مادری زبانوں کا عالمی دن: ‘پنجابی زبان کا ٹیلنٹ اردو کھا گئی’


پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں مختلف لہجوں میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد 70 سے زائد ہے۔ بیشتر اہلِ زبان کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ اُن کی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے۔

سوشل میڈیا پر چند دن پہلے ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں بظاہر یوں لگتا تھا کہ ایک خاتون اس بات پر سیخ پا ہیں کہ اُن سے ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر نے پنجابی زبان میں بات کر دی ہے اور اُنہیں یہ بدتہذیبی معلوم ہوئی ہے۔

اس واقعے پر پچھلے چند دن بہت لے دے ہوئی اور اس معاشرتی رویے پر کافی بحث ہوئی کہ پنجابی زبان میں گفتگو کرنے کو بدتہذیبی پر محمول کیا جاتا ہے۔

چند برس پہلے بیکن ہاؤس اسکول سسٹم کے ساہیوال کے بوائز کیمپس کا ایک نوٹس بھی وائرل ہوا تھا جس میں بچوں کو فاؤل لینگویج یا گندی زبان استعمال کرنے کی ممانعت کی گئی تھی۔ گندی زبان کی وضاحت میں پنجابی درج تھی۔

پنجابی زبان میں گفتگو کیوں معیوب سمجھی جاتی ہے؟

مورخ اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ پنجابی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر سعید بھٹہ کہتے ہیں کہ پرانے نظام میں پرائمری کی تعلیم مادری زبان اور فارسی میں دی جاتی تھی لیکن انگریزوں نے پنجاب پر قبضے کے بعد پنجابی کی جگہ اردو لاگو کر دی تھی۔

اُن کے مطابق انگریزوں نے دیگر تمام صوبوں کو تو پرائمری تعلیم مادری زبان میں دینے کا حق دیا مگر پنجاب کو اس حق سے محروم رکھا اور یہاں اردو کو جاری رکھا گیا۔

“اس کے علاوہ یہ مغالطہ بھی عام ہو گیا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے، ہندی ہندوؤں کی اور پنجابی سکھوں کی زبان ہے۔”

اُن کا مزید کہنا تھا کہ تقسیم کے بعد بھی یہی پالیسی جاری رہی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانچ نسلوں سے پنجاب کے مسلمانوں کو ان کی مادری زبان سے دور رکھا گیا ہے اور اُنہیں یہ احساس دلایا گیا ہے کہ آپ کی زبان گھٹیا ہے۔

نمل یونیورسٹی میں انگریزی لٹریچر کی لیکچرار اور پنجابی زبان کی ترویج کرنے میں مصروف تنظیم ‘پنجابی لوک سنگت’ کی رکن رمشا اشرف نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب بڑا صوبہ تھا تو یہاں پر اردو پر زور دیا گیا۔ اردو اور انگریزی کو اوپری طبقے کا نشان بنا دیا گیا اور جو دبا ہوا طبقہ تھا، وہ پنجابی تو بول رہا تھا مگر جڑوں سے دور ہونے کی وجہ سے اس میں احساس کمتری پیدا ہو گئی۔

ان کے بقول، “آپ کے پاس ایک پوری کلاسیکل روایت آ رہی تھی، جو پیار کی، امن کی بات کرتی تھی، قابض نوآبادیاتی آقاؤں کے خلاف بات کرتی تھی۔ اس سب کو لوگوں سے دور کیا گیا۔”

رمشا اشرف نے کہا کہ وہ لوگ ‘ماں بولی دیہاڑ’ کے لیے ایک ریلی نکال رہے ہیں۔ پنجاب میں چونکہ پنجابی نہیں پڑھائی جاتی تو ہمارا ایک مطالبہ یہ ہے کہ پنجابی پڑھائی جائے، جو پنجابی کے گریجوئیٹس نکل رہے ہیں انہیں نوکریاں دی جائیں۔

پروفیسر سعید بھٹہ نے بھی پنجابی کے پرائمری سطح تک نفاذ کو ضروری قرار دیا۔ اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لیے ایک ہی قدم ان کے خیال میں ضروری ہے اور وہ پرائمری سطح پر مادری زبان کا نفاذ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس اقدام کے بعد بیس سے بچیس سال میں صورت حال تبدیل ہو جائے گی۔

ان کے بقول سائنس اور ٹیکنالوجی کو مشرقی پنجاب میں جب پنجابی سے کوئی خطرہ نہیں ہے تو پاکستان میں ایسا کیونکر ہو گا؟

‘‘یہ سب رکاوٹیں پیدا کرنے والی باتیں ہیں کہ ہم نفسیات، سوشل سائنسس وغیرہ کہاں سے لائیں گے۔ اس کے لیے ادارے بنانے پڑیں گے۔ فزکس کی کتاب کسی سائنسدان نے نہیں لکھنی، وہ فزکس کے پروفیسر نے لکھنی ہے۔ جب پنجابی پڑھائی جائے گی، اور اس میں فزکس کی کتابیں لکھی جائیں گی تو بہت اچھی کتابیں نکلیں گی۔’’

سعید بھٹہ کے مطابق پنجابی کا مسئلہ روزگار کا ہے۔ اس میں چند برسوں بعد کوئی 15 سے 20 اسامیاں نکلتی ہیں۔ پچاس کے عشرے سے اگرچہ پنجابی اختیاری منظور ہو چکی ہے مگر اسکولوں میں استاد بھرتی نہیں کیے جاتے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ بیورو کریٹک طریقے ہیں جن کے ذریعے پنجابی کو پیچھے دھکیلا جاتا ہے۔ اگر اسکولوں میں پنجابی کا لازمی مضمون ہو تو لاکھوں نوکریاں نکل سکتی ہیں۔

ادب کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب میں بہت اچھا لکھا گیا مگر پنجابی کا ٹیلنٹ بہت حد تک اردو کھا گئی۔

جب اکیڈیمک سطح تک پنجابی پڑھائی ہی نہیں جائے گی تو لوگ تو یہ سمجھیں گے کہ یہ ہماری زبان ہی نہیں ہے۔ اسی خطے میں فیض، راشد، میرا جی، منٹو پیدا ہوئے، ‘‘پنجاب میں پوری لاٹ پیدا ہوئی۔’’

انہوں نے دعویٰ کیا کہ “پنجابی برصغیر کی تمام زبانوں سے زیادہ زرخیز ہے۔ ہمارا جو کلاسیکل ادب ہے، مذہبی ہو یا رومانٹک ادب ہے، بابا فرید سے لے کر انیسویں صدی تک کا پنجابی کا ادب دنیا کے کسی بھی ادب کے ساتھ مقابلہ کر سکتا ہے۔ جب پنجابی کی جگہ اردو لاگو کر دی اور جو تباہی آئی اس کی وجہ سے، صرف اس کی بات کی جاتی ہے۔‘‘

رمشا اشرف نے کلاسیکل پنجابی ادب کی فکر کو عام لوگوں تک پہنچانے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘یہ درست ہے کہ عام آدمی پنجابی میں بات کر رہا ہے۔ پنجابی بولی جا رہی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ کیا جو پنجابی سوچ اور فکر کے دھارے تھے، کیا وہ بھی آپ تک پہنچ رہے ہیں؟’’

‘‘بابا گورونانک، بلھے شاہ، ہیر وارث شاہ سے لے کر اب بھی جو پنجابی لکھ رہے ہیں، ان کی کوئی پڑھت ہی نہیں ہے۔’’

رمشا کے مطابق پنجاب کی جو شناخت ہے، اس میں سے زبان کا خانہ خالی ہے۔ مذہبی تعصب جو آج آپ دیکھ رہے ہیں، ان لوگوں نے اسے ختم کرنے کی بات کی۔ بلھے شاہ کی شاہ عنایت کے بارے میں کہانیاں مشہور ہیں۔ اس سے سے لاعلمی کی وجہ زبان سے ناآشنائی ہے۔

رمشا اشرف کہتی ہیں مادری زبان کی خلیج کو ہمیں کبھی نہ کبھی تو عبور کرنا پڑے گا۔ آج نہ کریں مگر کبھی تو کرنا پڑے گا۔ تو جب کرنا ہی ہے تو تھوڑا سا پہلے کر لیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments