امیر حمزہ کا اسلام آباد آنا اور دلوں کو فتح کرنا


\"khurramیہ بات اس وقت کی ہے جب ابهی کتابوں کی قیمتیں عام طلبا و طالبات کی پہنچ سے باہر نہیں نکلی  تھیں۔ ہر گلی محلے میں سرکاری یا ذاتی لائبریریاں بهی  قائم تهیں جن سے  چوبیس گھنٹے کے لئے مقررہ کرائے پر کتاب حاصل کرکے بآسانی پڑھی جاسکتی تهی۔ ایک ہی سرکاری ٹی وی چینل تها جس پر آنے والے خبر نامہ یا معلومات عامہ کے پروگراموں کو جھوٹ کا پلندہ  اور سرکاری پروپیگنڈہ سمجھا جاتا تھا۔  اس وقت میڈیا آزاد نہیں ہوا تھا لہٰذا 24/7 بے مقصد، بیہودہ اور خرافات میں اچھی طرح لپیٹا ہوا وہی سرکاری اور ریاستی پروپیگنڈہ سننے کی آزادی بھی عوام کو حاصل نہیں ہوئی تھی۔

اس دور کی ایک پوری نسل ہے جو داستانِ امیر حمزہ نامی خیالی کہانی کو پڑھ کر جوان ہوئی۔ کئی سو سال پہلے لکهے اس فارسی قصے کا مرکزی کردار ایک تاریخی شخصیت سے ماخوذ ہے۔ آج کے دور میں اگر یہ کہانی لکھی جاتی تو اس کا مصنف اور ناشر کب کے واصل جہنم کئے جا چکے ہوتے۔

کہانی کے مطابق مرکزی ہیرو ایک طرف مردانہ وجاہت سے مالا مال ہیں تو دوسری طرف شجاعت اور بہادری میں بھی خوب کمال ہیں۔ دوست داری، جانثاری اور وفا شعاری کی اعلیٰ مثال ہیں۔ شوخ و شنگ حسینانِ کوہ قاف و افرنگ خود ہی ان پر واری و قربان جاتی ہیں جو ذرا نخرہ دکهاتی ہیں مثلاً  ایران کے بادشاہ نوشیروان کی شہزادی مہرنگار،ان پر یہ خود ہی ہزار جان سے عاشق ہو جاتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ان کی دو دھاری تلوار صرف معاملات عشق سلجھانے ہی کے لئے نہیں چلتی\"hamza01\" بلکہ کفار کی سرکوبی اور غلبہ اسلام ِکے لئے بھی برابر اٹھتی ہے۔ دوستوں کی بے تکلف محافل میں صراحیوں میں بهری شراب بلوریں جاموں میں بار بار چهلکتی ہے۔

ان کے سب سے قریبی دوست عمرو عیار مکار، جهوٹے، دهوکہ باز، چور، لالچی، قاتل، رہزن، بہروپیے اور پرلے درجے کے بدنیت واقع ہوئے ہیں لیکن اکثر لشکر مومنین کی جان بخشی اور گلوخلاصی بهی وہی کراتے ہیں۔  کہانی میں ان کا کردار اگر امیر حمزہ سے زیادہ نہیں تو کم بهی نہیں۔ کم عمر قارئین کی اکثریت خود بخود ان کی عقیدت مند ہوجاتی ہے اور بڑے ہو کر انہی جیسا بننے کے خواب دیکهنے لگتی ہے۔

نوشیرواں بادشاہ اپنی لختِ جگر، نور نظر مہر نگار کو ہمارے ہیرو سے بیاه تو دیتا ہے لیکن مسلسل اپنے داماد کو مروا کر بیٹی کو کم سنی میں بیوگی کا داغ  لگانے اور کسی دوسرے طلبگار سے بیاہنے کی سازشوں میں بهی مصروف رہتا ہے۔ وزیراعظم بزرجمہر علم حکمت، جادو، رد جادو، دلوں کے حال اور ستاروں کی چال پر زبردست دسترس رکھتے ہیں، دانشمندی اور معاملہ فہمی کا مرقع ہیں۔ خود ایرانی ہونے کے باوجود اپنے آقا یعنی شہنشاہ ایران نوشیروان سے زیادہ عربی امیر حمزہ کے وفادار ہیں اور بادشاہ کی تمام سازشوں کا بروقت  توڑ کرتے رہتے ہیں۔ ایک آدھ مقام پر تو خود نازک اندام اور معصوم ادا  مہرنگار اپنے شوہر کی جان کے درپے نظر آتی ہے۔ خود دولہا میاں بهی رومان کی جال میں مزید  مچھلیاں پھانسنے سے باز نہیں آتے۔ کہیں کہیں جب کہانی انتہائی مشکل مقامات پر پھنستی  ہے تو اچانک غیب سے سبز پوش خواجہ خضر علیہ السلام نمودار ہوتے ہیں اور ہمارے ہیرو کا ہاتھ پکڑ کر اسے پکی سڑک تک پہنچا آتے ہیں۔
\"hamzah\"
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ذہن کے مقفل تہہ خانوں پر جہاں خود ہماری اپنی رسائی  بهی نہیں، اس خیالی داستان کے بھوت  کا سایہ ہے۔ ایک طرف تو ہمیں یہ جیتی جاگتی دنیا ہی طلسم ہوشربا لگتی ہے اوپر سے  اپنے ہر ہیرو  کو بھی ہم دیوتا سے کم  ماننے پر تیار نہیں۔ اس کی شخصیت کے ہر تضاد، کهلی منافقت، دروغ گوئی، عیش و عشرت پسندی، پیشہ ور عاشق مزاجی، ہرجائی پن وغیرہ وغیرہ سے والہانہ پیار کرتے ہیں بلکہ جنون کی حد تک چاہتے ہیں کہ  تمام دوست احباب بهی اس افسانوی کردار کی بد کرداری نظر انداز کرکے صدق دل سے ایمان لے آئیں۔

پاکستانی سیاست میں جب دھرنوں کا موسم آتا ہے تو لگتا ہے کہ داستان امیر حمزہ کے تمام کرداروں میں جان پڑ گئی ہے اور وہ اپنی ساری خصوصیات کے ساتھ میدان میں اتر آئے ہیں۔ آپ میں سے جنہیں اب یہ کہانی یاد نہیں وہ بھی تھوڑی سی کوشش کرکے سمجھ جائیں گے کہ کون سا کردار کہاں مصروف عمل ہے۔ بس ایک دھڑکا سا دل کو یہ لگا رہتا ہے کہ کہیں کہانی اتنی نہ الجھ جائے کہ خواجہ خضر بھی قصے کو وہاں سے جوڑ نہ پائیں جہاں سے اسے توڑا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments