ایوان بالاسیاسی سنجیدگی کا طلبگار!


ملک میں پارلیمان کو قومی دانش کا مرکز و منبع قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں قانون سازی کے ساتھ قومی سطح کے ایشوز زیربحث آتے ہیں۔ سیاست میں سیاسی اختلافات اپنی جگہ، مگر ان کا اظہار مہذب انداز سے کیا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے سیاسی اختلافات کو دشمنی کی حد تک بڑھا دیا گیا ہے۔

نوے کی دہائی ایسے ہی رویوں کی غماز تھی کہ جس کا سیاستدانوں کو بار بار حکومتیں ٹوٹنے کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑا، مگر سیاسی قیادت کی ہٹ دہرمی برقرار کہ ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھنا، اسی لیے آج بھی پارلیمان کے اندر عامیانہ زبان استعمال کی جاتی ہے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اور اپنے شریف، زرداری، کپتان کو خوش کرنے کے لئے قابل اعتراض الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔

نئی نسل آج کے ارکان اسمبلی کے کردار سے کیا سیکھیں گے، ہماری سیاسی قیادت اس فکر سے آزاد نظر آتے ہیں۔ اگرارکان پارلیمنٹ سپیکر کی رولنگ کو رد کرنے کی روش جاری رکھیں گے تو نظم و ضبط کی دھجیاں ہی اڑیں گی، جیساکہ عموماً اڑائی جارہی ہیں۔ ایوان کو باہمی مفاہمت سے چلانے کی بجائے محض بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر یا زیر بحث تنقیدی نقطہ نظرپر رہنماؤں کی طرف سے ایوان کو نہ چلنے دینے کی دھمکیاں افسوسناک ہیں۔

اگرطرفین سیاسی اختلافات کو ایک حد میں رکھیں گے تو ہی جمہوریت کا سفر جاری رہ سکتا ہے۔ جمہوریت کو نقصان پہنچنے کی صورت میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی کرسیاں سلامت نہیں رہ سکیں گی، قوم ماضی میں ایسے تلخ تجربات کا مشاہدہ کر چکی ہے، پارٹی وابستگیوں سے بالا ہو کر پارلیمنٹیرین کو مثالی جمہوری رویوں کا اظہار کرتے ہوئے خود کو رول ماڈل ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ امر واضح ہے کہ ایون پارلیمان عوام کے مسائل کے تدارک کا پلیٹ فارم ہے، مگر اس پلیٹ فارم پر عوامی نمائندوں کا طرز عمل نہایت افسوس ناک ہے۔ حالیہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں تینوں بڑی جماعتوں کے اراکین نے جس انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری جمہوریت نے ابھی تک صرف انتخابات تک کا سفر طے کیا ہے، جمہوری رویوں اور تنقیدی شعور تک پہنچنے کے لئے ابھی طویل فاصلہ طے کرنا ہے۔

اپوزیشن کو محو انتظار حکومت کہا جاتا ہے۔ سیاست امکانات کا نام ہے، اس لئے ہو سکتا ہے کہ موجودہ اپوزیشن کو آئندہ حکومت بنانے کا موقع مل جائے، ایسا ہونے کی امید پر ہی مسلم لیگ (ن ) اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ اپوزیشن آج جس طرز عمل کارواج دے گی، کل اسی انداز میں تنقید سہنا پڑے گی، اس لیے حزب اقتدار اور اختلاف کو اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانا ہو گی۔

ایک طرف تو پارلیمنٹ کو ریاست کے اعلیٰ ترین ادارے کا درجہ دیا جاتا ہے اور ایوان کے تقدس کا اس حد تک خیال کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی رکن نامناسب بات کہہ دے تو اس کے الفاظ ریکارڈ سے حذف کر دیے جاتے ہیں، جبکہ دوسری طرف اراکین پارلیمنٹ کو بھی حق دیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی معاملے پر کھل کر ایوان میں بات کر سکتے ہیں۔

ا سی وجہ سے سینٹ کی نسبت قومی اسمبلی کا ماحول زیادہ پرُجوش اور گرم رہتا ہے، ارکان پارلیمان بحث کے دوران ایک دوسرے پر فقرے بازی میں ذاتی حملے بھی کرتے رہتے ہیں، ایسا پاکستان میں ہی نہیں، ساری دنیا میں ہوتا ہے، لیکن ایک اسلامی جمہوری ریاست کی قومی اسمبلی میں اراکین کا برتاؤ زیادہ ذمہ دارانہ رویے کا مطالبہ کرتا ہے۔

دنیا ئے عالم نے چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مواخذے کی کارروائی کے دوران دیکھا کہ ٹرمپ نے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سپیکر نینسی پلوسی کی جانب سے رسمی مصافحے کے لئے بڑھایا گیا ہاتھ نظر انداز کر دیا، اس بداخلاقی کا جواب نینسی پلوسی نے اختتام پر صدر ٹرمپ کی تقریر کا مسودہ پھاڑ کر دیا، اس واقعہ کو پورے امریکہ میں ناپسندیدہ قرار دیا، امریکہ میں ایسے واقعات کبھی کبھار ہوتے ہیں، لیکن پاکستانی قومی اسمبلی کی حالت زار یہ ہے کہ ہر اجلاس میں اپوزیشن اور حکومت طے کر کے شریک ہوتی ہے کہ اخلاقیات جائے چولہے میں، انہیں تو اپنی تقاریر کے ذریعے مخالف کی عزت اچھالنی ہے۔

عوام اپنے نمائندوں کو ایوان میں قانون سازی اور اپنے مسائل کے تدارک کے لئے بھیجتے ہیں، مگر ارکان پارلیمنٹ کی ترجیح عوام کی بجائے ذاتیات ہو جاتی ہیں، اسی لیے پالیمان اپنا حقیقی کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ اپوزیشن و حکومتی طرز عمل، ہنگامہ آرائی، شورشرابا اور نعرے بازی پارلیمنٹ کا مقدر بن گیاہے، سپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں ایڈوائز کمیٹی کے اجلا س میں ایوان کی کارروائی پرامن چلانے اور اجلاس کا ایجنڈا چلانے پر اتفاق ہوتا ہے، لیکن بعض حکومتی اراکان کی بلاوجہ مداخلت ایوان کا ماحول خراب کر دیتی ہے۔

حکومتی ارکان کی اپوزیشن کے ساتھ چھیڑچھاڑ ایک دوسرے کو مہنگی پڑتی ہے جس کے باعث اجلاس کی کاروئی کے نتائج حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ مسلم لیگ ( ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرنے کے نتائج بھگت چکے ہیں، اس کے باوجود دونوں نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا، ایک بار پھر مخالفن کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کی روش کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، جمہوریت میں جمہوری روایات کی پاسدراری کی باتیں کرنے والے خود سیاسی اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹوزرداری کے ساتھ بعض ارکان پارلیمنٹ کی وزیر اعظم کے خلاف زبان درازی قابل مذمت ہے، پیپلز پارٹی کی پڑھی لکھی نوجوان قیادت سے ایسے رویئے کی توقع نہیں کی جاسکتی، پیپلز پارٹی کی باگ ڈور بے نظیر بھٹو کی اولاد کے ہاتھ میں ہے، کل کلاں بلاول بھٹو زرداری کی محترم بہنیں بھی ایوان کی رکن منتخب ہو سکتی ہیں۔

تین سال پہلے سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ایک وزیر نے اپوزیشن کی خاتون کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے تو آصفہ بھٹو زرداری نے اپنے وزیر کو معافی مانگنے کا کہا تھا، آصفہ بھٹو کی ہدایت پر موصوف نے ایوان میں معافی مانگی۔ اس عمل سے پیپلز پارٹی کی قیادت کے متعلق ملک میں خوشگوار تاثر گیا تھا، لیکن گزشتہ چند اجلاسوں سے قومی اسمبلی میں جس طرح بلاول بھٹوزرداری کی دیکھا دیکھی عبدالقادر پٹیل گفتگو کر رہے ہیں، اس سے ان کی پارٹی کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

اس وقت پاکستان معاشی ’سماجی‘ خارجہ اور دفاعی مسائل میں الجھا ہوا ہے، دشمن ہمیں کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ دشمنوں کی سازشیں ناکام بنانے اور عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے ارکان پارلیمنٹ ہی پارلیمان میں سوچ بچار کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ ہی ایسا پلیٹ فارم ہے، جہاں یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ مہنگائی کے ذمہ دار عناصر کے خلاف کیا کارروائی کی جانی چاہیے۔

اراکان پارلیمنٹ حکومت کی غلطیوں اورکوتاہیوں کی نشاندہی کر نے کا حق ضرور رکھتے ہیں، لیکن تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے، جبکہ اپوزیشن نے تنقید برائے ذاتیات کی روش اپنا رکھی ہے، وزیر اعظم سمیت ارکان کابینہ پر ذاتی حملے بری روایات کو فروغ دینے کے مترادف ہیں۔

حزب اقتدار پر زیادہ ذمہ د اری عائدہو تی ہے کہ وہ ملکی مفا د میں باہمی مفاہمت کو فروغ دے، عوام اپنے نمائندوں کے غیر سنجیدہ طرز عمل کو ناپسندیدگی کی نظرسے دیکھتے ہیں، انہیں سیاسی قیادت کے ذاتی جھگڑوں سے نہیں، اپنے مسائل کے تدارک سے دلچسپی ہے، آئے روزپارلیمنٹ ہنگامہ آرائی نے عوام کو مایوسی کا شکار بنادیاہے، سیاسی قیادت کو قوم کے روپے اور وقت کو ذاتی جھگڑوں پر خرچ کرنے سے گریز کرتے ہوئے ایوان بالا میں سنجیدگی کے ساتھ حقیقی عوامی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments