افغان مہاجروں کو انتہاپسندی کا سبب قرار دینا عمران خان کی کوتاہ نظری ہے


وزیر اعظم عمران خان نے افغان پناہ گزینوں کی واپسی تک پاکستان میں انتہا پسندوں کے ٹھکانوں کے خاتمہ کی ضمانت دینے سے انکار کیا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے اسلام آباد میں افغان پناہ گزینوں کے پاکستان میں 40 سال مکمل ہونے پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں یہ اعلان کیا۔ البتہ اسی سانس میں انہوں نے یہ دعویٰ کرنا بھی ضروری سمجھا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے مکمل طور سے ختم کردیے گئے ہیں۔

افغانستان میں قیام امن کی طرح پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ بھی پیچیدہ اور مشکل معاملہ ہے۔ البتہ جس طرح افغانستان کے موجودہ حالات کو پیدا کرنے میں ماضی میں پاکستانی پالیسیوں نے کردار ادا کیا ہے اسی طرح پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے بھی پاکستان کی حکمت عملی غیر واضح رہی ہے۔ پاکستان اگرچہ ان پناہ گزینوں کو اپنے وطن واپس بھیجنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے متعدد چھوٹے بڑے منصوبے شروع بھی کئے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود اس مقصد میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ یہ بات صاف ہے کہ ان پناہ گزینوں کی واپسی کا تعلق افغانستان میں قیام امن سے ہے۔ اگر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا اور امریکہ تمام تر خواہش کے باوجود طالبان کے ساتھ کوئی سیاسی معاہدہ کرنے میں ناکام رہتا ہے تو افغان پناہ گزینوں کی وطن روانگی کا کوئی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔

قیام امن کی صورت میں بھی پاکستان میں تیس لاکھ کے لگ بھگ پناہ گزینوں کو چالیس برس بعد ان کے اس وطن واپس بھیجنا آسان کام نہیں ہوگاجہاں سے ان میں سے اکثر لوگوں کے والدین کی نسل پاکستان منتقل ہوئی تھی۔ یہ لوگ کسی حد تک پاکستانی معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کے لئے افغانستان ایک اجنبی ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے اس معاملہ کا یہ انسانی پہلو اپنی جگہ بے حد اہم ہوگا کہ جو بچے افغان پناہ گزین کیمپوں میں پیدا ہوکر پاکستان میں ہی جوان ہوئے۔ یا پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد افغان خاندانوں میں پیدا ہونے کے سبب افغا ن زبان و ثقافت سے زیادہ پاکستانی تہذیب اور رہن سہن کے عادی ہوچکے ہیں، انہیں ایک ایسے ملک میں واپس بھیجنا جہاں سے ان کے والدین بالکل مختلف حالات میں پاکستان منتقل ہوئے تھے، کس حد تک جائز اور مناسب رویہ ہوگا۔

لمحہ بھر کو اگر معاملہ کے انسانی پہلو کو نظر انداز بھی کردیا جائے تو بھی یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی حکومت اور اسٹبلشمنٹ امریکہ طالبان مذاکرات میں سہولت کا ر کا اہم کردار ادا کرنے کا کریڈٹ لیتی ہے۔ پاکستان کے اس کردار کو امریکی حکومت بھی کسی حد تک قبول کرتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے اور بعد میں پاکستان کے بارے میں جو منفی طرز عمل اختیار کیا تھا، اس میں تبدیلی کی ایک بنیادی وجہ پاکستان کی طرف سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کردار ادا کرنا بھی تھی۔ اسی لئےڈونلڈ ٹرمپ جیسا انتہا پسند لیڈر گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کے بارے میں مثبت لب و لہجہ میں بات کرنے لگا ہے۔ بلکہ گزشتہ ایک سال کے دوران انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے سوال پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ’ثالثی‘ کروانے کی پیش کش بھی کی ہے۔

عمران خان اور شاہ محمود قریشی اس پیش کش کو پاکستان کی سفارتی کامیابی قرار دیتے ہیں لیکن اب امریکی کانگرس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ دراصل ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی پیش کش کے بعد ہی کیا تھا تاکہ اس تنازعہ کو ہمیشہ کے لئے پاکستان کے ساتھ تصفیہ طلب معاملہ کی بجائے ہندوستان کا داخلی مسئلہ قرار دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئیتریس نے اسلام آباد میں کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے جب یہ کہا کہ پاکستان اور بھارت اس تنازعہ کو حل کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں تو بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے معمول کے اس بیان کو انتہائی درشتی سے مسترد کردیا۔ بلکہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کشمیر کا اگر کوئی مسئلہ ہے تو جموں و کشمیر کے بعض حصوں پر پاکستان کا ’ناجائز‘ قبضہ ہے۔ باقی معاملات میں بھارت کو کسی تیسرے فریق کی اعانت یا ثالثی کی ضرورت نہیں ہے۔

اس پس منظر میں افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے یہ یاددہانی کروانا ضروری ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نے انتہا پسندی، ان کے پاکستان میں ٹھکانوں اور ان کے خاتمہ پر گفتگو کرتے ہوئے اس معاملہ کو بنیادی اہمیت دینے کی کوشش کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن افغان طالبان کے ساتھ پاکستان نے اپنے رابطوں اور ’خیر سگالی یا اثر و رسوخ‘ کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کروانے میں کردار ادا کیا ہے، کیا ان کے ساتھ پاکستان میں مقیم پناہ گزینوں کی واپسی اور ان کی نئے افغانستان میں آباد کاری کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی ہے؟ یہ واضح ہے کہ امریکہ طالبان مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں طالبان کو مستقبل کے افغان سیاسی انتظام میں قابل ذکر اثر و رسوخ حاصل ہوگا۔ کیا وہ اس بات پر آمادہ ہیں کہ ان کے خلاف برسر پیکار رہنے والے گروہ یا افغانستان میں طالبان حکومت کے جبر سے فرار ہونے والے خاندانوں کو افغانستان میں واپس قبول کرلیا جائے گااور ان کے ساتھ کسی قسم کا غیر انسانی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا؟

یا پاکستان نے امریکہ کا سہولت کار بنتے ہوئے امریکی حکومت سے اس معاملہ کی تفصیلات اور شرائط طے کرلی ہیں کہ طالبان کے ساتھ کسی بھی معاہدہ میں پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی آباد کاری کو بنیادی اہمیت حاصل ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ ان پناہ گزینوں کے دوبارہ نقل وطن اور آباد کاری میں جو کثیر وسائل صرف ہوں گے، وہ کہاں سے فراہم کئے جائیں گے۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ افغان جنگ سے بھاگنے والا امریکہ طالبان کے ساتھ معاہدہ کے بعد افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے کوئی بھاری معاشی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار ہوگا۔ اسی طرح افغانستان جنوبی ایشیا کا فلسطین بھی نہیں ہے کہ امیر عرب ممالک امریکی اشارے پر افغان پناہ گزینوں کی آباد کاری کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیں گے۔

ان حالات میں حقیقت پسندانہ رویہ یہی ہوگا کہ پاکستان یہ تسلیم کرلے کہ افغان پناہ گزینوں کی اکثریت کسی نہ کسی صورت میں پاکستان میں ہی آباد رہے گی۔ آج منعقد ہونے والی افغان پناہ گزین کانفرنس میں اقوام متحدہ کے لیڈروں کے علاوہ خود وزیر اعظم نے بھی پاکستان کی سخاوت، مہمان نوازی اور فراخدلی کا ذکر کیا اور دعویٰ کیا کہ پاکستان نے تنگی داماں کے باوجود چار دہائیوں تک کثیر تعداد میں افغان پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت کیا ہے۔ تاہم اگر اس معاملہ کی تہہ تک جانے کی کوشش کی جائے تو یہ جاننے میں دیر نہیں لگے گی کہ پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو سفارتی اور سیاسی لحاظ سے استعمال تو ضرور کیا ہے لیکن ان کی آباد کاری یا انہیں سہولتیں فراہم کرنے میں کوئی مالی تعاون فراہم نہیں کیا ہے۔ صاف سی بات ہے کہ جو ملک اپنے ہی لوگوں کا پیٹ نہیں بھر سکتا وہ بیرون ملک سے جان بچانے کے لئے یہاں آنے والے لوگوں کی مدد کیسے کرسکتا ہے۔ ان پناہ گزینوں کی امداد کا سارا کام بین الاقوامی اداروں سے ملنے والی امداد سے کیا جاتا رہا ہے۔ البتہ پاکستانی بیوروکریسی نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ ضرور دھوئے ہیں۔ یا پھر افغان پناہ گزینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت خود روزگار کے مواقع حاصل کئے ا ور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کا اہتمام کیا۔بہت سے دوسرے حقائق کی طرح اس سچ کو مان کر ہی اس معاملہ کا حقیقت پسندانہ حل تلاش کرنے کی بات کی جاسکتی ہے۔

یہ معاملہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ایک بار پھر حکومت، فوج اور معاشرے کے تمام طبقوں کے ایک پیج پر ہونے کی بات کی ہے اور کہا کہ میں ماضی کی بات نہیں کرتا لیکن اب حکومت اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتی ہے۔ تاہم عمران خان کو اتنا بالغ النظر ضرور ہونا چاہئے کہ کشمیر کا معاملہ ہو یا افغانستان میں قیام امن اور پناہ گزینوں کی واپسی کا مسئلہ، اس کو ماضی میں کئے گئے فیصلوں اور تاریخی تناظر میں پرکھے بغیر ان کا حل تلاش کرنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ کوئی حکومت ماضی قریب میں ہونے والے فیصلوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اب سب ٹھیک کرنے کی امید قائم نہیں کرسکتی۔

اسی حوالے سے جب عمران خان کے اس بیان کا جائزہ لیا جائے کہ پاکستانی سرزمین سے انتہا پسندی یا جنگ جوئی افغان پناہ گزینوں کی واپسی تک ختم نہیں کی جاسکتی تو اس بیان سے دراصل پاکستانی وزیر اعظم نے معاشرے کے ایک کمزور اور ناتوان طبقے کو مسئلہ کا سبب قرار دینے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش کی ہے۔ جتنی جلد ممکن ہو اس بیان کی تصحیح ہونی چاہئے۔ کیوں کہ انتہاپسندی کا ذمہ دار افغان پناہ گزینوں یا ان کی آبادیوں کو قرار دے کر دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ اسی تقریر میں عمران خان نے مغربی ممالک پر اسلامو فوبیا پھیلانے اور تارکین وطن سے جان بچانے کے لئے کمزور گروہوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کرکے مقبول سیاسی رویہ اختیار کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ اگر مغربی ممالک کا یہ طرز عمل غلط ہے تو عمران خان افغان پناہ گزینوں کو انتہاپسندی کے خلاف پاکستانی ریاست کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دے کر خود بھی وہی طریقہ اختیار کررہے ہیں۔

عمران خان کو اب سمجھ لینا چاہئے کہ بطور وزیر اعظم ان کی تضاد بیانی مشکلات حل کرنے کی بجائے ان میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ افغان پناہ گزینوں اور انتہا پسندی کے بارے میں عمران خان کا یہ تبصرہ دراصل افغان نائب صدر سرور دانش کے الزامات کے جواب میں سامنے آیا تھا لیکن اس کے نتیجے میں انسانوں کے ایک بڑے گروہ کو عالمگیر نوعیت کے مسئلہ کا سبب قرار دے کر عمران خان نے بطور لیڈر اپنا قد چھوٹا کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments