اپوزیشن عوام کی نظروں میں مذاق بنتی جا رہی ہے


اپوزیشن جماعتیں عجیب مخمصے کا شکار ہیں، حکومت کو گرانے کو دل بہت کرتا ہے لیکن بوجوہ ہمت نہیں پڑتی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں ماہ مارچ میں تحریک چلانے کے عزم کا اظہار کر رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن تو پہلے ہی کمربستہ ہیں لیکن اس کے باوجود زمینی حقائق اور اپوزیشن جماعتوں کے آپس کے تعلقات کار اس نوعیت کے ہیں کہ فی الحال ا ن کا ایک سٹیج پر اکٹھے ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے حالیہ دورہ لاہور میں دل کی باتیں کہہ دیں۔

وہ فرماتے ہیں کہ اگر بس چلے تو ابھی حکومت گرادوں لیکن میں جمہوری اور قانونی طریقے سے حکومت کو چلتا کروں گا، اس لیے ہم کسی غیر آئینی ’غیر جمہوری سازش میں شریک نہیں ہوں گے۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں کو متنبہ کیا کہ وہ اب بھی میدان میں نہ نکلیں تو وہ عوام کی نظروں میں گر جائیں گی، انہیں مریم نواز کی خاموشی کا بھی گلہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے شہبازشریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بطور پارٹی صدر اور اپوزیشن لیڈر وطن واپس آ کر اپنا کردار ادا کریں۔

بلاول نے بڑا اچھا سوال کیا کہ ان سے یہ کیوں پوچھا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول ہیں کہ نہیں، میرے لیے معیار یہ ہے کہ عوام کے لیے قابل قبول ہوں یا نہیں۔ انہوں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا مولانا فضل الرحمن کے ساتھ جاؤں تب اعتراض نہ جاؤں تب اعتراض۔ بلاول بھٹو کو کھل کر اپنی مجبوریاں بیان کرنی چاہئیں کیونکہ اپوزیشن کے مجموعی طور پر نیم دروں نیم بروں روئیے سے عوام کی نظروں میں وہ مذاق بنتی جا رہی ہے۔

بلاول بھٹو تو پھر بھی بنیادی معاملات پر آواز اٹھا رہے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف بھائی جان کے علاج معالجے کے لیے کافی عرصے سے لندن بیٹھے ہیں۔ وہ لندن کی بانڈ سٹریٹ سے نئے نئے سوٹ اور ہیٹ پہن کر وقتاً فوقتاً پریس کانفرنسز کر کے اپنی جان چھڑا لیتے ہیں اور یہاں مریم نواز ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے اپنا نام نکلوا کر لندن پدھارنے کے لیے سامان باندھے بیٹھی ہیں۔ اب کئی ماہ سے انہوں نے اپنے منہ پر زپ لگائی ہوئی ہے وہ تنقیدی تو کیا کوئی رسمی بیان بھی نہیں دیتیں۔

جی ہاں! یہ وہی مریم نواز ہیں جنہوں نے اپنی ریلیوں اور میڈیا ٹاکس کے ذریعے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ وہ اسٹیبلشمنٹ اور خان صاحب کی کڑی ناقد تھیں جس سے حکومت بوکھلا کر ان پر پابندی لگانے پر مجبور ہو گئی تھی لیکن اب حال یہ ہے کہ باپ بیٹی اور برادر خورد کی کیفیت ہر چند ہے کہ نہیں ہے کے مترادف ہے۔ شہباز شریف لندن میں بیٹھ کر وقتاً فوقتاً ”عمران خان نیازی“ کی ناقص حکمت عملی اور عوام کو درپیش مسائل پر بات کرتے رہتے ہیں لیکن بعض بنیادی اور کلیدی معاملات پر لب کشائی کرنے سے قطعاً گریزاں ہیں۔

میڈیا والے جب مسلم لیگ (ن) کے مقامی رہنماؤں سے پوچھتے ہیں کہ شہبازشریف کب واپس آئیں گے تو وہ آئیں بائیں شائیں کر کے محض یہ کہتے ہیں کہ جلد آ جائیں گے۔ ان بیچاروں کی مجبوری یہ ہے کہ انہیں خود پتہ نہیں کہ موصوف کب آئیں گے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ شریف فیملی اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہے اور وہ جو شیر تھے اب شیر قالین بن چکے ہیں۔ شہبازشریف کی مدافعت میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے اپنی ”پرواسٹیبلشمنٹ“ لائن کبھی نہیں چھپائی۔

جب میاں نواز شریف جی ٹی روڈ پر ’مجھے کیوں نکالا‘ کا نعرہ مستانہ بلند کر رہے تھے اور ان کی صاحبزادی الفاظ کی گولہ باری کر رہی تھیں، شہبازشریف اس وقت بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ وہ اس بات کے انتظار میں ہیں اقتدار کا ہما کب ان کے سر پر بیٹھے گا۔ سروسز ایکٹ کے حوالے سے بل کی منظوری کے لیے دونوں پارٹیوں نے غیر مشروط حمایت کی لیکن پیپلزپارٹی کا یہ گلہ جائزہے کہ مسلم لیگ (ن) اس ضمن میں نمبر ٹانکنے کے لیے اتنی کوشاں تھی کہ اس نے باقی اپوزیشن کو اعتماد میں لینے یا اس حوالے سے نام نہاد رہبر کمیٹی کا اجلاس بلانے کا بھی تکلف نہیں کیا۔

ویسے تو پیپلزپارٹی بھی اس حوالے سے سجدہ سہو کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی لیکن اس نے اس مجوزہ ایکٹ میں کچھ ترامیم بھی تجویز کی تھیں جو بعدازاں واپس لے لی گئیں۔ دیکھا جائے تو تمام تر شور و غوغا کے باوجود عوامی تاثر یہی ہے کہ اپوزیشن کی یہ دونوں بڑی جماعتیں اپنی جملہ مجبوریوں کی بنا پر ”اچھا بچہ“ بنی ہوئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آصف زرداری جیل کے بجائے ہسپتال بیٹھے ہیں اور سیاسی معاملات پر قطعاً لب کشائی نہیں کر رہے یا نواز شریف بھی جیل کے بجائے بغرض علاج ملک سے باہر ہیں، یہ کسی باقاعدہ ڈیل یا انڈر سٹینڈنگ کا ہی نتیجہ ہے۔

وہ لاکھ کہیں کہ ہمیں تو عدالتوں سے ریلیف ملا لیکن اگر آج سروے کیا جائے تو اس میں حصہ لینے والے نوے فیصد افراد یہی کہیں گے یہ سب کچھ کسی سودے بازی کا ہی نتیجہ ہے۔ اپوزیشن کے اکثر رہنما یہ بھی فرماتے ہیں کہ حکومت اتنی نالائق اور نا اہل ہے کہ یہ اپنے ہی بوجھ سے گر جائے گی۔ غالباً اپوزیشن کو یہ ادراک ہے کہ جلد یا بدیر سیاسی حالات کے علاوہ اقتصادی صورتحال اور گورننس کے معاملات بھی اتنے خراب ہو جائیں گے کہ خان صاحب کے مربی ان کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لیں گے جس کا ایک ٹریلر حال ہی میں چودھری برادران کا علم بغاوت بلند کرنا تھا۔

ادھر ایم کیو ایم، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور حتیٰ کہ بلوچستان کی حکمران جماعت کی ناراضگی کی صورت میں دیکھا جا چکا ہے۔ بات خاصی آ گے بڑھانے کے بعد چودھری پرویز الٰہی بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے لیکن چودھری شجاعت حسین نے عمرہ کے بعد وطن واپسی سے پہلے جدہ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اپنی صفوں میں منافقوں کو ڈھونڈ کر انہیں نزدیک نہ آنے دیں۔ چاپلوسوں اور چغل خوروں سے دور رہیں۔ چودھری شجاعت حسین جو اپنے مخصوص انداز میں سب کچھ کہہ جاتے ہیں انکشاف کیا کہ انہوں نے نواز شریف کوبھی یہی مشورے دیے تھے جوانہوں نے نہیں مانے۔

مسلم لیگ (ق) کے سربراہ کے اس بیان سے واضح ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ اب بھی اعتماد کا فقدان ہے اور حالیہ ”صلح“ محض سیز فائر ہے۔ شہباز شریف ان ہاؤس تبدیلی کی بات کرتے رہتے ہیں لیکن کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اگر ایسی تبدیلی آئی بھی تو اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ دونوں اپوزیشن سیاسی جماعتیں فضل الرحمن کو منانے کے لیے بظاہر کوشاں ہیں۔ حال ہی میں سابق سپیکر ایاز صادق کی مولانا سے ملاقات بھی ہوئی ہے لیکن پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک طرف جبکہ مولانا کی طرف واضح فرق موجود ہے۔ دونوں سیاسی جماعتیں کسی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گی، زیادہ سے زیادہ اس بات پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے کہ اکٹھے یا الگ جلسے اور ریلیاں کریں اور یہی ورد کرتے رہیں کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments