احسان اللہ احسان کے فرار پر وزیر داخلہ مطمئن کیوں ہیں؟


دو ہفتے انتظار کے بعد بالآخر وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے اعتراف کیا ہے کہ حکومت اور ریاست طالبان اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان اور اے پی سی حملہ سمیت دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث احسان اللہ احسان فرار ہوچکا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے اس خبر کی تصدیق کے علاوہ اس پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ اس معاملہ پربہت کام ہو رہا ہے۔
وزیر داخلہ کے اس اعتراف سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کوایک ایسے دہشت گرد کے فرار سے کوئی خاص پریشانی نہیں ہے جسے حراست میں لینے کا اعلان بڑے کر و فر سے اس وقت آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اپریل2017 میں کیا تھا۔ اس اطلاع کے مطابق احسان اللہ احسان نے اپنی مرضی سے خود کو حکام کے حوالے کیا تھا۔ اس کا ایک انٹرویو بھی ٹیلی ویژن پر نشر کروایا گیا تھا جس میں اس نے دہشت گردی کے حوالے سے بھارتی اور افغان ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے بارے میں سنسنی خیز انکشافات کئے تھے۔ یہ بھی بتایا جاتا رہا ہے کہ احسان اللہ احسان نے عسکری اداروں کو دہشت گرد گروہوں کے بارے میں بیش قیمت معلومات فراہم کی تھیں جن کی بنیاد پر متعدد دہشت گردوں کو ہلاک اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا تھا۔ یعنی اکیلے احسان اللہ احسان کی مدد سے وہ کام سرانجام پا سکا تھا جو متعدد ریاستی ادارے برس ہا برس کی کوششوں کے باوجود مکمل کرنے میں ناکام ہوگئے تھے۔
تین سال تک احسان اللہ احسان کو ایک باعزت ’مہمان‘ کے طور پر پشاور کی ایک عالی شان رہائش گاہ میں رکھا گیا تھا جہاں اسے زندگی کی تمام آسائشیں میسر تھیں۔ حکومت یا فوج کے نمائندے یہ تو نہیں بتائیں گے کہ یہ مصارف کون برداشت کررہا تھا لیکن پاکستانی عوام کو یقین رکھنا چاہئے کہ ان کی زندگیوں کو لاحق خطرہ دور کرنے اور دہشت گردی کے خاتمہ میں مدد فراہم کرنے والے اس ’سابق دہشت گرد‘ کو مناسب دیکھ بھال کے ساتھ حفاظت سے رکھنا بہت ضروری تھا۔ اسی لئے اس کے مصارف کی پرواہ کرنے کی بجائے ریاستی اداروں کی کارکردگی اور اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ پاکستان دہشت گردی پر قابو پانے والا پہلا ملک ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ دنیا کا کوئی ملک دہشت گردوں کی بیخ کنی کے حوالے سے ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دے سکا جو پاکستان نے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے کرکے دکھایا تھا۔ دہشت گرد گروہوں کو ملک کے اندر سے خود اپنے ہاتھوں ختم کیا گیا اور جو عناصر افغانستان بھاگ گئے تھے، انہیں امریکہ کے ساتھ تعاون کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچایا گیا ۔
یہاں تک معاملہ شاید قابل قبول ہوتا لیکن جب ایک نامی دہشت گرد کی گرفتاری یا خود کو اداروں کے حوالے کرنے کی خبر سامنے آئی تو یہ سوال بھی سامنے آیا کہ کیا یہ دہشت گردی کے خلاف اداروں کی پیش رفت ہے یا ایک ایسے شخص کے ماضی کو بھلا کر اسے معاشرے کا ’باعزت فرد‘ بنانے کی کوشش ہے جس پر ملالہ یوسف زئی پر حملے کے علاوہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی جیسے المناک سانحات کا الزام عائد ہوتا ہے۔ 16 دسمبر 2014 کو ہونے والے اس دہشت گرد حملہ میں 149 افراد جاں بحق ہوئے تھے جن میں اکثریت اسکول کے کم سن بچوں کی تھی۔ اسی لئے اس حملہ نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف فضا ہموار کی اور فوج نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے اس کے قلع قمع کا منصوبہ بنایا تھا۔ پارلیمنٹ نے اکیسویں ترمیم کے ذریعے بیس نکاتی قومی ایکشن پلان تیار کیا جس کے تحت دہشت گردوں کی صفائی کے علاوہ انتہاپسند عناصر کے خاتمہ کا ایک جامع منصوبہ تیار کیا گیا۔ پانچ برس گزرنے کے باوجود نہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن ہؤا ہے اور نہ ہی انتہاپسندی کو معاشرے میں پروان چڑھنے سے روکا جاسکا ہے۔ بدقسمتی سے چند برس پہلے جو مذہبی گروپ صوفی اسلام کے ماننے والے ہونے کی وجہ سے دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ریاست کے ہتھیار سمجھے جاتے تھے، وہ بھی دھرنے دینے اور مرنے مارنے پر تل گئے۔
احسان اللہ احسان کے سرکاری تحویل میں آنے کے بعد سب سے اہم سوال یہی تھا کہ کیا دہشت گردی سے کثیر جانی و مالی نقصان اٹھانے والے ملک میں ایک دہشت گرد کو صرف اس لئے سابقہ جرائم سے معافی دی جاسکتی ہے کیوں کہ اس نے خود سرنڈر کیا ہے یا وہ اس کے باوجود قانون کے سامنے جوابدہ ہوگا اور اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد ہی اسے عام شہری کے طور پر زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوسکے گا؟ یہ سوال دہشت گردی کا نشانہ بننے والے پاکستانی عوام کے اطمینان و تسلی کے علاوہ بھی کئی پہلوؤں سے اہم تھا۔
ایک تو اس سے یہ طے کیا جاسکتا تھا کہ اس ملک میں قانون کی عملداری ہے اور جو شخص بھی کسی بھی بہانے قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا اسے عدالت کے سامنے اپنے گناہوں کا جواب دینا ہوگا۔ اس طرح ملک کی کوئی بااختیار عدالت ہی یہ طے کرسکتی تھی کہ کسی شخص کو رضاکارانہ گرفتاری کی وجہ سے سزا میں کتنی رعایت دی جاسکتی ہے یا اس کے تعاون سے ہونے والے فائدہ پر وہ کس سہولت کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔ یوں ملکی قوانین سے بغاوت کے مرتب ہونے والے تمام عناصر کو قانون کی بالادستی اور کسی امتیاز کے بغیر سب کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے اصول کے بارے میں دوٹوک پیغام دیا جاسکتا تھا۔ یہ وہی اصول ہے جس پر وزیر اعظم عمران خان مدینہ ریاست کے بارے میں بتاتے ہوئے اصرار کرتے ہیں۔
اس تصویر کا دوسرا اہم پہلو دنیا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے غیر متزلزل عزم کا یقین دلانے سے متعلق تھا۔ احسان اللہ احسان جیسے ہائی پروفائل دہشت گرد کی حراست اور اس کے ساتھ ریاستی اداروں اور نظام کے سلوک کی بنیاد پر ہی دنیا یہ تعین کرسکتی تھی کہ پاکستان کس حد اپنے ان دعوؤں میں حقیقت پسند ہے کہ اس نے دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے ختم کردیے ہیں اور کسی بھی انتہا پسند گروہ یا فرد کو کسی بھی قیمت پر جنگ جوئی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کی اہمیت یوں بھی دوچند ہوجاتی ہے کیوں کہ بھارت کے علاوہ افغانستان اور امریکہ گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل پاکستان پر دہشت گرد گروہوں کی اعانت کرنے اور ان کا سہولت کار ہونے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے ہر فورم پر اس الزام کو مسترد کرنے اور دہشت گردی کے سبب پاکستان کے شدید جانی و مالی نقصان کے قصے بیان کرنے کے باوجود دنیا میں ان الزامات کی گونج مسلسل موجود رہی ہے۔ حتی کہ بھارتی وزارت خارجہ نےگزشتہ روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئیتریس کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اعانت کی پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے ایک بار پھر یہ الزام دہرانا ضروری سمجھا ہے کہ پاکستان عسکری گروہوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کرتا ہے اور وہاں امن و امان کی صورت حال خراب کرنے کا ذمہ دار ہے۔
اس پس منظر میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کو کنٹرول کرنے والی 39 رکنی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے 2018 میں ایک بار پھر پاکستان کو اپنی واچ لسٹ یعنی گرے فہرست میں شامل کرلیا تھا۔ پاکستان کی متعدد کوششوں کے باوجود اسے دو برس سے اس فہرست میں رکھا گیا ہے ۔ جمعرات کو ایک بار پھر پاکستان کے حوالے سے اس گروپ کا اجلاس ہونے والا ہے جس میں اسے گرے لسٹ سے نکالنے یا نہ نکالنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ عام قیاس یہ ہے کہ پاکستان کو شاید بلیک لسٹ میں تو نہ ڈالا جائے لیکن اسے اب بھی گرے لسٹ پر ہی رکھا جائے گا تاکہ وہ ایف اے ٹی ایف کی تمام سفارشات پر مکمل عمل درآمد کی رپورٹ پیش کرسکے۔ اس حوالے سے پاکستان کی حمایت میں جو دلیل سامنے آئی ہے وہ کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو سزا دینے کا معاملہ ہے اور جو امور اس کی نیک نیتی کے بارے میں شبہ پیدا کریں گے ان میں جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کا پراسرار طور سے روپوش رہنا ہے۔ اب احسان اللہ احسان کا فرار بھی پاکستان کی ناکامی کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے احسان کا فرار ایف اے ٹی ایف کے ساتھ پاکستان کے تعلق کے حوالے سے بھی اہمیت رکھتا ہے۔
حکومت یا ریاست کے اداروں نے احسان اللہ احسان کی حراست کے بعد اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا عندیہ نہیں دیا تھا بلکہ اسے پر آسائش رہائش گاہ اور سہولتیں فراہم کرکے اپنی ’احسان مندی‘ کا اظہار ضروری سمجھا گیا تھا۔ البتہ اے پی سی متاثرین کے گروپ کی طرف سے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کے باعث پشاور ہائی کورٹ نے احسان اللہ احسان کو اس وقت تک گرفتار رکھنے کا حکم دیا تھا جب تک اس کے خلاف تمام الزامات پر ملکی عدالتیں فیصلے صادر نہیں کرتیں۔ اس کے باوجود وہ گزشتہ ماہ کے شروع میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا جس کا باقاعدہ اعلان اس نے خود ہی 5 فروری کو سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے ایک پیغام میں کیا تھا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ سرکاری سطح پر اس افسوسناک سانحہ کی تصدیق یا تردید کرنے یا اس وقوعہ کی تفصیلات بتانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ اسی لئے اس معاملہ میں حکومت اور اداروں کی نیک نیتی کے بارے میں سوال اٹھائے جاتے ہیں۔
ان میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا احسان اللہ احسان کو ریاست کی نگرانی میں فرار کروایا گیا ہے کیوں کہ پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق اگر اس کے خلاف مقدمات عدالتوں تک پہنچتے تو حساس اداروں کی طبع نازک پر گرانی کا امکان تھا۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے جس انداز میں اس فرار کی تصدیق کی ہے اور اس پر کسی پریشانی یا تشویش کا اظہار کرنے سے گریز کیا ہے، اس سے یہ شبہات قوی ہوں گے۔ ریاست، اس کے اداروں اور عوام کے درمیان کمزور پڑتے اعتبار کی صورت حال میں احسان اللہ احسان کا فرار ایک بھاری پتھر ثابت ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments