” شاعرِ پاکستان“ کا خطاب پانے والے صہبا اختر


30 ستمبر 1931 کو سری نگر میں پیدا ہونے والے اختر علی رحمت نے زمانے کی بے حد سختیاں برداشت کیں اور بہت ہی کٹھن سرد وگرم دیکھے تو کہیں جا کر صہبا بنے۔ وہ کس پائے کے انسان تھے؟ ڈاکٹر ابو الخیر کشفی کہتے ہیں : ”یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ساری زندگی کبھی کسی کی غیبت نہیں کی“۔ اِن کے والد رحمت علی رحمت امرتسر کے رہنے والے تھے۔ یہ مانے ہوئے شاعر ، تھیٹر کے ڈرامہ نگار ، مکالمہ نگار اور ہدایت کار تھے۔ یہ آغا حشر کاشمیری کے ہم عصروں میں سے ہیں۔ صہبا اختر نے اسکول کے زمانے ہی سے شعر کہنا شروع کر دیے۔ اِنہوں نے اپنی پہلی نظم ’صبح‘ یہیں لکھی۔ وہ ایک بہت اچھے مقرر بھی تھے۔ اسکول کے زمانے میں اسکاﺅٹنگ میں بھی فعال رہے۔ گویا یہ شروع ہی سے ذہنی اور جسمانی طور پر مضبوط اور ’قد کاٹھ‘ والے تھے۔ بریلی سے ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کی۔ پھر مزید تعلیم کے لئے علیگڑھ کالج چلے گئے۔ کالج کے بہترین طالب علموں کی فہرست میں شامل تھے۔ یہاں بھی انہوں نے شاعری اور فنِ تقریر کو جاری رکھا اور تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔ ’ آزادی’ کے موضوع پر نظمیں کہتے اور اس قدر پُر اثر تقاریر کرتے تھے کہ تحریکِ پاکستان کے لیڈر وں نے جب سندھ میں تحریکِ پاکستان کی آگاہی کے لئے وفد بھیجا تو اُس میں نوجوان صہبا بھی شامل تھے۔ وفد کا مقصد مسلم لیگ کے اغراض و مقاصد سے سندھ کے عوام کو آگاہ کرنا اور آزادی کی کوششیں تیز کرنا تھا۔ وفد سندھ مدرسہ اسلام کے ہاسٹل میں ٹھہرا۔ کراچی میں قیام کے دوران ان کو قائدِ اعظمؒ سے ملاقات کا بھی شرف حاصل ہوا۔ علیگڑھ کالج سے صرف ایف ایس سی ہی کیا تھا کہ مالی مصائب نے گھیر لیا۔ پاکستان بننے کے بعد یہ اپنی والدہ اور گھر والوں کے ساتھ کراچی ہجرت کر گئے۔ یہاں مختلف ملازمتیں کیں جیسے اندرونِ سندھ لاکھڑا کے مقام پر تیل کی تلاش کا سخت مشقت والا کام۔ پھر محکمہ انکم ٹیکس میں کلرکی۔ اس کے ساتھ اسلامیہ کالج کراچی میں داخلہ بھی لیا لیکن ادھوری تعلم مکمل کرنے کی آرزو پوری نہ ہو سکی۔

ابھی اختر علی کے صہبا بننے میں خاصا وقت تھا۔ اخبار اور رسائل اُن کا کلام شائع نہیں کرتے تھے۔ ریڈیو پاکستان میں جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مشاعروں میں از خود چلے جاتے لیکن اکثر سنانے کا موقع ہی نہیں ملتا۔

اختر انصاری اکبر آبادی حیدرآباد سندھ سے رسالہ ’ نئی قدریں’ شائع کرتے تھے۔ صہبا سے دوستانہ ہوا۔ اِن کی وساطت سے حفیظ ہوشیارپوری ( 1912 سے 1973) سے ملاقات ہوئی۔ یہ ریڈیو پاکستان میں ڈائریکٹر درجے کے افسر تھے اورخود بھی غزل کے بہت اچھے شاعر تھے۔ واضح ہو کہ ناصر کاظمی بھی حفیظ ہوشیارپوری کے شاگرد تھے۔ جلد ہی حفیظ صاحب نے اختر علی کو شہر کے پنڈتوں سے ملوایا۔ اِن کے ذریعے اختر علی کے گمنامی کے بادل چھٹنے لگے۔ حفیظ ہوشیارپوری کئی محافل میں اختر علی کو خود لے کر گئے اور دبنگ تعارف کروایا۔ بہت جلد اختر علی چھوٹے بڑے مشاعروں میں مدعو ہونے لگے۔ جہاں اور جس مشاعرے میں جاتے مشاعرہ لوٹ لیتے۔ سننے والے ایک ایک شعر کو کئی کئی مرتبہ سناکرتے۔ اب اختر علی کی پہچان صہبا مستند ہو گئی۔ حفیظ صاحب کے ایک دوست شیخ اعجاز احمد محکمہ خوراک میں جوائنٹ سیکریٹری تھے اِن کو کہہ کرصہبا کو متعلقہ محکمہ میں فوڈ انسپکٹر لگوا دیا۔ اب صہبا اختر کی کلرکی سے جان کیا چھوٹی، زندگی ہی سنور گئی۔

اِس بات کو صہبا صاحب اکثر دہراتے تھے کہ اللہ بہت بڑا ہے۔ کہاں وہ وقت تھا کہ اس شہر میں مجھے آدھی روٹی نصیب نہیں تھی اور کہاں اللہ تعالیٰ نے یہ عزت بخشی کہ شہر کے رزق کی تقسیم میرے ہاتھ سے ہو رہی ہے۔ پوری ملازمت کے دوران میری کوشش اور خواہش رہی کہ اس شہر میں کوئی آدھی روٹی کو بھی نہ ترسے۔ صہبا اختر نے اپنی ملازمت پوری دیانت داری سے کی۔ شاعری اور ملازمت میں مناسب توازن قائم رکھا۔ جب انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ وقت کی کمی اور خرابی صحت کے باعث اب یہ توازن قائم نہیں رکھا جا سکتا تو 1987 میں ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لی۔

ایک ریڈیو انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا : ” ایک وہ وقت تھا جب کوئی اخبار اور رسالہ مجھے شائع نہیں کرتا تھا۔ ریڈیو سے میں اپنی نظمیں پڑھ سکوں یہ بھی خواب ہی تھا۔ حفیظ ہوشیارپوری صاحب کی مہربانی میرے لئے کایا پلٹ ثابت ہوئی۔ جلد پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ وہی ریڈیو کے اجارہ دار میرے طویل غنایئے، منظوم ڈرامے، غزلیں، گیت، حمد و نعت اور سلام ، سب کچھ اسٹاف آرٹسٹ کے طور پر نشر کرنے پر مجبور تھے“۔

1960  کی دہائی صہبا اختر کے لئے خوش بختی کا پیغام لائی۔ اُن کی شمولیت ہی کامیاب مشاعرے کی ضمانت ہوتی۔ اسی لئے ان کی موجودگی مشاعروں کی ضرورت قرار دے دی گئی۔ تمام چھوٹے بڑے اخبار و رسائل اِن کے کلام کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہی رہتے۔ کچھ ہی عرصہ بعد فخر ماتری نے روزنامہ ’ حریت’ نکالا تو انہوں نے صہبا اختر سے کہا کہ ہر ہفتہ ایک نظم ’ حریت’ کے لئے لکھیں۔ روزنامہ حریت کے بعد روزنامہ مشرق میں بھی نظم اور قطعے لکھنے لگے۔

ریڈیو پاکستان کراچی اُن کے لکھے ہوئے قومی نغمات بار بار نشر کرتا۔ 1964 میں کراچی سے پاکستان ٹیلی وژن کی نشریات شروع ہوئیں تو صہبا اختر کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ انہوں نے کئی ایک گیت لکھے جو مختلف گلوکاروں کی آوازوں میں نشر ہوئے۔

ریڈیو پاکستان کراچی کی موسیقار جوڑی لال محمد اور بلند اقبال المعروف لال محمد اقبال کراچی میں بننے والی فلموں کی موسیقی دیا کرتے تھے۔ یہ صہبا صاحب کو فلموں میں گیت نگار کی حیثیت سے لے گئے۔

 یہ 1965کے اوئل کی بات ہوگی جب میں اپنے والد صاحب کے ساتھ ایک مشاعرے میں ائرپورٹ کلب کراچی گیا۔ یہیں پر صہبا اختر کو پہلی مرتبہ مشاعرہ میں نظم پڑھتے دیکھا اور سُنا۔ پھر اِن کے فلمی گیت ریڈیو پاکستان سے بہت ذوق و شوق سے سنے۔ پاکستان ٹیلی وژن کراچی کی نشریات میں بھی ان کے لکھے ہوئے گیت اور قومی نغمات نشر ہونے لگے۔ اُس زمانے میں ٹیلی وژن سے مشاعرے بھی نشر ہو تے تھے۔ یہیں میں نے اور میرے ساتھ پورے ملک کے ناظرین نے صہبا اختر کا نظم پڑھنے کا اپنا ایک علیحدہ گھن گرج والا انداز دیکھا جو بہت جلد اُن کی پہچان بن گیا۔

وقت کا پہیہ چلتا رہا اور قسمت مجھے 1980 میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرام میں لے آئی۔ مجھے موسیقی سے بے حد شغف ہے اور خوش قسمتی سے شروع ہی میں موسیقی کے پروگرام کرنے کو ملے۔ ایک مرتبہ میرے پروگرام ”اُمنگ“ کے لئے موسیقار کریم شہاب الدین نے گلوکار محمد افراہیم کے لئے دھنیں بنانا تھیں۔ طے یہ ہوا کہ دھنوں پر بول صہبا اختر سے لکھوائے جائیں۔ لہٰذا میں اور کریم بھائی ان سے گیت لکھوانے کورنگی روانہ ہوئے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم اُن کے گھر پر تھے۔ یوں پہلی مرتبہ میری صہبا اختر صاحب سے باقاعدہ ملاقات ہوئی۔ ہم کو ایک بیٹھک میں بٹھایا گیا۔ اِن کو میری اور کریم بھائی کی آمد کا معلوم تھا کہ دھن پر گیت لکھوانے ہیں۔ رسمی بات چیت کے بعد میری جانب دیکھ کر کریم بھائی سے کہا کہ طبیعت تو یہ چاہتی ہے کہ تازہ ہوا میں بیٹھ کر لکھا جائے لیکن …. یہ خاکسار فوراَ سمجھ گیا۔ میں نے کہا کہ چلئے باہر بیٹھتے ہیں۔ یوں وہ ہم دونوں کو لئے باہر آئے۔ عام طور پر کریم بھائی کی مزدا 1500 کار میں ہارمونیم ہو تا تھا۔ آج چونکہ اُن کا معاون محسن مرزا موجود نہیں تھا لہٰذا میں نے کہا کہ لائیے میں ہارمونیم لے آﺅں۔ جواب میں وہ مسکرائے اور کہا کہ یہاں اس کی ضرورت ہی نہیں۔ گھر کے باہر سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر آرام سے ہم تینوں بیٹھ گئے۔ کریم بھائی نے جیب سے ماچس کی ڈبیہ نکالی اور اِس پر ہاتھ کی انگلیوں سے ردھم دیتے ہوئے منہ سے لا ر ا لا را اور کچھ ڈمی بول کہہ کر دھن سمجھائی۔ اِس دوران صہبا صاحب خاموشی سے سنتے رہے۔ اس کے بعد ایک آدھ سوال کیا جیسے یہ کہ بول کس کیفیت کو ظاہر کریں! انتظار، پچھتاوا وغیرہ۔ پھر اپنے بیٹے عظیم سے کاغذ قلم منگوایا۔ بعد میں یہی عظیم انجینیئر بن کر کے ڈی اے میں افسر بھی بنا۔ جب کاغذ ان کے ہاتھ میں آیا تو قلم اُس پر تیزی سے دوڑنے لگا۔ ایک استھائی اور چار انترے لکھ ڈالے۔ حالاں کہ عام طور پر میرے پروگرام کے لئے گیتوں کے دو ہی انترے ہوا کرتے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بغیر وقفے کے وہیں بیٹھے بیٹھے مختلف کیفیات پر مبنی تین گیت لکھ ڈالے۔ تینوں چار چار انتروں والے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اِن میں سے ایک گیت کے لئے خود ہی تجویز کیا کہ چونکہ یہ اداسی کی کیفیت کا گیت ہے چنانچہ گیت کے شروع میں اداسی کا عکاس ایک دوہا بھی ہونا چاہیے۔ اس کے بعد چائے آئی جو ہم نے وہیں بیٹھے مزے لے لے کر پی !

خاصا خوشگوار ماحول تھا میں نے اُن سے کہا : ” ٹی وی مشاعروں میں آپ کی گھن گرج دیدنی ہوتی ہے۔ میں تو اپنی گفتگو کے الفاظ بھی مشق کر کے آیا تھا کہ کہیں….“۔

 وہ اپنی مخصوص ادا سے مسکرائے اور کہا کہ وہ کیفیت نظم وغیرہ سناتے ہوئے ہی ہوتی ہے۔

 پی ٹی وی اور کریم بھائی کے لئے یہ کئی ایک پروگراموں میں لکھ چکے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کا مزاج سمجھتے تھے۔ اِس پوری نشست میں محض کام کی بات ہوئی۔ کام کیا۔ چائے پی اور ہم اُٹھ کھڑے ہوئے۔ چلتے چلتے بیساختہ مجھے کہنا ہی پڑا : ” آپ کی شخصیت بارعب ضرور ہے لیکن آج آپ سے مل کر یہ تاثر جاتا رہا کہ صہبا اختر تو ایک ہیڈ ماسٹر کی طرح کے کڑک انسان ہیں “۔ وہ اس جملے سے بہت محظوظ ہوئے۔

اِس واقعہ کے کئی ماہ بعد میں ٹی وی پروڈیوسر تاجدار عادل کے کمرے میں کسی کام سے آیا تو صہبا صاحب کو بیٹھے ہوئے پایا۔ میں پُر جوش طور پر اُن سے ہاتھ ملانے کو آگے بڑھا تو انہوں نے میرا نام لے کر مجھے پکارا۔ میں حیران رہ گیا۔ میری تو اُن سے ایک ہی ملاقات ہوئی تھی۔ ماشاءاللہ کیا حافظہ پایا تھا ! تاجدار عادل بھی ادب اور شاعری کے میدان کے آدمی تھے۔ اِن دونوں کی گفتگو سننے کے لئے میں بھی ان کی اجازت سے وہاں بیٹھ گیا۔ صہبا صاحب ماضی کے اوراق، ریڈیو پروگرام، ادبی پرچے، فلمیں اور اپنی لکھی ہوئی نظموں کا دلچسپ ذکر کر رہے تھے۔ کاش کہ اُس وقت میرے پاس اُن لمحوں کو قید کرنے کی کوئی صورت ہوتی تو میں یہ کام ہر قیمت پر کرتا۔

صہبا اختر نے حمد، نعت، نظم، قطعات اور رباعیات سب اصنافِ سخن پر طبع آزمائی کی۔ وہ شاعر تو اچھے تھے ہی وطن کی محبت اُن کی پہچان اور شناخت بن گئی۔ اُن کی وطن دوست نظموں کو بہتوں نے وقتی اُبال کہہ کر رد کیا لیکن صہبا وطن سے محبت کا کام کرتے رہے۔ ان کی اس لگن اور جذبے کو دیکھتے ہوئے ایسے تمام لوگ بھی صہبا کے وطن کے لئے خلوص اور عقیدت دیکھ کر اُن کو ” شاعرِ پاکستان “ کے خطاب کا حقدار ماننے لگے۔

ویسے تو صہبا صاحب کا نام شاعری کی ہر ایک صنف میں معتبر ہے البتہ انہوں نے اپنی شاعری کا آغاز روایتی غزل سے کیا۔ شائستگی، تہذیب، نفاست اور الفاظ کا چناﺅ اِن کی غزل میں جا بجا دکھائی دیتا ہے۔ اِن کا کچھ نمونہ کلام:

غزل:

                بجلیاں چمکیں بہت، میں ابر تھا چھایا رہا

                عہدِ حاضر پر، میرے افکار کا سایہ رہا

                 وہ خرابا ہوں، کہ جس پہ روشنی رقصاں رہی

                وہ تہی دامن ہوں جس کا فکر سرمایہ رہا

                کیا حر یفانہ گزاری ہے حیاتِ نغمہ کار

                میں زمانے کا، زمانہ میرا ٹھکرایا رہا

                ایک شب، اِک غیرتِ خورشید سے ملنے کے بعد

                اک اجالا مدتوں آنکھوں میں لہراتا رہا

                تلخیوں نے زیست کی، کیا کیا نہ سمجھایا مگر

                عمر بھر صہبا تیری آنکھوں کا بہکایا رہا

رباعی:

                انفاس میں کلیوں کی مہک لے آیا

                احساس میں شیشوں کی کھنک لے آیا

                کیا باتیں ہوئیں اُن سے مجھے یاد نہیں

                جو پھول گرے اُن کی مہک لے آیا

تخیلِ نعت:

                صبحِ دم جب بزمِ گل میں چہچہاتے ہیں طیور

                پوچھئے جب جھلملاتا ہے فضائے شب میں نور

                روشنی جب پردہ ظلمت سے کرتی ہے ظہور

                تب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کیا ہوں گے حضور

فلمی گیت نگاری:

صہبا اختر نے گو کہ فلموں میں کوئی زیادہ نہیں لکھا لیکن یہ خوش قسمت گیت نگار ہیں کہ جو بھی لکھا اکثر سپر ہٹ ہوا۔ ذیل میں اُن کے مقبول ترین گیت ہیں:

ہمارے ہاں اپنے ملک کی ہر ایک چیز کو کمتر کہنا فیشن بنتا جا رہا ہے۔ یہ ناقِد پاکستانی فلموں کا اُٹھتے بیٹھتے بھارتی فلموں سے مقابلہ ہی کرتے رہتے ہیں۔ ایک مقبول دلیل دی جاتی ہے کہ بھارتی فلمی صنعت کے نامور گیت نگار ساحر لدھیانوی کے گیتوں کو بھارت میں ادبی درجہ دیا جاتا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ لیکن یہ آدھا سچ ہے….پاکستانی فلمی شعراء تنویر نقوی، قتیل شفائی، کلیم عثمانی، صہبا اختر بھی کسی طرح کم نہیں۔ آپ ادب کے کسی بھی ترازو سے تولئے صہبا ، قتیل اور تنویر نقوی، کلیم عثمانی معیار پر پورا اتریں گے۔

صہبا کے غیر فلمی گیتوں کی دو مثالیں درجِ ذیل ہیں:

                صہبا اختر کی یہ چار عدد تصانیف مطبوعہ ہیں :

                 صہبا صاحب کو ملنے والے اعزازات کی تفصیل:

صہبا اختر بیشک پاکستانی ادب کے معماروں کی صفِ اول میں شامل ہیں۔ انہوں نے کبھی اپنے اصولوںپر سمجھوتہ نہیں کیا۔ اُن کی حب الوطنی کسی بھی قسم کی سیاسی گروہ بندی سے پاک ہے۔ وہ زندگی کی آخری سانسوں تک پاکستانیت کے علمبردار رہے۔ اِس کی دلیل پیٹریاٹ پاکستانیز دبئی کا 1995والا مشاعرہ ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی یہاں کے مشاعروں میں شرےک ہوا کرتے تھے۔ اِن کو یہ’ خالص پاکستانی مشاعرہ’ کہا کرتے تھے۔ صہبا صاحب کی طبیعت خاصی خراب تھی۔ ڈاکٹروں نے سفر کرنے کا منع کیا تھا۔ وہ وہیل چیئر پر بیٹھ کر مشاعرے میں آئے کیوں کہ یہ مشاعرہ پاکستان کے نام پر ہو رہا تھا۔ اس جذبے سے متاثر ہو کر پروگرام انتظامیہ نے اِن کو’ شاعرِ پاکستان’ کا خطاب دیا۔

صہبا اختر نے 19 فروری 1996 کو انتقال کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments