ٹونی عثمان کا نیا ڈرامہ ناروے میں پاکستانی تارکین وطن کی تاریخ کو دستاویزی شکل دے گا


’کافی کی چسکی‘ پاکستانی نارویجین ہدایت کار ٹونی عثمان کا نیا اسٹیج ڈرامہ ہے جو 27فروری سے 2 مارچ تک اوسلو میں اسٹیج کیا جائے گا۔ آج کل اس ڈرامہ کی ریہرسل زور شور سے جاری ہے ۔ ڈرامہ کے دونوں کردار، ڈائیریکٹر اور پروڈیوسر ہمہ وقت اس پیش کش کو اعلیٰ معیار کے مطابق پیش کرنے اور ناظرین کے لئے آرٹ کا ایسا نمونہ تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو ان کی تفریح کا سبب بھی بنے، ناروے میں تارکین وطن کی آمد، ان کے تاریخی پس منظر، پیش آنے والے مسائل اور ایک مختلف پس منظر سے آنے کے بعد نئے معاشرہ میں کھپ جانے کی کہانی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ بھی کر سکے۔

ٹونی عثمان کا یہ نیا اسٹیج ڈرامہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس سال ناروے میں پاکستانی تارکین وطن کی آمد کی نصف صدی مکمل ہورہی ہے۔ جو نوجوان پاکستان سے نئی زندگی اور معاشی خوش حالی کے خواب لئے ایک نئے ملک میں آکر آباد ہوئے تھے، ان کی نسل یا تو اللہ کو پیاری ہو چکی ہے یا زندگی کی آخری دہلیز پر کھڑی ہے۔ ان پچاس برسوں میں  ناروے کے پاکستانی تارکین وطن نے اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انہیں ناروے کی سیاست میں قابل ذکر اہمیت حاصل ہے۔ اس وقت بھی ملک کی وزارت ثقافت کا نگران وزیر ایک پاکستانی نژاد ہے۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی کے علاوہ، اوسلو سٹی کونسل اور دیگر متعدد کمیونوں کے منتخب اداروں میں پاکستانی نژاد افراد منتخب ہوکر عوامی مسائل کے حل کے لئے کردار ادا کر رہے ہیں۔ سیاسی کامیابی کے علاوہ پاکستانیوں نے معاشی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ متعدد افراد یا خاندانوں نے اہم کاروبار استوار کئے ہیں اور اب وہ خود روزگار تلاش کرنے کی بجائے دوسروں کو کام دینے کی پوزیشن میں ہیں۔

پاکستانی تارکین وطن کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں نے بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ طب، وکالت، معاشیات یا صحافت ہر شعبہ میں پاکستانی نژاد لوگ اعلیٰ مقام تک پہنچ کر خدمات انجام دے رہے ہیں اور اس بات کا ثبوت فراہم کررہے ہیں کہ تمام تر مشکلات، تعصبات اور سماجی تفریق کے باوجود محنت  اور لگن سے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

اس تصویر کا ایک رخ پاکستانی تارکین وطن کے بعض نوجوانوں کا جرائم کی طرف راغب ہونا اور مقامی معاشرہ میں پاکستانیوں یا تارکین وطن کے بارے میں شبہات اور تعصبات کو راسخ کرنے کا سبب بننا بھی ہے۔ ایک پہلو پہلی نسل کے پاکستانی تارکین وطن میں سماجی تفریق اور ذات برادری کے معاملہ پر باہمی تعصبات اور امتیازی سلوک سے متعلق بھی ہے۔ جبکہ پاکستانی نارویجین آبادی میں بڑھتے ہوئے مذہبی رجحان اور کسی حد تک مقامی انسانی اقدار سے ناشناسائی بھی ایک اہم مسئلہ کے طور پر سامنے آتا رہتا ہے۔ اوسلو اور دیگر شہروں میں پاکستانی مسلمانوں کی تعمیر کردہ متعدد مساجد اور اس حوالہ سے سامنے آنے والے مسلکی او گروہی اختلافات اور جھگڑے بھی اس تصویر کو دھندلانے کے علاوہ سماجی رویوں کے بارے میں نت نئے سوالات کو جنم دیتے رہتے ہیں۔

گزشتہ پچاس برس کے دوران ان معاملات کو لے کر مباحث کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں کسی حد تک پاکستانی تارکین وطن بھی اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اب ان لوگوں کی نئی نسل نئے زاویہ نگاہ اور سماجی شعور کے ساتھ ان معاملات پر مباحث کا حصہ بنتی ہے اور تعصب، نسلی و مذہبی تفریق، معاشی امکانات اور مذہبی حقوق کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر سامنے لانے کی کوشش کرتی ہے۔  تاہم ان مباحث میں بیشتر اوقات یہ بات بھلا دی جاتی ہے کہ یہ ساری گفتگو انسانوں کے بارے میں ہے ۔ انسان جو صرف مشینی کل پرزہ نہیں ہوتا اور احساسات وخیالات کے حوالے سے ایک گروہ نہیں بلکہ اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پہلو بھی کم ہی سامنے آتا ہے کہ پاکستان جیسے پسماندہ دیہی سماج سے ترقی یافتہ نارویجین شہری سماج میں منتقل ہونے کے بعد ان لوگوں پر مرتب ہونے والے جذباتی و نفسیاتی اثرات کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے۔ اس عمل میں سینکڑوں انسانی کہانیاں سامنے آئی ہیں جو عام طور سے بیان نہیں ہو سکیں۔

ٹونی عثمان نے ’ کافی کی چسکی‘ کے ذریعے ایسی ہی ایک کہانی کو منظر نامہ پر لانے کی کوشش کی ہے۔ آج کل اپنے نئے اسٹیج ڈرامہ کے پریمئیر سے قبل وہ  اس کوشش میں ہیں کہ وہ جن دو کرداروں کو اس ڈرامہ میں پیش کرنے والے ہیں،وہ افسانوی تخلیق ہونے کے باوجود  ترک وطن سے پیدا ہونے والے تضاد، تناؤ، نفسیاتی کشمکش اور سماجی و معاشی پہلوؤں اور انسان پر ان کے اثرات کا کسی حد تک احاطہ کر سکیں۔ تجربہ کار اداکار اور ڈائیریکٹر کے طور پر وہ جانتے ہیں کہ ایک مبسوط و ٹھوس کہانی کے علاوہ  کرداروں کو پیش کرنے والے ادا کار بھی کہانی کی روح اور کرداروں کی جذباتی و نفسیاتی کشمکش کو سمجھنے کے اہل ہوں تاکہ اسے بھرپور انداز میں پیش کرسکیں۔ ٹونی عثمان  اگرچہ پاکستان میں پیدا ہوئے تھے لیکن وہ کمسنی میں ہی ناروے آگئے تھے۔ شروع میں سیاست اور پھر ڈرامہ اور ادب سے شغف کے باعث انہوں نے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ناروے میں تارکین وطن اور خاص طور سے پاکستانی تارکین وطن کے رویوں کے علاوہ کامیابیوں اور ناکامیوں کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ وہ کئی ٹی وی و اسٹیج ڈراموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھا چکے ہیں اور متعدد اسٹیج ڈرامے بھی پیش کرچکے ہیں۔ ان میں وہ خاص طور سے سعادت حسن منٹو کے ڈراموں سے استفادہ کرتے رہے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں منٹو انسانی نفسیات کے جن پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے، ان کی آفاقیت کسی لسانی تفہیم کی محدودات کے باوجود مسلمہ ہے۔

ایک پاکستانی و اردو افسانہ نگار ہونے کے باوجود منٹو کی کہانیوں کا پیغام جغرافیائی اور وقت کی حدود سے ماورا ہے۔ ہر علاقے اور عہد کے لوگ اس سے استفادہ کرسکتے ہیں اور اپنے حال کا عکس اس میں دیکھ سکتے ہیں۔ ٹونی عثمان نے منٹو کے افسانوں ٹوبہ ٹیک سنگھ اور انکل سام کے نام خطوط، کی ڈرامائی تشکیل ناروے میں اسٹیج ڈرامہ کی شکل میں پیش کی ہے اور داد پائی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے منٹو کی کہانی ٹھنڈا گوشت کی بنیاد پر ایک فلم بھی بنائی تھی۔ اس فلم میں اردو کو بنیادی زبان کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔  اس طرح ٹونی عثمان نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ مختلف زبان کے باوجود اس زبان سے ناشناس ناظرین تک بھی بنیادی پیغام کی مواصلت ممکن ہے۔ تاہم ان کا نیا ڈرامہ نارویجین زبان میں ہی اسٹیج کیا جائے گا۔ اس ڈرامہ کی کہانی بھی انہوں نے خود ہی لکھی ہے۔

یہ کہانی دو کرداروں صادق اور شفیق کے گرد گھومتی ہے جو ستر کی دہائی میں روزگار اور بہتر مستقبل کی تلاش میں پاکستان کے مختلف علاقوں سے ناروے آتے ہیں اور یہاں ان کی ملاقات ہوتی ہے جو پچاس برس کی دوستی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس برسوں میں ان کے باہمی ربط و تعلق کے باوجود ان کے ذاتی تجربات اور معاملات کی تفہیم اور ان سے نمٹنے کے طریقہ و خواہش  میں زمین آسمان کا بعد ہوتا ہے۔ ’کافی کی چسکی‘ دراصل ان دونوں کرداروں کی جد و جہد، مسائل اور نفسیاتی و سماجی الجھنوں کی داستان ہے جس میں پہلی نسل کے بہت سے پاکستانی تارکین وطن اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ ٹونی عثمان نے اس طرح ناروے میں پاکستانی تارکین وطن کی تاریخ کے ایک پہلو کو مجسم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔

اس ڈرامہ کے لئے انہوں نے نارویجین اسٹیج کے  تجربہ کار اداکاروں تھومس بپین اولسن اور قادر طالبانی کا انتخاب کیا ہے۔ تھوپس ہندوستانی ماں باپ کے ہاں پیدا ہوئے تھے لیکن انہیں ایک ناریجین خاندان نے گود لے لیا۔ اس طرح وہ ناروے میں ہی پروان چڑھے۔ وہ صادق کا کردار ادا کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کردار میں ماضی کی یاد، اپنی شناخت اور پہچان کے حوالے سے جو کشمکش موجود ہے وہ اسے ذاتی تجربہ کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس کردار کے بعض پہلو آفاقی نوعیت کے ہیں جنہیں سمجھنا اور ان سے منسلک ہونا ممکن تھا۔

صادق کے دوست شفیق کا کردار قادر طالبانی کررہے ہیں جو کرد نژاد ہیں۔ اس طرح ان کا کرد پس منظر انہیں شفیق کی سوچ اور سماجی رکاوٹوں سے اس کے باغیانہ رویہ کو سمجھنے میں معاون ثابت ہؤاہے۔ یہ ڈرامہ ناروے میں ترک وطن کرکے آنے والے لوگوں کی گزشتہ پچاس برس کی تاریخ کو دستاویزی شکل دینے کی کوشش ہے۔ ٹونی عثمان کو یقین ہے کہ موضوع کی سنجیدگی کے باوجود یہ پیش کش ناظرین کو محظوظ کرے گی اور وہ اس سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments