پختون و بلوچ نسل کشی اور کراچی و لاہور کا بابو


کوئٹہ شہر کے وسط میں دھماکہ ہو جاتا ہے۔ ۔ نیوز چلتی ہے تیس مر گئے جاں بحق ہو گئے نہیں نہیں شہید ہو گئے۔ یہ خبر پانچ منٹ چلتی ہے

پھر اینکر صاحب جذبہ الحب الوطنی سے سر شار ہو کر منہ سے جھاگ نکال نکال کر بضد رہتا ہے کہ سیاسیدان چور ہے۔ بلاول کو اردو نہیں آتی۔ نواز شریف کا علاج اور عظیم پاک فوج نے نیا گانا ریلز کر دیا۔

تو دکھ درد بانٹنے کے لیے ہم سوشل میڈیا کی طرف بڑھتے ہیں۔ اور ایک چھوٹی سی بات لکھ دیتے ہیں کہ پختون اور بلوچوں کا قتل بند کرو۔ یہ کیا لکھنا ہوتا ہے آپ ہر طرف کتوں کے نرغہ میں آجاتے ہو سوال یہ نہیں کرتے کہ لوگوں کا تحفظ کس کی ذمے داری ہوتی ہے۔ بلکہ سوال یوں ہوتے ہیں کہ

نمبر ایک: کہ آپ نے مرنے والے کو شہید کیوں نہیں لکھا؟

نمبر دو :آپ نے بلوچ اور پختون کیوں کہا یہ تو نسل پرستی؟

نمبر تین :دھماکے تو ہر جگہ ہوتے ہیں

نمبرچار :زیادہ تر دہشت گرد تو پختون اور بلوچ ہی ہوتے ہیں۔

آپ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ لوگوں کا درد بانٹوں یا سوالات کے جواب دوں۔ آپ سوچتے ہیں ان عام لوگوں کو مقتول سے زیادہ قاتل سے ہمدردی کیوں ہے؟ جو انسان مر گیا اس کو شہید کہیں، اس کو ہلاک کہیں، اس کو ولی اللہ کہیں یا کافر، وہ انسان دنیا سے چلا گیا اس کا خاندان لاوارث ہو گیا اور ایک نہ ختم ہونے والا غم اس کے خاندان کے ساتھ جڑ گیا۔ یہ شہید اور ہلاک کی بحث کرنے والوں کو تو شاید ہلاک ہونے والے بندہ بشر کا نام بھی معلوم نہ یہ جو نعش گر گئی ہے اس سے اس کا خاندان مر گیا ہے اس خاندان پر کیا گزر رہی ہے اور اس خاندان کا مستقبل کیا ہو گا۔

دوسرا سوال یہ کرتے ہیں لوگ کہ آپ نسلی امتیاز کر رہیں ہیں۔ تو کیا سوال نہیں اٹھے گا کہ ایک دہشت گرد ہندوستان سے آتا ہے ایران سے آتا ہے۔ امریکہ سے آتا ہے یا تو بلوچ سر زمین پر دھماکہ کرتا ہے یا پختونوں کی اب کیا یہ نہ لکھو کہ دھماکہ کوئٹہ میں ہوا تو پھر کیا لکھوں اچھا تو یوں لکھوں ان باتوں کو میں کہ دھماکہ پاکستان میں ہوا ہے، نہیں بلکہ ایسا بھی کیوں لکھوں یہ کیوں نہ لکھوں کہ کہی دنیا میں ایک دھماکہ ہوا ہے اور اس جگہ کا نام میں نہیں لکھ سکتی۔

یہ وہ تعصب ہے جو بغیر کسی وجہ کے شہری بابو اپنے دلوں میں پال رہے ہیں۔ ان بابو کے گھروں میں جب بلوچستان سے آنے والی گیس یا پختونخوا سے آنے والی بجلی بند ہو جاتی ہے، تب وہ لڑے گا، روڈوں پر نکلے گا۔ جب دھماکہ ہو جاتا ہے تب یہ بابو اپنی مستی میں مشغول رہے گا۔ اور یہ شہری بابو اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ اصل دہشت گرد تو بلوچ ہے پختون ہیں۔ یہ تو پشتو اسپیکنگ ہے یہ تو بلوچ ہے بروہی بولتا ہے یہ تو خود ہی دہشت گرد ہے۔

سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ ہم یہ مان لیتے ہیں یہ پختون ہے یہ بلوچ ہے۔ یہ اپنے گھر کو کیوں تباہ کرنے پر بضد ہے؟

پختونوں اور بلوچوں میں بدلہ ایک مضبوط سماجی رسم ہے۔ یعنی اگر آپ بہت بھی غریب ہیں بہت بھی کمزور ہیں پھر بھی آپ کی زندگی کوئی اس وجہ سے نہی چھین سکتا کہ آپ کا خاندان آپ کا بدلہ ضرور لے گا اب یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک پختون دوسرے پختون کو مار رہا ہے اور اس کو کوئی خوف ہی نہ ہو کہ میرے سے کوئی سوال ہی نہ ہو گا۔ کیونکہ قاتل کو پتہ ہے میرے پیچھے بہت سے مضبوط اور منظم لوگ کھڑے ہیں اور ان مضبوط لوگوں نے ہی ان کے ہاتھوں میں اسلحہ تھمایا ہے۔

وہ مضبوط اور منظم لوگ کبھی بھی ان تحریکوں کو ان چیزوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے جو اس زمین پر امن کی طرف قدم۔ اٹھاتے ہیں اور ان قوتوں کے ساتھ لاہور اور کراچی کے بابووں کی ہمدردیاں ہیں۔ ان قوتوں کو جب بھی کوئی چیلنچ کرتا ہے تو لاہور اور کراچی کا بابو آپ سے لڑتا ہے۔ آپ کو گریبان سے پکڑنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ کہ آپ نے ان قوتوں کا نام کیسے لیا وہ تو فرشتے ہیں آسمان سے اترے ہیں۔ اور آپ تو ان سے یہ سوال بھی نہیں کر سکتے کہ میں آپ کو اربوں روپے دے رہا ہوں ہماری حفاظت کون کرے گا ورنہ یہ شہری بابو آپ کے جان لینے کو آجاتے ہیں

کیا یہ اتنا پیچید ہ سوال ہے کہ اب تک ہم اس بات کا تعین نہ کر سکے کہ دہشت گرودں کی پشت پناہی کون کر رہا ہے ان کے لیے وساِئل کہاں سے آرہے ہیں اور وہ پھر اتنے مضبوط کیوں ہوگئے ہیں کہ پورا پاکستان ان سے محفوظ نہیں ہے؟ پھر ہم یہ سوال کیوں نہی اٹھاتے پاکستان کی حفاظت کس کی ذمے داری ہے؟

کیا یہ سوال نہی اٹھے کا کہ دہشت گرد اس وطن میں کیوں دندناتے پھر رہے ہیں یہ سوال تو اٹھے گا احسان اللہ احسان کیسے بھاگ جاتا ہے اب اگر میں یہ سوال کرتی ہو تو لاہور اور کراچی کا بابو مجھ سے پوچھتا ہے تہماری جرات کیسی ہوئی یہ سوال کرنے کی مگر اس بابو کو ایک بات سمجھ نہیں آتی جس آگ سے آج وہ مزے لے رہا ہے جس آگ کی ہدولت وہ اپنے جسم کو تپش دے رہا ہے یہ آگ ایک دن اس کے گھر کو بھی جلائے گی اس دن اس بابو کو سمجھ آئے گی کہ آگ کیا ہوتی ہے؟ اس کی حدت کتنی دل دہلانے والی ہے کراچی اور لاہور کے بابو آپ کو ریاست سے بطور انسان بطور پاکستانی یہ سوال کرنا ہو گا کہ کوئٹہ میں رہنے والے پاکستانیوں کی حفاظت کس کی ذمے داری ہے؟

اگر آپ یہ سوال نہی اٹھاتے تو آپ شریک جرم ہیں۔ یہ جو تمہارے گھر کے چراغ جل رہیں ہیں اس میں کسی کا خون جل رہا ہے تہماری سڑکیں کسی کی لاشوں کے اوپر کھڑی ہیں تم خون کے اس کاروبار میں شامل ہو، آج دو کروڑ کراچی ایک کروڑ لاہور کیوں خاموش ہے؟ نہ صرف خاموش ہے بلکہ جب مقتول اپنے قاتل کا نام لیتا ہے کہ مجھے اس نے مارا ہے اور میرے قتل سے اس کو فائدہ ہے تو یہ مقتول کے گلے پڑ جاتے ہیں، بابو صاحب آپ کو سوچنا ہو گا۔ آپ کو سوچنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments