے دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ مسلمانوں کی دعا کے نام پر منہ زبانی جمع خرچ بے وقعت ہو چکی ہے اوربظاہر ان کی بد حالی دعاؤں کی عدم قبولیت کا بھی ثبوت ہے جبکہ اس بات پر فیصلے کا اختیار تو اگر کوئی خدا ہے تو اسی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے کہ وہ بد اعمالیوں کے باوجود مسلمانوں اور اسی طرح ہر ذی شعور کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت سے نوازے یا دوسری صورت میں رد کردے۔ اگلا اور اہم ترین تدبر کے لائق معاملہ یہ ہے کہ اگر خدا ہے تو اپنے بندوں کو۔ اپنے ہونے کا۔ کوئی نہ کوئی ثبوت بھی خود اسی نے ہی فراہم کرنا ہے۔ آج کے انسان کو کسی بھی دوسرے انسان کے کہنے سے ایک علیٰ کل ِ شئیٍ قدیر خدا کے ہونے پر یقین پیدا نہیں ہو سکتا۔

: علامہ اقبال کے اس شعر

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زور بازو کا!

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

کے مطابق مومن کے زورِ بازو کو پیمانہ قرار دیا جائے تو جیسا کہ اوپر محترم پیرزادہ صاحب نے موازنہ کیا ہے اسرائیل ہی مومنِ حقیقی قرار پاتا ہے اور اسرائیل کا اردو ترجمہ بھی بازو ؤں میں قوت رکھنے والا پہلوان ہی ہے۔ لیکن یہ بات پورے طور پر درست نہیں ہے۔ اس کے برعکس ایک دوسر ا موقف بھی ہے جس کے مطابق :۔

دعائے مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

اگر قرآن کے فرمان پر ایمان لایا جائے تو اِس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں۔ ( 1 ) سورۃ مومن میں بیان فرمایا ہے۔ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔ ( 40 : 60 ) اور ( 2 ) اسی طرح سورۃ البقرہ میں فرمایا: جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں ( 2 : 186 ) اسی طرح اسی سورۃ میں آیت 201 میں آتا ہے۔ : ”اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی۔ گویا دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کے لئے یکساں قسم کی دعا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے تو اپنے ان وعدوں کے ذریعہ مومن کو اِسی دنیا میں قبولیّت دعا کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اگرچہ محترم پیرزادہ صاحب کی تشکیک کوئی جرم نہیں لیکن ان پر وعظ سے پیشتر اس بات کا یقین کر لینا فرض ہے کہ بحیثّیت مسلمان اگر وہ بات کریں تو قرآن کے ساتھ مطابقت بھی رکھتی ہو۔ جہاں تک اِس دور میں قبولیّت دعا کے نشانات کا تعلق ہے یہ امر ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔

یہ کہانی پھر سہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments