آزادکشمیر: بجٹ کے 80 فیصد انتظامی اخراجات بھی عوام کے لئے کارگر نہ ہوسکے


آزاد کشمیر میں ایک عرصے سے بے چینی پائی جاتی ہے جس کا اظہار وقتا فوقتا ہوتا رہتا ہے۔ 5 اگست کو ہندوستان کی جانب سے ریاست کی شناخت پر حملے کے بعد آزاد کشمیر میں اس بے چینی میں شدت نظر آئی۔ اس بے چینی کی وجہ کو جاننے کی کوشش کی جائے تو بے شمار وجوہات سامنے آتی ہیں۔ جن میں اہم وجہ کشمیر کا مستقبل یعنی شناخت کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال ہے اس کے ساتھ دوسری اہم ترین وجہ بیڈگورننس ہے۔ یعنی ریاست کے بجٹ کا 80 فیصد عوام کو سہولیات بہم پہنچانے کے لئے تعینات مختلف شعبہ جات کے افسران و ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہونے کے باوجود کہیں بھی عوام کی شنوائی نہیں ہو پارہی ہے۔ انفراسٹرکچر کی تعمیر، صنعت کاری اور دیگر پیداواری شعبہ پر ریاستی سطح پر نہ تو بجٹ مختص ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ جب عوام کو بنیادی سہولیات بہم پہنچانے میں ریاست ناکام ہوتی ہے تو پھر اس کے خلاف رد عمل کا اظہار شناخت کے عدم تحفظ کی صورت ہوتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کمپنی یا ادارے کا 35 فیصد سے زائدبجٹ اگر اس کے انتظامی امور پر خرچ کیا جائے تو وہ ادارہ ناکام تصور کیا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر اگر آزاد ریاست جموں کشمیر کو دیکھیں تو اس کی حیثیت ایک دیوالیہ ریاست کی ہو گی کیونکہ اس کے بجٹ کا 80 فیصد حصہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی نذر ہو جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق آزاد حکومت کی حیثیت ایک لوکل اتھارٹی کی ہے جس کا کام یہاں کے بنیادی معاملات کو دیکھنا ہے لیکن اس لوکل اتھارٹی نے سب اتھارٹی قائم کر کے اپنے اور نوکر شاہی (بیوروکریسی) کی عیاشیوں کا ساماں کیا ہے۔ 5134 مربع میل رقبے اور 42 لاکھ کی آبادی پر مشتمل خطے کو انتظامی بنیادوں پر دس اضلاع میں تقسیم کر کے ایک طبقے کو نوازنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ 1947 میں جب کشمیر کی تقسیم ہوئی تو ریاست کا یہ حصہ سوا دو اضلاع پر مشتمل تھا جس کے آج دس اضلاع ہیں اور یہ اضلاع انتظامی ضروریات کو پورا کرنے نہیں بلکہ سیاسی خانوادوں کی خواہشات پر بنائے گئے ہیں اور خواہشات کی تکمیل اس خطے کے لئے تباہ کن صورت اختیار کر چکی ہے۔

علاقے کے انفراسٹریکچر کی بہتری اور کمیونیکیشن کومضبوط کرنے کے بجائے ترقی اور حقوق کے نام پر عوام کے ٹیکسز پر نوکر شاہی کی ایک فوج ان پرمسلط کر دی گئی۔ ایک خطہ جس کے انتظامات کے لئے ایک کمشنر کافی تھا وہاں ایک لمبی چوڑی حکومت اور وسیع نوکرشاہی (بیوروکریسی) مسلط کی جا چکی ہے، جوخطے کے لئے کسی طور سود مند نہیں ہے۔

2019 میں اعداد و شمار کے مطابق آزاد کشمیر میں سرکاری ملازمین کی تعداد 86 ہزار کے لگ بھگ ہے جن میں تقریبا 17 ہزار افسران بھی شامل ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد شعبہ تعلیم میں کام کرنے والوں کی ہے، جو 41 ہزار ہے اور شعبہ تعلیم پر ریاست کے کل بجٹ کا تقریبا 26 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ اس کے تعداد کے اعتبار سے محکمہ صحت میں ملازمین کی تعداد زیادہ ہے جو تقریبا 10 ہزار دو سو ہے اور اس شعبہ میں 2304 ملازمین سولہویں سکیل سے اوپر کے ہیں۔ تیسرے نمبر پر پولیس کے ملازمین کی تعداد ہے جو تقریبا دس ہزار ہے اس میں 300 افسران بھی شامل ہیں، بورڈ آف ریونیو کے ملازمین کی تعداد 1620 جبکہ عدلیہ سے متعلق ملازمین کی تعداد 1500 کے لگ بھگ ہے۔ تعلیم کے بعد ریاست کے بجٹ کا دوسرا بڑا حصہ پنشن کی مد میں خرچ ہوتا ہے جو کل بجٹ کا 17 فیصد بنتا ہے۔

آزاد کشمیر کا موازنہ پاکستان کے نظام سے کیا جائے تو یہ خطہ پنجاب کے ایک ضلع راولپنڈی کے برابر ہے۔ گو کہ راولپنڈی ضلع کا رقبہ کم ہے تاہم آبادی کے اعتبار سے یہ آزاد کشمیر سے خاصا بڑا ہے اس بنیاد پر دیکھا جائے تو آزاد کشمیر میں انتظامی بنیادوں کے بجائے سیاسی بنیادوں پر کی گئی اضلاع کی تقسیم سے انتظامی ڈھانچہ بے ڈھنگ ہو چکا ہے۔ 5134 مربع میل کے رقبے پر محیط آزاد کشمیر کی آبادی تقریبا 42 لاکھ ہے۔ اسے انتظامی طور پر تین ڈویژنز، دس اضلاع، 32 تحصیلوں، 189 یونین کونسلز پر تقسیم کیا گیا ہے۔

اس کے نظام کو چلانے کے لئے 29 نمائندے (جن کی تعداد آئندہ انتخابات کے بعد 33 ہو جائے گی) قانون ساز اسمبلی کے لئے منتخب کیے جاتے ہیں جبکہ انتظامی امور نمٹانے کے لئے چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹریز اور سیکرٹریز کی ایک فوج تعینات ہے، اس کے ساتھ انسپکٹر جنرل پولیس، ڈی آئی جیز، ایس ایس پیز، ایس پیز اور انسپکٹروں سمیت 48 پولیس اسٹینشز میں پولیس افسران کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اسی طرح کمشنرز، ایڈیشنل کمشنرز، درجنوں ڈپٹی کمشنرز، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز، تحصیلدار و نائب تحصیلدار اور ضلعی عدلیہ میں موجود سینکڑوں کی تعداد میں ججز اس چھوٹے سے خطے کو چلانے کے لئے تعینات ہیں جبکہ ایڈیشنل سیکرٹریز اور ڈپٹی کمشنرز لیول کی ایک بڑی تعداد صرف تنخواہیں لینے کے لئے بھی موجود ہے اور ان کی تنخواہوں کی مد میں ماہانہ اربوں روپے جاتے ہیں جبکہ ضلع راولپنڈی 5,286 مربع کلومیٹر کے رقبے پر 59 لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے۔ اس میں قومی اسمبلی کے سات حلقے جبکہ صوبائی اسمبلی کے 14 حلقے اور ایک سو بیس یونین کونسلز ہیں جبکہ اس کا انتظام چلانے کے لئے ایک ڈی سی او، ایک آر پی او اور تین ایس پیز اور ضلعی عدلیہ موجود ہیں۔

آزاد کشمیر کی بیالیس لاکھ آبادی پر دس اضلاع بنائے گئے ہیں۔ یہ علاقہ تقسیم کے وقت محض سوا دو اضلاع پر مشتمل تھا، جو اب دس اضلاع بن چکے ہیں۔ ضلع میرپور سے تین اضلاع، آدھے ضلع پونچھ سے چار اضلاع جبکہ پونے ضلع مظفرآباد سے بھی چار اضلاع بنائے گئے ہیں۔

اس سب کے باوجود نہ تو پولیس تھانوں میں عوام کو جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے سہولیات بہم پہنچائی جا سکی ہیں، نہ ہی انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکی، نہ زمینوں کے تنازعات، تقسیم، اندراج و نقول وغیرہ کے مسائل حل ہو سکے ہیں۔ اسی طرح انتظامی نوعیت کے دیگر مسائل مہینوں سرکاری دفاتر کے چکر لگانے کے باوجود حل کیے جانا محال ہے، یہاں تک کہ ڈومیسائل کے حصول کے لئے جو عمل کیا جاتا ہے اس پر بھی کئی دن اور بعض اوقات کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔

مختلف تنازعات سے متعلق مقدمات سالوں عدالتوں میں تاریخ در تاریخ کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ پانی، بجلی کا کنکشن حاصل کرنے کے لئے ہزاروں روپے رشوت دینے کے باوجود مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ یہ تمام سہولیات مختلف محکمہ جات میں فائلوں پر دستی کام کے بوسیدہ طریقہ کار کی وجہ سے رشوت، کرپشن اور فائلوں کو مہینوں لٹکائے رکھنے کا سلسلہ عام ہے۔ اسی کام کو کمپیوٹرائزڈ کر کے ون ونڈو آپریشن کے تحت تیز اور آسان کیا جا سکتا ہے، اس عمل کی مانیٹرنگ بھی کی جا سکتی ہے، آن لائن شکایات کے اندراج اور اظہار کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اقدام نہ صرف نوکر شاہی کی عیاشیوں کے خاتمے کا باعث بنے گا بلکہ بجٹ کا ایک بڑ ا حصہ اس سے بچایا جا سکتا ہے جو عوامی فلاح کے دیگر منصوبہ جات پر صرف کیا جا سکتا ہے۔

سرکاری تعلیمی اداروں میں ہزاروں اساتذہ کی موجودگی کے باوجود کئی ایسے سکول ہیں جن میں اساتذہ کی تعداد طلبہ سے زیادہ ہے۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اورعملہ کی موجودگی کے باوجود صحت کی سہولیات کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ جبکہ اسی ریاست میں سرکاری اساتذہ، ڈاکٹرز کے نجی سکول اور ہسپتال کھمبیوں کی طرح اگ رہے ہیں۔ ان نجی تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کے مالکان کی سیاسی اشرافیہ کو سیاسی حمایت اور افسر شاہی پر مال و دولت نچھاور کرنے کا عمل پھر سرکاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں و بنیادی مراکز صحت کے انحطاط کا موجب بنتا ہے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ آزادکشمیر کی انتظامی تقسیم مقبوضہ کشمیر کو سامنے رکھتے ہوئے کی گئی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ رائے بھی موجود ہے کہ انتظامی تقسیم کے حوالے سے عوامی حلقوں میں مطالبات بھی موجود تھے، جو دراصل سیاسی اشرافیہ کے مطالبات تھے جن کی بنیاد پر مستقبل میں حلقہ جات کی تقسیم اوراس سے حاصل ہونے والے سیاسی مفادات پوشیدہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک چھوٹے سے خطے کی انتظامیہ بنیادوں پر دس اضلاع میں تقسیم اور عوام کو سہولیات بہم پہنچانے کے لئے بجٹ کا 80 فیصد انتظامیہ نوعیت کے اخراجات پر خرچ کرنے کے باوجود عوام کا ایک بنیادی مسئلہ بھی حل نہیں کیا جا سکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ نوعیت کے ان بھاری بھرکم اخراجات کے باوجود جب عوامی مسائل حل نہیں کیے جاتے، بیروزگاری، جہالت اور لاعلاجی کے تدارک کے لئے کوئی سنجیدہ منصوبہ بندی نہیں کی جاتی تو پھر اس کے خلاف اٹھنے والا رد عمل اپنے پہلے اظہار میں شناخت کے عدم تحفظ کی صورت میں ہوتا ہے۔

آزادکشمیر کے عام شہریوں کا خیال ہے کہ آزاد حکومت کو گورننس پر توجہ دینی چاہیے، بجٹ کو ایڈمنسٹریشن کی تنخواہوں کے بجائے ڈیویلپمنٹ اور کمیونیکیشن کی بہتری پر خرچ ہوناچاہیے تاکہ مرکز سے رابطے مضبوط ہوں اور سیاسی لوگوں کو سہولت دینے کے بجائے عوام کو سہولت دینے کے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کے لئے مثالی بھی اسی صورت بنایا جا سکتا ہے کہ اس خطے کے لوگوں کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے جدید ٹیکنالوجی سے لیس انتظامی مشینری کی تقرری، انتظامی اخراجات میں کمی، سیاحت، زراعت اور پیداواری شعبہ میں سرمایہ کاری کو بڑھاتے ہوئے روزگار کی فراہمی، تعلیم اور صحت کے نظام کو جدید خطوط کے استوار کیا جائے۔

اس سب کے لئے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کے لئے بنیادی جمہوری اداروں کو پروان چڑھانے کے لئے اقدامات سر فہرست ہیں تاکہ منتخب ہونے والے قانون سازوں کو ترقیاتی بجٹ فراہم کیے جانے، بلدیاتی نمائندوں کا کام کرنے کی ذمہ داریاں تفویض کیے جانے کا سلسلہ ترک کیا جائے، ان کے مالیاتی مفادات کو قانون سازی میں حائل ہونے کے عوامل کا تدارک کیا جائے تاکہ وہ صرف اور صرف قانون سازی کے پروگرام کی بنیاد پر عوام سے ووٹ حاصل کر کے بہتر بنیادوں پر قانون سازی کے اقدامات کریں اور بلدیاتی نمائندگان منتخب ہوکر ترقیاتی بجٹ کو خرچ کرنے کے لئے اپنی اپنی وارڈز میں منصفانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کے عمل میں شریک ہو سکیں۔ ان تمام عوامل سے نوکر شاہی اور سیاسی اشرافیہ کے مابین مالیاتی تال میل کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا جس کی وجہ سے انتظامیہ اخراجات کا حجم بڑھ کر 80 فیصد ہو چکا ہے۔ دوسرے معنوں میں بیس فیصد بجٹ کو خرچ کرنے اقدامات کے لئے 80 فیصد بجٹ خرچ کیا جا رہا ہے۔

آزاد حکومت کو چاہیے کہ ریاست کی بہتری کے لئے کچھ بڑے اقدامات اٹھائے جائیں۔ اضلاع اور انتظامیہ کو کم کر کے انفراسٹریکچر بالخصوص شاہرات پر توجہ دی جائے تاکہ سفری مشکلات ختم ہو سکیں۔ وقتی طور پر شاید یہ اقدام حکومت کے لئے سیاسی طور پر اچھا نہ جانا جائے تاہم ریاست کے اس حصے کے مستقبل کے لئے انتہائی ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments