تائیوان نے اہداف سے زیادہ ٹیکس کیسے جمع کیا



کام کی بات کی کوئی ایکسپائری ڈیٹ نہیں ہوتی۔1951ء میں تائیوان کی حکومت نے ٹیکس چوری روکنے کے لئے بعض اقدامات کئے۔ یہ تدابیر اس قدر موثر ثابت ہوئیں کہ اس بار گزشتہ سال کی نسبت تین گنا زیادہ ٹیکس جمع ہوا۔ اس سے پہلے کہ میں ٹیکس چوری کے انسداد کا تائیوانی طریقہ بتائوں چند ایسے طریقوں کی بات کر لیتے ہیں جو ٹیکس چور استعمال کرتے ہیں۔ ٹیکس چوری کا ایک معروف طریقہ کار یہ ہے کہ اپنی آمدنی کم بتائی جائے اور پھر منی لانڈرنگ یا آف شور اکائونٹس کے ذریعے رقم چھپا لی جائے۔

حکومت اگر اس ٹرانزکشن سے باخبر ہو تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ آمدن بتانے میں کہاں غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔ اس طرح ٹیکس چوری بہت مشکل ہو جائے۔ اگر صارفین اپنے اخراجات سے سرکار کو آگاہ کرنے لگیں تو اس سے کیا ہو گا؟
فرض کر لیتے ہیں۔ اختر سٹور والے سے وسیم 500روپے کی چیز خریدتا ہے۔ اس صورت میں اگر وسیم ٹیکس دستاویزات میں اس رقم کو 100روپے ظاہر کرتا ہے اور 400 چھپا لیتا ہے لیکن اختر اپنے کاغذات میں 500کی چیز خریدنے کا اقرار کرتا ہے تو حکومت کو معلوم ہو جائے گا کہ گڑ بڑ کہاں ہوئی ہے۔
اس معاملے میں دو تین چیزیں اہم ہیں۔ (i)۔صارفین عام طور پر اپنے اخراجات کا تفصیلی ریکارڈ نہیں رکھتے۔ (ii)۔کاغذات میں ہر لین دین کا اندراج اور حساب رکھنا ناممکن سی بات ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس طرح آسانی سے معاملے کو حل کریں۔ ایک بار پھر فرض کر لیتے ہیں کہ حکومت ہر صارف سے کہتی ہے کہ وہ ہر سال کوئی سی تین خریداری رسیدیں مہیا کرے۔ ٹیکس کا محکمہ ان رسیدوں کی مدد سے جائزہ لے گا کہ جن کمپنیوں سے خریداری کی گئی انہوں نے اس لین دین کے بارے میں سرکار کو کس طرح آگاہ کیا۔
اگر رسید پر چھپی قیمت کمپنی کی بیان کردہ رقم سے مطابقت نہیں رکھتی تو سرکار جان لے گی کہ کمپنی نے خریدوفروخت کے اور بھی بہت سے معاملات کو اپنی دستاویزات میں ظاہر نہیں کیا۔ممکن ہے آپ اس معاملے سے محظوظ ہو رہے ہوں تاہم کمپنی اگر جان بوجھ کر رسیدوں پر غلط رقم تحریر کر دے تو پھر؟ایسا ہو تو خریدار کو یہ حق دیا جائے کہ وہ کمپنی کی ظاہر کردہ رقم سے زاید رقم کی واپسی کا تقاضا کر سکتا ہے۔ پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کمپنیاں ایسی رسیدیں جاری نہ کریں تو؟تو اس سے معاملہ اور بھی صاف ہو جاتا ہے کہ ٹیکس چوری کی جا رہی ہے۔
اگر سرکاری اہلکار عام شہری بن کر کہیں سے خریداری کریں اور کمپنی انہیں رسید جاری نہ کرے تو ایسی کمپنی کو جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ سوال نئے انداز سے سامنے یوں آتا ہے کہ صارف اگر ایسی رسیدیں محفوظ نہ رکھیں تو؟یہی وہ مقام ہے جہاں پر سارا معاملہ دلچسپ ہو جاتا ہے۔ تائیوان میں آپ جب بھی خریداری کریں آپ کو ایک خاص رسید جاری کی جاتی ہے۔ رسید کے اوپر نمایاں طور پر ایک نمبر چھپا ہوتا ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتنی رقم کا لین دین ہوا ہے۔
یہی نمبر لاٹری بھی ہے۔ ہر دوسرے مہینے میں سرکار تین ہندسوں والے کوئی سے چھ نمبر نکالتی ہے۔ نکالے گئے نمبر کو دکھا کر صارف 200ڈالر کا نقد انعام جیت سکتا ہے۔ کئی لوگوں نے زندگی میں متعدد بار یہ انعام جیتاہے۔ اس سکیم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ لوگ اپنی خریداری کی رسیدیں سنبھال کر رکھتے ہیں۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں‘ دس ہندسوں پر مشتمل نمبروں والی تین رسیدوں کی الگ قرعہ اندازی ہوتی ہے۔ ہر کامیاب شخص کو 20ہزار تائیوانی ڈالر (6700امریکی ڈالر)کا نقد انعام مل جاتا ہے۔ خریداری رسیدوں کی قرعہ انداز میں ایک انعام 3لاکھ امریکی ڈالر کا ہوتا ہے۔
گزشتہ سال 10ملین ڈالر کی انعامی رسید کا جب کوئی دعویدار سامنے نہ آیا تو ایک سنسنی پھیل گئی۔لوگوں نے اپنی خریداری رسیدوں کی تلاش میں لباس کی جیبیں ادھیڑ ڈالیں اور درازوں کی تلاشی لی۔ جب کبھی کسی کا انعام نکلتا ہے تو حکومت پڑتال کرتی ہے کہ رسید کے مالک نے خریداری کی رقم اور فروخت کرنے والی کمپنی نے وصولی کی رقم کہیں غلط تو نہیں بتائی۔ اس سکیم کی وجہ سے کاروبار میں رقوم کے لین دین میں غلط بیانی ختم ہو گئی ہے۔
یہ ایک قابل داد نظام ہے جس میں ٹیکس کا بار تاجروں کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ تائیوان نے اس سکیم سے اپنے ٹیکس اہداف کی نسبت ہمیشہ زیادہ محصولات جمع کئے اور عام آدمی پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کیا۔ تائیوان میں اس سکیم کی وجہ سے اس قدر ٹیکس جمع ہوتا ہے کہ حکومت ایک بار پھر لوگوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے پر غور کر رہی ہے۔
شہباز شریف کی سابق حکومت نے پنجاب کے ہوٹلوں اور مہنگے ریسٹورنٹس سے کھانا کھانے والوں کو بل محفوظ رکھ کر خصوصی تیار کی گئی فون ایپلی کیشن میں رجسٹرڈکرنے کی سکیم متعارف کرائی۔ قرعہ اندازی سے لوگوں کو قیمتی گاڑیاں بھی دیں۔یہ تائیوانی سکیم کی ایک شکل تھی۔ پاکستان کبھی امریکہ کا مقابلہ کرتا ہے کبھی کوئی عقل کا اندھا حکمران اسے ایشین ٹائیگر بنانے کا دعویٰ کر دیتا ہے۔ تائیوان نے سات عشرے پہلے اس خرابی کا حل تلاش کر لیا جس نے قیام پاکستان کے فوراً بعد سے ہمیں اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔
آئی ایم ایف کا وفد پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے وعدوں کی تکمیل پر مطمئن رہا۔ مگر آئندہ ٹیکس چھوٹ کی تجاویز سے خوش نہیں کیا۔ کیا ہمارے مالیاتی منیجرز لکیر کے فقیر رہیں گے‘ تائیوان کی مثال سے کچھ سیکھنے کو کیوں تیار نہیں۔
بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments