عوام کے مزاحمتی تحریک کے اشاریئے


گھر میں ابا جی کی ڈکیٹرشپ تھی تو دیواروں پر لکھ کر مزاحمت کا اظہار کیا۔ سکول گئے تو بچوں پر تشدد کے خلاف احتجاج کیا یعنی یہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے۔ کئی کہانیاں، کئی قصے۔ بچپن بھی جدوجہد میں گزرا۔ نئی امید کے ساتھ جدوجہد پھر جدوجہد، زمانہ بیت گیا مگر وہ نیا سویرا نہیں آیا جس میں شانتی ہی شانتی کی خواہش لئے دربدر ہوئے۔ غربت، بے روزگاری، بیماری اور جہالت سے نجات کیا ملتی۔ انقلاب کرتے کرتے غربت، بے روزگاری، بیماری اور جہالت کی سونامی میں آپھنسے ہیں۔

بے یقینی، مایوسی اور بقاکا ڈر مسلط ہے۔ خطہ غربت کے اشاریئے تیزی سے نیچے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ صحت خریدنے کی سکت نہیں رہی ہے۔ شوگر کی گولیاں جن کی قیمت کل تک 200 روپے تھی وہ 600 میں پیکٹ مل رہا ہے۔ موت کا فرشتہ ہروقت تاک میں رہتا ہے۔ انتقال پروملال، فلاں دوست اب ہم میں نہیں رہے ہیں۔ خلیل صاحب خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔ صدیق گوندل اور ندیم صاحب موت وحیات کی کشمش میں ہیں۔ پیٹ میں پانی بھر گیا ہے۔ مریض سے پوچھا جائے کہ ہسپتال والے کیا کہتے ہیں تو مریض علاج کی بجائے یہ کہنے پر مجبور ہے۔

کہتے ہیں دولاکھ جمع کرائیں۔ الشفا ہسپتال، ملٹری ہسپتال بہت مہنگے ہیں بھائی کدھر جائیں۔ پرائیوٹ کلینکس پر جائیں تو وہاں علاج کی بجائے میڈیسن کمپنیوں کی جعلی اور غیرمعیاری دوائیاں سیل کی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر کمپنیوں کے سیل ایجنٹ بنے ہوئے ہیں۔ مرنا تو ہے۔ سب نے مرنا ہے۔ آج نہیں تو کل۔ مریض مرض کے علاج اور صحت کی امید سے مایوس ہو کر موت کے انتظار کو ہی قسمت کا لکھا کہتا ہے۔

پرانے دوست ممتاز آروز واٹس ایپ گروپ تشکیل دے کر احباب کو آمادہ جدوجہد کر رہے ہیں۔ ممتاز آرزو نے بھی یہی رونا رویا ہے کہ سونامی نے سب کچھ تباہ وبرباد کردیا ہے۔ ہمیں خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ گروپ میں وائس میسج تھے۔ جن میں عوام کی تکالیف، دکھ، پریشانیوں، محرومیوں کا ذکر ہے۔ کیا کریں۔ جدوجہد کی جائے۔ اتحاد بنایا جائے۔ بائیں بازو کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سیاسی کارکنان کا جلد اجلاس بلایا جائے گا تاکہ کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جا سکے۔

چکوال میں ملک عدالت اعوان نے عوامی کنونشن بلا کر عام آدمی کی مزاحمت استوار کرنے کے لئے مشاورت کی اور نئی سیاسی فورس بنانے کا اعادہ کیا ہے۔ راقم بھی عوامی کنونشن میں شریک ہوا اور عوام کے غم وغصے کوقریب سے دیکھا۔ مقررین کی نقید کاہدف حکمرانوں کی بجائے حکمران طبقہ اشرافیہ رہا اور بھر پور غم وغصہ کا اظہار کیا گیا۔ عام آدمی کی یہ تحریک حکومت کے خلاف نہیں ہے بلکہ موجودہ سیاسی قیادت سے بیزاری کا برملا اظہار ہے۔

یہ پریکٹس بہت ہوئی ہے۔ خاص کرلیفٹ میں تو کچھ زیادہ ہوئی ہے۔ کئی گروپ بن چکے ہیں۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ فنڈز کی بندر بانٹ کی بنیاد پر اختلاف ہوتا ہے اور نیا گروپ بن جاتا ہے۔ مارکس ازم میں کئی فرقے ہیں ہرفرقہ خود کو درست سمجھتا ہے اور دوسرے کوغلط کہتا ہے۔

ممتاز آرزو صاحب! یہ درست ہے کہ کچھ کیا جائے۔ جدوجہد کی جائے مگر کیا یہی جدوجہد ہے۔ کیا یہی کچھ کرنا ہے کہ عوام کے دکھ درد بیچے جائیں۔ عوام کی محرمیوں اور تکالیف پر ہی سیاست کی جائے۔ اب یہ منجن نہ بیچا جائے۔ کچھ کرنا ہے تو ان لوگوں کے خلاف کریں جو تباہ و بربادی کا سبب ہیں۔ انہیں بے نقاب کریں۔ مزاحمتی تحریک کی بنیاد رکھی جائے۔

اس امر میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ حالات متقاضی ہیں کہ عوامی حقوق کی تحریک شروع کی جائے اور مزاحمت کو منظم کیا جائے۔ خاموشی بھی جرم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments