کلیمؔ عثمانی: وہ خوش نصیب فلمی شاعر جن کے تقریباً سب ہی گیت مقبول ہوئے


احتشام الہٰی المعروف کلیمؔ عثمانی پاکستانی فلموں کے ایک معروف صاحبِ طرز گیت نگار ہیں۔ پاک بھارت فلمی دنیا میں بعض شعراء کو گیت نگاری کے ساتھ ساتھ مستند غزل کہنے والا بھی مانا جاتا ہے جیسے تنویر ؔ نقوی، ساحرؔ لدھیانوی، سیف الدین سیفؔ، قتیلؔ شفائی، مجروحؔ سلطانپوری، شکیلؔ بدایونی، جانثارؔ اختر وغیرہ۔ ان ناموں میں ایک معتبر نام کلیمؔ عثمانی کا بھی ہے۔ انہوں نے اپنے اوائل فلمی دور میں ہی گیت کے ساتھ غزل میں بھی اپنے آپ کو منوا لیا۔ پھرریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہونے والے گیت، غزل اور مِلی نغموں نے ان کی شہرت دو چند کر دی۔

1928 میں دیو بند، سہارنپور، غیر منقسم ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا تعلق مولانا شبیر احمد عثمانی سے جا ملتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ شاعری ان کو وراثت میں ملی کیوں کہ والد، فضل الہٰی بیکلؔ بھی اپنے زمانے کے اچھے شاعر تھے۔ ابتدا میں اپنے والد سے شاعری میں اصلاح لی۔ قیامِ پاکستان کے بعدان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور منتقل ہو گیا۔ خوش قسمت کلیمؔ عثمانی کو یہاں معروف شاعر احسان دانش کی شاگردی نصیب ہوئی۔

رفتہ رفتہ مشاعروں میں شرکت کرنا شروع کی۔ چونکہ وہ ترنم سے پڑھتے تھے لہٰذ ا بہت داد ملتی۔ یوں جلد ہی قبولِ عام حاصل ہو گیا۔ فلموں میں ان کی آمد ہمایوں مرزا کی فلم ”انتخاب“ ( 1955 ) کے گیت لکھنے سے ہوئی۔ اِس فلم کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔ مذکورہ فلم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اداکارہ جمیلہ رزّاق کی بھی یہ پہلی فلم تھی۔ اس کے بعد پھر کچھ عرصہ ہمایوں مرزا کی فلموں کے لئے ہی گیت لکھے۔ جیسے : ”بڑا آدمی“ ( 1957 ) ، ”دھوپ اور چھاؤں“ ( 1963 ) ، ” راز“ ( 1959 ) ۔ فلم ”راز“ کی خاص بات بھارت سے آئی ہوئی اُس دور کی نامور گلوکارہ مبارک بیگم ہیں۔ اِن کی آواز میں فیروز نظامی کی موسیقی میں کلیمؔ عثمانی کا یہ گیت بہت مقبول ہوا: ”قصہء غم سنائے جا، اے زندگی رُلائے جا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “۔ مبارک بیگم کا ایک اور گیت بھی سپر ہٹ ہوا : ”مست نظر موری پتلی کمرذرا دل کو بچانا رے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ اور زبیدہ خانم کی آواز میں یہ مقبول گیت: ”میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا، جا رے بلم تجھے دیکھ لیا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ”۔ 1966 میں بننے والی فلم“ ہم دونوں ”میں کلیم ؔعثمانی نے موسیقار شوکت حیدر دہلوی المعروف ناشاد کے لئے گیت لکھے۔ مذکورہ فلم کی ایک غزل بہت زیادہ مقبول ہوئی اور آج بھی سنی جاتی ہے :“ اُن کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا، دل یہ سمجھا کہ چھلکتا ہوا اک جام ملا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”یہ رونا لیلیٰ کا پہلا فلمی نغمہ تھا۔ اس فلم کے بعد کلیم ؔعثمانی لاہور منتقل ہو گئے کیوں کہ انہو ں نے ہمایوں مرزا کے علاوہ دوسرے فلمسازوں کے لئے بھی لکھنا شروع کر دیا تھا اور ہمایوں مرزا کراچی کے فلم اسٹوڈیوز میں فلمیں بنا تے تھے۔

لاہور میں انہوں نے کئی ایک فلموں کے لئے گیت لکھے جیسے : ”عصمت ’‘ ( 1968 ) جس کے موسیقار معصوم رحیم تھے۔ مذکور ہ فلم کے کئی گیت مقبول ہوئے، مثلاً۔ “ شکستہ دل ہوں مجھے زندگی سے پیار نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”آواز نورجہاں، “ اب تیری مرضی تو آئے یا نہ آئے، میں نے تو تیرا انتظار کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آواز نسیم بیگم ”، شباب پروڈکشن کی فلم“ جوشِ انتقام۔ ” ( 1968 ) میں تصدق حسین کی موسیقی میں آئرین پروین کی آواز میں یہ گیت سُپر ہٹ تھا:“ چاند نکلا ہے تیرے حسن کی تصویر لئے، رات آئی ہے میرے خوابوں کی تعبیر لئے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ”۔ مذکورہ فلم کی ایک اور خاص بات موسیقار تصدق حسین کے ذہین معاون نذیر علی تھے جنہوں نے آگے چل کر خود بطور موسیقارکئی فلموں کو کامیاب کروایا جیسے پنجابی فلم“ دلاں دے سودے ”کا یہ معرکۃ الآرا گیت“ ہو لال موری پت رکھییو بھلا جھولے لالن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”آواز نورجہاں۔ 1968 میں سید عشرت عبّاس المعروف اداکار درپن نے بطور فلمساز فلم“ ایک مسافر ایک حسینہ ”بنائی۔ اِس فلم میں کلیم ؔ عثمانی کے لکھے گیت موسیقار خلیل احمد کی موسیقی میں بہت مقبول ہوئے جیسے :“ باجے جب کوئی شہنائی، کیوں یہ آنکھ بھر آئے۔

۔ ۔ ۔ ۔ آواز رونا لیلیٰ ”۔ سلمیٰ کنول کے ناول پر مبنی نگار پکچرز کے لئے فلمساز راشد مُختار کی فلم“ عندلیب ” ( 1969 ) ایک سُپر ہِٹ فلم تھی۔ بر صغیر پاک و ہند کے مشہور ہدایتکار اور فلمساز ڈبلو زیڈ احمد کے ذہین بیٹے فرید احمد اس فلم کے ہدایتکار تھے۔ نامور موسیقار نثار بزمی کی موسیقی اور نورجہاں کی آواز میں کلیمؔ عثمانی کا لکھا ہوا گیت:“ پیار کر کے ہم بہت پچھتائے، اِک پَل خوشی کی خاطر سو غم اُٹھائے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ”اب تک مشہور ہے اور اکثر ایف ایم ریڈیو پروگراموں میں سنا جاتا ہے۔ فلم“ نازنین ” ( 1969 ) میں ایم اشرف کی موسیقی میں کلیمؔ عثمانی کے لکھے ہوئے تقریباً تمام ہی گیت بہت مقبول ہوئے۔ جیسے :“ مستی میں جھومے فضا، گیت سنائے ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آواز احمد رشدی ”، “ یہ مانا کہ تم دلربا نازنین ہو، مگر بندہ پرور خدا تو نہیں ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آواز مسعود رانا ”، “ میرا خیال ہو تم، میری آرزو تم ہو، میری نگاہِ تمنا کی جستجو تم ہو ”، قوالی کے انداز میں مسعود رانا کی آواز۔

” دوستی“ ( 1971 ) میں اے حمید کی موسیقی میں کلیمؔ عثمانی کا یہ گیت سپر ہٹ ہوا: ”آ رے آ رے دل کے سہارے، دل کی ہر دھڑکن تجھ کو پکارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ آواز مجیب عالم۔ فرید احمد کی فلم ”بندگی“ ( 1972 ) میں موسیقار ناشاد کی موسیقی میں اِن کے لکھے ہوئے یہ گیت بہت مقبول ہوئے : ”جو کیا ہے آج وعدہ یونہی عمر بھر نبھانا، میری زندگی ہے تم سے کہیں تم بدل نہ جانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آواز نورجہاں“، ”خاموش ہیں نظارے اِک بار مسکرا دو، کہتی ہیں یہ بہاریں ہنسنا ہمیں سکھا د و۔

۔ ۔ ۔ ۔ ”آواز مہدی حسن۔ گولڈن جوبلی فلم“ نیند ہماری خواب تمہارے ” ( 1971 ) کے گیت بھی کلیم ؔعثمانی نے لکھے جو بے حد مقبول ہوئے جیسے :“ ہائے میرا جھمکاکھو گیا سجنا کے بازار میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”آواز رونا لیلیٰ، “ جو بظاہر اجنبی ہیں ہم سے بیگانے بھی ہیں، اُن کی نظروں میں ہمارے دل کے افسانے بھی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”آواز مہدی حسن“، ”ناراض نہ ہو تو عرض کروں دل تم سے محبت کرتا ہے، لے لے کے تمہارا نام کوئی دیوانہ آہیں بھرتا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ”آواز مسعود رانا۔ مشترکہ فلمساز نور الدین کیسیٹ اور کے خورشید اور ہدایتکار کے خورشید کی سلور جوبلی فلم“ چراغ کہاں روشنی کہاں ” ( 1971 ) میں بھی کلیم ؔعثمانی کے سپر ہٹ گیت شامل تھے جن کی موسیقی ایم اشرف نے ترتیب دی۔ جیسے :“ میری دعا ہے کہ تو بن کے ماہتاب رہے، خدا کرے کہ سلامت تیرا شباب رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”آواز مسعود رانا“، ۔

” گورے مکھڑے سے زلفیں ہٹا دوکہ بدلی سے چاند نکلے، دیکھو ایسے نہ ہم کو ستاؤ کہ گھڑی گھڑی دل دھڑکے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ آوازیں مسعود رانا اور رونا لیلیٰ، ”حالِ دل آج ہم سنائیں گے آرزو کو ہماری نہ ٹھکرائیے، زخم اپنا تمہیں دکھائیں گے بندہ پرور کرم کچھ تو فرمائیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ آواز مسعود رانا۔

کلیمؔ عثمانی نے بہترین گیت نگار کے دو نگار ایوارڈ حاصل کیے۔ پہلا 1973 فلم ”گھرانہ“ کے گیت ”تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا پلکیں بچھا دوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ آواز نیرہ نور اور موسیقی ایم اشرف اور دوسرا 1978 فلم ”زندگی“ کے گیت ”تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں کبھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “۔ یہ فلم میں دو جگہوں پر ہے ایک ناہید اختر اور مہناز کی آوازوں اور دوسر ا مہناز اور اے نیر اور کی آواز وں میں۔ اس کے موسیقار بھی ایم اشرف تھے۔

خاکسار کی کبھی کلیمؔ عثمانی صاحب سے ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن ریڈیو پر عرصے سے اِن کے فلمی گیت سُن سُن کر گیت اور خود کلیمؔ صاحب کا نام یاد ہو چکا تھا۔ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں شعبہ پروگرامز میں منسلکی کے زمانے میں ایک مرتبہ موسیقارنثار بزمی صاحب کے ہاں کلیمؔ عثمانی کا ذکر آ گیا۔ اِس پر بزمی صاحب نے مجھے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ لیجیے اُن کی زبانی سنیئے :

” ایک رو ز فجر کی نماز کے فوراً بعد کلیم ؔعثمانی میرے گھر آئے۔ میں نے پوچھا خیریت؟ “۔

” ابھی تھوڑی دیر قبل ادھ سوئی ادھ جاگی کیفیت میں مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے قائدِ اعظم ؒ میرے کمرے میں غصہ کی حالت میں آئے اور کہ رہے ہیں کہ میرے ملک کا کیا خراب حال کر رکھا ہے؟ تم لوگوں نے تو مایوس ہی کیا! ہاں! ! اگر کسی سے اچھی امید ہے تو وہ اس ملک کے بچے ہیں۔ بس تب سے طبیعت سخت مضطرب ہے“۔ کلیمؔ عثمانی نے جواب دیا۔

” قائدؒ نے غلط نہیں کہا۔ یہاں توہم نے سب ہی کو آزما کے دیکھ لیا۔ اب ان بچوں سے ہی کوئی امید کی جا سکتی ہے۔ بس وہ کچھ ایسا لمحہ تھا کہ بیساختہ کلیمؔ عثمانی کو ایک خیال سوجھا : ’تم ہو پاسباں اس کے‘ ۔ بس پھر کیا تھا مکھڑا بن گیا۔ گویا بانیِ پاکستان اس ملک کے بچوں سے کہ رہے ہیں :“ یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”۔ اس طرح سے ریکارڈ وقت میں بے مثال طرز کے ساتھ یہ نغمہ مکمل ہوا۔ جس کومہدی حسن کی آواز میں پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز سے پروڈیوسر اختر وقار عظیم صاحب نے پیش کیا ”۔

ملی نغمہ ’یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اس کے یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے‘ کا کتنا خوبصورت پس منظر ہے۔

کلیم صاحب کی ایک طویل عرصے نگار ویکلی سے رفاقت رہی۔ وہ باقاعدگی سے ’لاہور کی ڈائری‘ لکھا کرتے تھے۔ ’لاہور کی ڈائری‘ کا بھی ایک دل چسپ پس منظر ہے : لاہور کے نگار خانوں کی فلمی رپورٹنگ کو پہلے پہل فلمساز، ہدایتکار، اسکرین رائٹر، مکالمہ نویس اور مصنف علی سفیان آفاقی علی بابا کے نام سے لکھا کرتے تھے۔ بعد میں لاہور کے نگار خانوں کی فلمی سرگرمیوں پر مبنی اس سلسلے کو کلیمؔ عثمانی صاحب نے بھرپور انداز سے جاری رکھا۔ اس میں وہ مختلف فلم اسٹوڈیوز میں ہونے والی فلمی عکس بندیوں سے متعلق باتیں بے حد دلچسپ انداز میں لکھتے تھے۔ اب بھی اِن کی وہ پرانی تحریریں نگار ویکلی میں اکثر شائع ہوتی ہیں۔ اِس خاکسار سمیت بہت سے دوسرے افراد بھی یہ ڈائری بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔

کلیمؔ عثمانی کی غزلیات کا مجموعہ ”دیوار حرف“ اور نعتیہ مجموعہ ”ماہِ حرا“ ہے۔ اِن کا نعتیہ نمونہ پیشِ خدمت ہے :

ابرِ کرم ہے جن کی ذات، وجہء سکوں ہے جن کا نام

ان پر نثار جان و دل ان پر درود اور سلام

ان کے نظر کے فیض سے خار بھی پھول ہو گئے

ان کے قدم سے مل گیا خاک کو عرش کا مقام

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز سے ایک پروگرام ”ترنم“ میں ملکہء ترنم نورجہاں گیت و غزل سنایا کرتی تھیں۔ اس پروگرام کا ایک سدا بہار گیت کلیمؔ عثمانی کا بھی ہے :

رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح

چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح

بے وفاؤں سے وفا کر کے، گزاری ہے حیات

میں برستا رہا ویرانوں میں، بادل کی طرح

اس گیت کو سکون سے بیٹھ کر سنیں تو یوں لگتا ہے کہ ایک لطیف دنیا میں آ گئے ہیں جہاں استاد نذر حسین کی بولتی ہوئی دھن کے ساتھ گیت کے بول مل کر ایسا سحر زدہ ماحول بنا رہے ہیں جیسے مصور کے ہاتھ سے رنگوں کا کوئی حسین منظر۔

مجھے بچپن ہی سے ریڈیو پر فلمی گیت و غزل سننے کا شوق تھا اور پاک و ہند کی فلموں کے بہت سے گیت سن کر یاد ہو گئے تھے۔ نہ صرف گیت بلکہ شاعر کا نام اور موسیقار کا بھی علم ہوتا تھا۔ اب میں غور کرتا ہوں کہ کلیم ؔعثمانی اُن خوش نصیب شاعروں میں شامل ہیں جن کے تقریباً تمام گیت مقبولِ عام ہوئے۔ یوں تو وہ 2000 میں ہم سے جدا ہو گئے لیکن اپنے گیتوں کی شکل میں اب بھی ہمارے ساتھ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments