محمد بن قاسم کی منتظر، سندھی بیٹی کا حجاج بن یوسف کے نام خط


آج سویرے ایک ایمیل موصول ہوئی۔ جو چین میں پھنسی ہوئی سندھ کی بیٹی ڈاکٹر یاسمین راہوجو نے اپنے سو ساتھی ڈاکٹروں کی طرف سے پاکستان میں موجود کسی محمد بن قاسم کے نام بھیجی ہے۔ اگرچہ اسی ایمیل کی ایک ایک کاپی وزیراعظم صاحب، صدر پاکستان اور وزیر خارجہ کو بھی بھیجی گئی ہے۔ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ جن جن کو یہ ایمیل بھیجی گئی ہے۔ میرے سمیت ان میں محمد بن قاسم کوئی بھی نہیں۔ ہاں شقی القلبی میں ہم حجاج بن یوسف کی برابری کرسکتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم، صدر صاحب، عزت مآب جرنیل صاحبان یا وزراء کرام کا کوئی رشتہ دار چین میں پڑھتا ہے نہ وہاں پھنسا ہوا ہے۔ کیونکہ ان کے بچے برطانیہ امریکہ اور یورپ میں پڑھتے ہیں۔ چین میں تو درمیانی آمدنی کے پاکستانیوں کے بچے سستی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ سستی تعلیم حاصل کرنے والے اہم کب ہو سکتے ہیں؟

مصیبت کی اس گھڑی میں ڈاکٹر یاسمین راہوجو کو یہ کہہ کر میں مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا، کہ محمد بن قاسم سے شروع ہونے والی ہماری تاریخ عافیہ صدیقی تک پہنچ کر کنفیوز ہوگئی ہے۔ ویسے بھی پاکستانی معاشرے میں بیٹیوں اور بہنوں کی بلیدان چڑھا کر دوستیاں بنائی اور نبھائی جاتی ہیں۔ ناک اور پگ اونچی کرنے کی خاطر اکثر زندہ بیٹی کی لاش پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ پھر آپ کونسا وزیر اعظم صدر یا جرنیل کی بیٹی ہے؟ آپ اگر کسی پتھر دل حجاج کی بیٹی ہوتی پھر بھی کسی محمد بن قاسم کی آمد ممکن تھی۔ آپ تو حصول تعلیم کیلئے گئی ہیں۔ چین میں تو ہماری اور بھی سینکڑوں بے یار و مددگار بیٹیاں اپنے سہاگوں کو رو رہی ہیں۔

ممکن ہے محمد بن قاسم ایک افسانوی کردار یا کوئی استعارہ ہو۔ کیونکہ حجاج جیسا شقی القلب کیسے، ایک بیٹی کی فریاد پر اسے سندھ بھیج سکتا تھا۔ پھر ہمارے حجاجوں نے بھی تو کبھی کسی بیٹی کے پیچھے محمد بن قاسم کو کہیں نہیں بھیجا۔ حجاج کے ہاں محمد بن قاسم پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ ہاں برطانیہ میں حجاج ہوتا ہے۔ جو شہزادہ چارلس کو محمد بن قاسم بنا کر مشرف کے پاس بھیج دیتا ہے۔ اور پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کے قاتل مرزا طاہر حسین کو پھانسی گھاٹ سے نکال کر شاہی جہاز میں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ امریکہ میں بھی حجاج ہوتا ہے۔ جو اپنے بیٹے ریمنڈ ڈیوس کو مقتول فہیم کی بیوی شمائلہ کی احتجاجی خودکشی کے باوجود پاکستان سے بحفاظت نکال لے جاتا ہے۔

آپ سوچتی ہوں گی کہ آپ تو ڈاکٹر ہیں۔ کوئی مجرم تھوڑی ہے۔ یہی تو میں بھی کہتا ہوں کہ آپ تو ڈاکٹر ہیں۔ کوئی مجرم تو نہیں کہ ہم نے آپ کو موت کے منہ میں چھوڑ دیا ہے۔ جبکہ دوسرے اپنے مجرم بھی اس طرح نہیں چھوڑتے۔

جمہوری ممالک میں جہاں حکومتیں عوامی خوشنودی کے سہارے قائم ہوں، کسی نادیدہ قوت کے زور پر نہیں۔ وہاں عوام اہم اور شہری مقدس ہوتے ہیں۔ لیکن فاشسٹ حکومتوں میں زمین دیوتا، نظریہ مقدس اور لیڈر بھگوان ہوتا ہے۔ اس لئے کبھی زمین کی چپے چپے کی خاطر، کبھی نظریے کی تقدس کے لئے اور کبھی بھگوان کی خوشنودی کی خاطر، عوام کا بلیدان چڑھایا جاتا ہے۔ لاشیں، نامعلوم جنگوں، موہوم اور غیر معین مقاصد، خفیہ ایجنڈوں اور ذاتی مفادات کی خاطر، جھنڈوں میں لپٹ کر آتی ہیں۔ پسماندگان کو تعزیت کی بجائے شہادت کی مبارکبادیں دی جاتی ہیں۔ غمزدہ والدین پر ایسا جادو کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی لاش پر ماتم کرنے کی بجائے فخر کرنے لگتے ہیں۔ اگر یہی بچے واپس آ سکتے تو ایسے والدین کو منہ نہ لگاتے جو ان کی موت پر مبارک بادیں وصول کرتے ہیں۔

کچھ فرق نہیں پڑنے والا لیکن پھر بھی حکومت کے کارپردازوں سے با ادب التماس ہے۔ کہ بیشک چین کی دوستی سمندرسے گہری، ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی ہے۔ اور مصیبت کی گھڑی میں چین کے ساتھ دوستی اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اگر اور کوئی مدد ممکن نہیں کر سکتے تو اپنے شہریوں کو وہاں سے نکال کر ان کا بوجھ تو کم کرسکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی مودبانہ تجویز ہے کہ وزیر اعظم، صدر اور جرنیل صاحبان چین کے دورے کر کے شہر شہر جا کر عوام کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یکجہتی مارچ کریں۔ اگر خود حزب اختلاف پر مقدمے بنانے اور سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانے سے فراغت نہیں تو سلمان، قاسم، ناعمہ علوی، مرحمہ علوی، راشدہ علوی اور سعد صدیق باجوہ کو خیر سگالی کے طور پر چین بھیج دیں۔ لیکن عام پاکستانیوں کو وہاں سے نکال لائیں۔ کیونکہ عوامی سطح پر چین کی پاکستانیوں سے کبھی دوستی نہیں رہی۔ چین کےدروازے کبھی عام پاکستانیوں کے لئے نہیں کھلے کہ وہ ویزہ لئے بغیر صرف پاکستانی پاسپورٹ پر چین جا سکے ہوں۔ خواص کی دوستی خواص نبھائیں۔

ای میل کے مختصر مندرجات درج ذیل ہیں۔

ڈاکٹر یاسمین راہوجو اپنے پاسپورٹ اور سیل نمبر کے بعد لکھتی ہیں۔ کہ میں سو پاکستانی میل اور فیمیل (مرد اور خواتین) ڈاکٹروں سمیت ملتمس ہوں کہ ہم نے جنوری کے پہلے ہفتے میں ینگسی یونیورسٹی جینگزو سے ایم بی بی ایس کی ڈگریاں ایک کانوکیشں میں وصول کیں۔ جن کو پچیس جنوری تک نوٹرائز / تصدیق کرانا تھا۔ جس کے بعد تیس جنوری، دو، تین، چھ، دس اور چودہ فروری کو ہم نے مختلف پروازوں کے ذریعے پاکستان کے مختلف علاقوں کیلئے مختلف ائیرپورٹوں سے روانہ ہونا تھا۔ لیکن ملک واپس آنے کی بجائے ہمیں اویو ہوٹل 229 بمبو ایریا جینگزو شہر میں بند کیا گیا۔ ہمیں مالی مسائل کے علاوہ خوراک حفظان صحت اور پھیلتے ہوئے مہلک کرونا وائرس سے سخت خطرہ ہے۔ (ان ڈاکٹروں کی تعلیم مکمل ہو گئی ہے)

اگرچہ ابھی تک ہم محفوظ ہیں۔ لیکن جس تیزی سے یہ وائرس چین میں پھیل رہا ہے۔ بہت جلد ہم بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ دیار غیر میں غیر محفوظ ہونے کے علاوہ آنے والے این ایل ای (نیشنل لائسنسنگ ایگزامینیشن جو کہ دیار غیر سے پڑھنے والے ڈاکٹروں کیلئے لازمی ہے) ٹیسٹ سے بھی محروم رہ جائیں گے۔

اس لئے حکومت سے اپیل ہے کہ دیار غیر میں ہم اور ملک میں ہمارے والدین بہن بھائیوں اور عزیز رشتہ داروں کو مزید اذیت ناک انتظار اور پریشانی سے بچا کر چارٹرڈ پرواز سے یا چینی حکومت سے صحت کے اجازت دلوا کر وطن واپس آنے میں ہماری مدد کرے۔

از : ڈاکٹر یاسمین راہوجو مع ایک سو میل / فی میل واپسی کے منتظر ڈاکٹرز

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments