تمھارا ویلنٹائن


رومن ایمپائر جیسے جیسے سکڑتی جا رہی تھی ویسے ویسے بادشاہ کی اپنے گہرے سرخ رنگ کے پتھروں سے بنے محل کی خواب گاہ میں نیند کم ہوتی جا رہی تھی، بادشاہ اب رومن ایمپائر کی سرحدیں محفوظ بنانے کے لئے جوان خون کا ایک بہادر، چاک وچوبند، مستعد فوجی دستہ چاہتا تھا، جس کو ہم آسان الفاظ میں باڈر سیکورٹی فورس کہہ سکتے ہیں۔ وزیر کو یہ ٹاسک سونپا گیا اور معاونت کے لئے پولیس چیف کو کہا۔ ایک ماہ بعد مطلوبہ تعداد میں فوجی دستہ نہ بنا تو بادشاہ نے غصہ میں وزیر کو بلایا، وزیر نے جان کی امان پاتے ہوئے بتایا کے بادشاہ سلامت میں گلی گلی گھوما، قریہ قریہ چھان مارا، پہاڑوں، صحراؤں کے قبیلوں میں بھی گیا لیکن سب جوان ”بڈھی تھلے لگے جے“۔

بادشاہ نے وزیر کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور وزیر کی اس فارن پنجابی لینگویج کا مطلب پوچھا، وزیر نے جب آسان لفظوں میں ”رن مرید“ کہا تو بادشاہ کو دفعتاً اپنی چودہ بیویوں دو ہزار بیس کنیزوں کا خیال آگیا، بادشاہ نے ٹھنڈی سانس بھری اور وزیر سے نظریں چرائی، وزیر نے اپنی بات جاری رکھی، جناب، کوئی فوج میں آنے کوتیار نہیں ہے، صرف کچھ کنوارے جو ہر سال محبت میں دھوکا کھاتے ہیں، خودکشی کرنے کی غرض سے نکلے تھے ان کو پکڑ کر زبردستی فوج میں شامل کیا ہے۔

بادشاہ جو کہ پہلے ہی ”رن مرید“ کے طعنے پہ دل ہی دل میں تپ رہا تھا، ہاتھ کے اشارہ سے کاتب کو بلایا اور یہ حکم نامہ لکھوایا

” آج کے بعد رعایا میں کوئی شادی بیاہ، منگنی، نہیں کرے گا“۔

رعایا میں بادشاہ کے حُکم پہ کھلبلی مچ گئی، کچھ نوجوانوں نے رات کے اندھیرے میں بھیس بدل کے محل میں داخل ہو کے، کچھ نے جنگل کے پاس گھات لگا کے بادشاہ پہ حملہ کر کے قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی، جس کی بھنک چرچ کے اک پادری کو پڑ گئی۔ پادری نے نوجوانوں کو ایک مشورہ دیا جس کو سُن کے انہوں نے قتل کا منصوبہ موخر کر دیا اور پادری کے مشورہ کے مطابق خفیہ طور پہ نوجوان جوڑوں کو چرچ میں لایا جاتا وہاں اُنکی شادی کی رسومات خفیہ طریقے سے ادا کی جاتی اور اس بات کا عہد لیا جاتا کے بے شک ان کی گردن کٹ جائے وہ کبھی بھی ظالم رومن بادشاہ کلیدس دوئم کو پادری کا نام نہیں بتائیں گے۔

خفیہ طریقے سے شادیوں کا سلسلہ جاری تھا، پادری کے شادی رجسٹر میں اب تک ہزاروں جوڑے آپس میں قبول ایجاب کرتے ہوئے ایک ہی ٹائم میں سرخ پھول کو چومتے ہوئے اپنا نام لکھواتے جا رہے تھے۔ دسمبر کی یخ بستہ رات تھی پادری آج سات جوڑوں کو آپس میں ملانے کے بعد اپنے گرم بستر پہ سکون سے سو رہا تھا کہ اچانک شاہی دستے کے کچھ سپاہی دروازہ توڑ کے اندر داخل ہوئے اور پادری کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا، ایک ماہ تک پادری کو قید رکھا گیا، جیلر کی بیٹی جس نے پادری کا چرچہ سنا ہوا تھا، اس کو دیکھنے آئی اور اپنا دل ہار بیٹھی، پادری بھی سنہرے بالوں والی، نازک اندام کلّی کو دیکھ کے اس کی مسکراہٹ پہ اپنے دل کی دھڑکن کو بے ترتیب ہوتے محسوس کرتا تھا، فروری کا مہینہ جیسے جیسے گزرتا جا رہا تھا پادری کا پیار، حسِین دوشیزہ سے بڑھتا جا رہا تھا۔

جیل سے باہر لوگ پادری کی گرفتاری پہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے کچھ پادری کے حق میں تھے جب کہ دوسرا گروہ پادری کو بادشاہ کلیدس دوئم کے حکم کی خلاف ورزی پہ سخت سزا دینے کا ہامی تھا۔ وزیر نے بادشاہ کو سب واقعہ سے آگاہ کیا، بادشاہ سلامت جو کہ یونان کا علاقے میں شکست کی وجہ سے دلبرداشتہ تھا، اپنی شکست کا ذمہ دار پادری کے خفیہ مشن کو سمجھتا تھا، وزیر کو صرف دو لفظوں میں حکم دیا ”ٹنگ دیو“۔

وزیر نے بادشاہ کہ منہ سے فارن پنجابی لینگویج سنی، دل میں مسکرایا، ادب سے ہاتھ باندھے، بادشاہ کا اقبال بلند ہو کا نعرہ لگایا، الٹے قدموں کمرے سے باہر آیا اور شاہی ہرکارہ دوڑا کر جیلر کو پیغام پہنچایا ”

اس سازشی پادری کو کل صبح سورج کی پہلی کرن زمین پہ پڑنے سے پہلے سولی پہ لٹکا دیا جائے ”۔

پادری جو کہ رات خواب میں خون کی ندی بہتے دیکھ کر خلاف معمول جلدی اٹھ گیا تھا اور بستر پہ بیٹھ کے زیر لب مناجات کر رہا تھا، اچانک جیلر اور داروغہ کو دیکھ کر گھبرا گیا، سپاہیوں نے پادری کو گھسیٹ کر بستر سے اتارا اور کھینچتے ہوئے پھانسی گھاٹ کی طرف لے گئے، پادری کو تختہ دار پہ کھڑا کیا گیا اور گلے میں پھندا ڈال کے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو پادری نے قلم اور قرطاس مانگا اور آخری خواہش میں جیلر کی بیٹی سے محبت کا اقرار نامہ لکھا، داروغہ نے رسی کھینچی اور پادی کا جسم ہوا میں تڑپنے لگ گیا۔ جیلر نے پادری کی وصیت کھول کے دیکھی، تحریر پڑھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا، اس نے ایک نظر پادری کی جھولتی ہوئی لاش کو دیکھا اور دوسری نظر تحریر کے آخر پہ دُھندلے سے دستخط دیکھے جس میں لکھا تھا۔

” تمھارا ویلنٹائن“

جب ہم یہ کہتے ہیں، دراصل ہم اپنی معاشرتی اقدار کو تختہ دار پہ کھڑا کر دیتے ہیں، یہ وہ وقت ہوتا جب ہم دو گروہوں میں بٹ جاتے، ایک طبقہ کو پھانسی پہ جھولتی ہوئی لاش چاہیے ہوتی دوسرا چاہتا رسی ٹوٹ جائے اور کسی بھی طرع ہماری معاشرتی اقدار بچ جائیں، اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہوتا کہ ہم کس گروہ کہ ساتھ اپنے دل کی آواز ملائیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگ پادری ویلنٹائن کی یاد میں ”ویلنٹائن ڈے“ یعنی کے محبت کا عالمی دن منائیں گے۔ کچھ لوگ سرخ کپڑے پہنیں گے، دل کے نشان بنائیں گے، سرخ پھول اک دوسرے کو دیے جائیں گے، تحفہ تحائف کا تبادلہ ہو گا، کچھ لوگ صرف آنکھوں سے ہی محبت کا اظہار کریں گے، دنیا کے ہر خطہ میں اس دن کو منانے والے اپنے اپنے انداز اختیار کریں گے۔

ہمیں ویلنٹائن ڈے کو سمجھنے سے پہلے اپنی سوچ کو آج کی گلوبل ویلج کے زاویہ سے دیکھنا ہو گا۔ دنیا کے سُکڑنے کے ساتھ ہی دنیا بھر کے تہوار بھی اب سُکڑ رہے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں پوری دنیا اجتماعی خوشیاں و غمیاں منانے لگ جائے گی۔ اب ہم کبوتر کی طرع آنکھیں بند کر کہ یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ میں نہیں ان تہواروں میں شریک تو اس کا مطلب باقی دنیا بھی میرا ساتھ دے گی۔ آپ جتنا مرضی قدغن لگا لیں، آپ آنے والے وقت کے آگے بند نہیں باندھ سکتے، ہاں آپ اُس وقت کو اپنی مرضی سے ڈھال سکتے ہیں۔

ہم نے اس کو صرف لبرل طبقے کا دن بنا دیا ہے ہم سمجھتے ہیں کے مذہب سے جڑے افراد کا دل نہیں ہوتا، وہ محبت سے عاری ہوتے ہیں، ہماری اس تھیوری نے ہمارے معاشرے میں ایک نہ ختم ہونے والی تفریق پیدا کر دی ہے۔

اب شوشل میڈیا کا زمانہ ہے، ہم نے فیس بُک، ٹویٹر، واٹس ایپ، انسٹاگرام، سنیپ چیٹ، سکائپ، لنکڈ اِن جیسے تیز ترین برقی تہواروں کو بھی قبول کر لیا ہے۔

ہم والد کا عالمی دن، ماؤں کا عالمی دن، بچوں کا عالمی دن، معذور افراد کا عالمی دن، نابینا افراد کا عالمی دن، مزدوروں کا عالمی دن، دوستوں کا عالمی دن، استاتذہ کا عالمی دن سب کو آہستہ آہستہ اپنے معاشرہ میں قبول کرتے جا رہے ہیں لیکن ”محبت کا عالمی دن“ قبول کرنے سے انکاری ہیں۔

ہم نفرتوں میں اتنا بٹ چکے ہیں کہ ہم پیار کے دو بول سننے کو تیار نہیں ہیں، کسی کے لہجے میں مٹھاس کو ہم دھوکا سمجھتے ہیں، سچ کڑوا ہوتا ہے کہ نعرے لگاتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر انسان کا ایک اپنا سچ ہوتا ہے، ہم اصل سچ صرف اس کو سمجھتے ہیں جس کی کرواہٹ کسی کی زندگی کو جہنم بنا دے، اگر ہم سچائی میں محبت کا عنصر شامل کریں گے تو ہمیں اس دن محسوس ہو گا ہم اپنے سچ کی مٹھاس سے لوگوں کی زندگیوں کو اس دنیا میں بھی جنت بنا سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر ہمارے ہر رشتہ میں محبت غالب ہے، ماں باپ کی محبت اپنی اولاد سے اور اولاد کی ماں باپ سے، بہن بھائیوں کی محبت، دوستوں کی محبت، میاں بیوی کی محبت۔ اگر ہم چاہیں ہمارے ہر طرف محبت ہو سکتی پھر ہمیں کسی عالمی دن کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔

میرے خیال میں ہم کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں، ہم پادری ویلنٹائن کے دیے ہوئے اصل پیغام کو نہیں سمجھ پاتے، ہم شش و پنج میں پڑ جاتے ہیں، اس پادری نے بھی اپنے مذہب کے مطابق ظالم بادشاہ کے ڈر سے شادیوں کا رواج عام کیا تھا، پادری نے کلیسا کو ان لوگوں کے لئے کھولا تھا جو اپنے مذہب کے مطابق نکاح کرنا چاہتے تھے، ہونا تو یہ چاہیے تھا ہم اگر اس تہوار کو اپنے معاشرہ میں اجازت دینا چاہتے تو ہمیں اس دن یعنی کے چودہ فروری کو زیادہ سے زیادہ نکاح کروانے چاہیے تھے، ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں، ہم اس دن میں اگر کوئی شَرّ کا پہلو تھا اُس کو نکاح کر کے خَیرّ کے پہلو میں بھی ڈال سکتے تھے۔ لیکن بدفسمتی سے ہم نے ویلنٹائن کے اصل پیغام کو سمجھا نہیں، اپنی آنکھیں بند رکھی رہے اب جب شَرّ کا یہ پہلو ہمارے معاشرہ کے دروازہ پہ دستک دے رہا تو ہم اسلامی اور غیر اسلامی تہواروں کے نعرے لگاتے ہوئے آپس میں ہی دست وگریبان ہو گے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments