مولانا فضل الرحمن کے خلاف مقدمہ بنتا ہے، درج کیا جانا چاہیے


مولانا فضل الرحمن کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرنے اور تحقیقات کے حوالے سے مطالبہ حکومت کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ جواب میں دانشور اور تجزیہ کار عمران خان کے دھرنے کی دلیل دے رہے ہیں کہ عمران خان نے دھرنا بھی دیا اور پی ٹی وی اور پارلیمنٹ کی عمارت پر حملہ بھی کیا تھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جرات اظہار ہے اور نہ جرات تحقیق ہے۔ فہم و ادراک کا فقدان بدرجہ اتم ہے۔ بات کچھ کی جارہی ہے اور جواب کچھ دیے جار رہے ہیں۔

یہ درست ہے کہ دھرنے کے دنوں میں عمران اور طاہر القادری بھی مولانا فضل الرحمن کے راستے پر ہی کھڑے تھے۔ مگر اس وقت کے حکمرانوں نے یہ بات نہیں اٹھائی تھی۔ نواز شریف دباؤ اور مصلحت کا شکار رہے حالانکہ نواز شریف کو جرات مندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی مگر نواز شریف میں جمہوریت اور آئین پسندی کا خمیر ہی نہیں ہے تو اس نے وہی کیا اور اب کر رہے ہیں جو نواز شریف کا خمیر ہے۔ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے ہیں۔ سیاست عہد کی ہوتی ہے۔ نواز شریف بطور وزیراعظم یہ جرات نہیں کرسکے تھے کہ عمران خان اور طاہر القادری کی پشت پناہی کرنے والوں کو بے نقاب کرتے۔ عمران خان اگر یہ جرات کررہے ہیں تو سیاسی وجمہوری قوتوں کو مصلحت کا شکار ہونے کی بجائے عمران خان اور حکومت کے ہم آواز ہونے کی ضرورت ہے۔

عمران خان اور حکومت کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو حکومت کے خاتمے کی یقین دہانی پر بات کی جا رہی ہے کہ حکومت گرانے کی یقین دہانی مولانا فضل الرحمن کو کس نے کرائی اور مولانا فضل الرحمن نے یہ غیرآئینی اور غیر قانونی، غیر جمہوری، غیر پارلیمانی راستہ اختیار کیوں کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ انہیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ کچھ دنوں میں عمران خان سے استعفا لے لیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن نے پرویز الہی کا نام بھی لیا ہے کہ انہیں پرویز الہی کے ذریعے یقین دہانیاں کرائی گئیں تھیں۔

آئین، جمہوریت اوراصول کی بات کی جائے تو مولانا فضل الرحمن نے جمہوریت، پارلمان، آئین اور عوام سے غداری کی ہے۔ جس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ مولانافضل الرحمن پر مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن نے عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ عوام کے سامنے آئین اور جمہوریت، پارلیمان کی بالا دستی کا راگ الاپتے رہے ہیں۔ عوام مولانا فضل الرحمن کی جرات و بہادری سے آئین و جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے پر داد تحسین دیتے رہے ہیں، راقم نے بھی مولانا فضل الرحمن کی جانب سے بے باک پوزیشن لینے پر مضامین لکھے اور تحسین کی کہ مولانا نے سیاست کی ہے اور باقیوں نے کاروبار کیا ہے۔ یعنی راقم کا تجزیہ غلط ثابت ہوا اور باقیوں نے اس وقت مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کھڑے نہ ہوکر درست عمل کیا اور کسی غیرجمہوری اور غیرآئینی اقدام کی جانب جانے کی بجائے اپنا راستہ بدل لیا۔

مولانا فضل الرحمن کے خلاف مقدمہ عہد کی ضرورت ہے۔ یہ روایت قائم کی جائے کہ کوئی سیاست دان اقتدار کی خاطر غیرآئینی اور غیر جمہوری راستہ اختیار نہ کرے۔ وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے جرات کا مظاہرہ کرتے اس معاملے پر بات ہے۔ جس کی تائید وزیراعظم نے بھی کردی ہے۔

اب یہ قرض جمہوری اور آئین پسند سیاست دانوں پر ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف مقدمہ اور تحقیقات کے لئے حکومتی موقف کا ساتھ دیں اور یہ غیر آئینی اور غیر جمہوری چور راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردیں۔ اگر آج سیاست دانوں، جمہوری قوتوں نے ہوش مندی کا مظاہرہ نہ کیا تو پھر نواز شریف کا انجام سب کے سامنے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments