پرانے الفاظ کی نئی مثالوں سے تشریح


جب ہم چھوٹے تھے تو سکول کے امتحانات کے پرچوں میں لکھا ہوتا تھا کہ جواب کو آسان زبان میں مثالیں دے کر واضح کریں۔ اب بڑے ہوگئے ہیں تو تب بھی بہت سی باتوں کو سمجھنے کے لیے مثالیں ہی آسانی فراہم کرتی ہیں۔ آئیے اس فارمولے کو سامنے رکھتے ہوئے چند مشہور سیاسی الفاظ یعنی حکومت، حالات، اپوزیشن اور عوام کو جاننے کے لیے روزمرہ کی سادہ سادہ مثالوں کا سہارا لیتے ہیں۔

(حکومت) ہم حکومت کو سمجھنے کے لیے اُس جنگل کی مثال نہیں دیں گے جہاں جمہوریت آنے کے باعث کمزور جانور کو حکومت مل گئی مگر وہ شیر کے منہ سے ہرن کا بچہ نہیں بچا سکا حالانکہ کمزور جانور نے محنت بہت کی مگر حالات ہی ایسے تھے۔ وہ کیا کرتا؟

(حالات) ہم نے حالات کا لفظ بہت سنا، پڑھا اور لکھا ہے۔ پاکستانی لوگوں کے لیے حالات سے کیا مراد ہے ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ ہم نے جدید بچوں کے لیے بنائی ہوئی وہ فلمیں تو ضرور دیکھی ہوں گی جن میں لاکھوں برس پرانی مخلوق ڈائینوسار دکھائی گئی ہیں۔ ڈائینوسار کے مقابلے میں دیو بھی بونا لگتا ہے۔ ڈائینوسار جب چلتے ہیں تو زمین ایسے ہلتی ہے جیسے رسی سے بندھا لکڑی کا پل کسی کے چلنے سے جھولے لیتا ہے۔

ڈائینوسار کے پنجوں تلے درخت آئیں، پتھر آئیں، پہاڑ، دریا یا صحرا آئیں اُسے کچھ فرق نہیں پڑتا، وہ چنگھاڑتا ہوا چلتا رہتا ہے، جدھر چاہے مڑ جاتا ہے، اُس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں۔ اُس کی آنکھیں اُس کی بہت اونچی گردن پر جڑے خونخوار منہ پر لگی ہوتی ہیں جہاں سے نیچے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ آج کل کے حالات انہی ڈائینوسار کے مانند ہیں جن کے مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، سٹریٹ کرائم اور ریپ جیسے پنجوں تلے عوام مارے جارہے ہیں اور وہ بہت اونچی گردن پر جڑی آنکھوں کے باعث بہت نیچے مرنے والی مخلوق کو نہیں دیکھ سکتے۔

(اپوزیشن) ہمارے ہاں اپوزیشن کی ٹھیک ٹھاک گھن گرج ہے۔ حکومت کی غلط کاریوں پر چیخنے، پالیسیوں پر تنقید کرنے، کرپشن مہنگائی بے روزگاری کو اجاگر کرنے اور فارَن ایشوز میں پاکستان کے نیچے لگ جانے جیسے معاملات پر اُٹھ اُٹھ کر بولنے میں اپوزیشن کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی۔ ہوتا یوں ہے کہ اپوزیشن کسی تیز دھاری آلے کی طرح اپنے خول سے باہر آتی ہے۔ کچھ دنوں تک اپنا زور دکھانے کے بعد زنگ آلود ہوکر واپس اپنے خول میں چلی جاتی ہے۔

اپوزیشن کے اتنا رعب ڈالنے اور دھاڑنے کے باوجود مسائل وہیں کے وہیں ہیں۔ ایسی اپوزیشن کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیتے ہیں۔ اگر آپ گاؤں کے رہنے والے ہیں یا کسی گاؤں میں گئے ہیں تو اُس گاؤں کے لاری اڈے کا منظر ذہن میں لائیے۔ ایک بس وہاں سے شہر کو جانے کے لیے موجود ہے۔ کچھ سواریاں بیٹھی ہیں مگر زیادہ تر نشستیں خالی ہیں۔ تھوڑی سواریوں کے ساتھ ایسی حالت میں بس کا روانہ ہونا بس مالکان کے لیے مالی نقصان ہوتا ہے۔

لہٰذا ان کی خواہش ہوتی ہے کہ بس کی روانگی میں جتنا بھی وقت لگ جائے مگر سواریاں زیادہ سے زیاد ہ ہوں۔ اس مقصد کے لیے کچھ اس طرح کی کارروائی کی جاتی ہے کہ بس سٹارٹ کردی جاتی ہے، میلا کچیلا کلینر یا کنڈیکٹر جسے مقامی زبان میں کلینڈر کہا جاتا ہے، بس کی روانگی کی اطلاع دیتے ہوئے سواریوں کو جلدی جلدی آنے کے لیے اونچی اونچی آوازیں دیتا ہے۔ کافی انتظار کے بعد جب بس نہیں چلتی تو اندر بیٹھی ہوئی اکا دکا سواری اپنے حقوق کے لیے لب کھولتی ہے اور کھڑکی سے گردن نکال کر کلینڈر سے پوچھتی ہے کہ بس آخر کب روانہ ہوگی؟

تھوڑی دیر بعد ایک ڈرائیور نما اناڑی فرد ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھتا ہے، ایک دو مرتبہ بس کی ریس دیتا ہے، ایکسیلیٹر پر بوٹ کا زور پڑنے سے انجن شور مچانے لگتا ہے، باہر کھڑا کلینڈر بڑی مستعدی سے بس کو روکنے کے لیے بس کی باڈی پر زور زور سے ہاتھ مارتا ہے جیسے اُس نے ایسا نہ کیا تو بس کسی لمحے بھی فراٹے بھرنے لگے گی۔ وہ اپنی حرکات سے ظاہر کرتا ہے کہ بہت سی سواریاں آرہی ہیں اور چند منٹ بس کے نہ رکنے سے آنے والی سواریاں سفر کی نعمت سے محروم رہ جائیں گی۔

نامکمل ڈرائیور اور کلینڈر یہ عمل کئی بار دہراتے ہیں۔ جب اندر بیٹھی سواریاں بس مالکان، نامکمل ڈرائیور اور کلینڈر کے باہمی مفادات کے ڈرامے کو کچھ کچھ سمجھ کر ہلکا ہلکا احتجاج بلند کرنے لگتی ہیں تو نامکمل ڈرائیور بس گیئر میں ڈالتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ رینگنے لگتی ہے۔ کلینڈر ساتھ ساتھ بھاگتے بھاگتے بس کی باڈی پر زور زور سے ہاتھ مارتا جاتا ہے۔ چند فٹ دور جاکر بس رک جاتی ہے اور کلینڈر منہ پھاڑ پھاڑ کر نامعلوم سواریوں کو بلاتا رہتا ہے جبکہ نامکمل ڈرائیور اترتا ہے، اُس کی جگہ پیلے دانتوں والا ادھیڑ عمر مکمل ڈرائیور لے لیتا ہے۔

وہ بھی بس کی ریس دے کر انجن کو شور مچانے پر مجبور کرتا ہے۔ اتنے میں ایک خالی ویگن نمودار ہوتی ہے جو شہر جانے والی سواریوں کو ہارن دے کر اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ بس کے اندر بیٹھی سواریاں اس ویگن کو بہتر ذریعہ جانتے ہوئے اُس میں بیٹھنے کا ارادہ کرتی ہیں۔ ڈرائیور سواریوں کے ارادے کو بھانپتے ہوئے اور ویگن کو اپنا شریکہ (رقیب) سمجھتے ہوئے بس چلا دیتا ہے۔ کلینڈر جمپ لگاکر بس کے دروازے پر کھڑا ہوجاتا ہے اور مسلسل سواریوں کو آوازیں دیتا رہتا ہے۔

اب گاؤں کی ناپختہ سڑک پر ویگن اور بس ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ بس کی کھڑکیوں کے ٹوٹے شیشوں سے ٹھنڈی ہوا اندر آنے لگتی ہے مگر چندسو فٹ چلنے کے بعد ویگن نُکر پر اگے بڑے درخت کے نیچے پنکچر والے کھوکھے پر رک جاتی ہے۔ بس بھی اکیلے دوڑ لگانا قابلِ مذمت سمجھتی ہے اور جھٹکے سے بریک لگا دیتی ہے۔ کلینڈر نیچے اترتا ہے، بس آہستہ آہستہ بیک ہونا شروع ہوتی ہے، کلینڈر ساتھ ساتھ چلتا ہے اور سب وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے سٹارٹ لیا تھا۔

اس دوران بس کا انجن شور مچاتا رہتا ہے۔ کچھ سواریاں اگلی منزل پر پہنچنے کا ارادہ ترک کرکے یہیں اُترنے کو ہی منزل سمجھتی ہیں اور ایک آدھ سواری اسی انجن کے شور کو ہی سفر سمجھتے ہوئے سیٹ پر بیٹھی رہتی ہے۔ ہم اگر غور کریں تو ہماری جلتی بجھتی اور دھاڑتی اپوزیشن جماعتیں اسی بس کی مانند ہیں جو سٹارٹ ہیں، سواریوں کو بلاتی رہتی ہیں، کبھی آگے بڑھتی ہیں کبھی پیچھے مگر شور کے علاوہ کچھ نہیں کرتیں۔

(عوام) آئیے عوام کی مثال بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ہم نے گرمیوں کی دوپہر میں آندھی چلتے تو ضرور دیکھی ہوگی جس میں خاک اڑ رہی ہوتی ہے، سوکھے پتے سرمار رہے ہوتے ہیں، تنکے بغیرپر کے اڑتے ہیں، شاپنگ بیگ اور کاغذ دیواروں اور پتھروں سے ٹکرا ٹکرا کر گرتے ہیں اور سگریٹ کے بجھے ہوئے کالے ٹوٹے مٹی میں قلابازیاں کھاتے رہتے ہیں۔ ان سب بے جانوں کو گرمیوں کی دوپہر کی آندھی جاندار بناکر سزا دیتی رہتی ہے۔ جب آندھی رک جاتی ہے تو خاکروب آکر اپنے خنجرنما نوکیلے تنکوں والے جھاڑو سے انہیں اکٹھا کرکے آگ لگا دیتا ہے۔ اِن کا وجود ختم ہوجاتا ہے مگر دھرتی پر جلنے کا نشان باقی رہ جاتا ہے۔ شاید یہی عوام ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments