یوتھینیزیا: مردہ جسم پر زندہ سر


یہ 23 اگست 1968 کی بات ہے۔ بحری جہازوں پر کام کرنے والے 25 سالہ نوجوان رامون سمپدرو نے شمالی اسپین میں واقع اپنے ساحلی گاؤں میں ایک چٹان سے سمندر میں چھلانگ لگائی۔ پانی کی گہرائی سمجھنے میں غلطی ہوئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا سر سمندر کے فرش سے ٹکرایا۔ چوٹ ایسی تھی کہ اس کا پورا کا پورا دھڑ مفلوج ہو کر رہ گیا۔ اس حادثہ کے بعد سمپدرو 29 برس اس حالت میں زندہ رہا کہ ایک مفلوج دھڑ پر اس کا زندہ سر دھرا ہوا تھا۔

یہ پورے 29 برس سمپدرو نے موت کا حق پانے کی جد و جہد کے نام کر دیے۔ اسپین کی ذیلی عدالت سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک اس نے درخواستیں دیں کہ اسے قانونی طریقے سے اپنی زندگی ختم کرنے کی اجازت دی جائے لیکن کہیں سے اجازت نہیں ملی۔ اس نے حقوق انسانی سے متعلق یورپی کمیشن کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا لیکن نامراد رہا۔ جن لوگوں نے موت کی اجازت پانے کی اس جد و جہد کو سنا وہ سوچنے لگے کہ اگر اس شخص کو مرنا ہی ہے تو عدالتوں کا وقت کیوں ضائع کر رہا ہے، خودکشی کرکے قصہ ختم کیوں نہیں کرتا؟ وہ لوگ اس سے واقف نہ تھے کہ مفلوج جسم رکھنے کی وجہہ سے وہ خودکشی کے لئے کسی اور کی مدد کا محتاج تھا۔ اسپین کی عدالتوں سے نکل کر یہ قصہ دنیا بھر میں پہنچ گیا اور موت کے حق پر بحث کا سلسلہ چل نکلا۔

12 جنوری 1998 کو سمپدرو نے پوٹیشیئم سائنائڈ کھاکر جان دے دی۔ کچھ دنوں بعد ان کی قریبی دوست رامونا منیرو کو خودکشی میں مدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ حالانکہ شواہد نہ ہونے کی وجہ سے انہیں چھوڑ دیا گیا۔ کافی عرصے بعد اس خاتون نے اعتراف کیا کہ انہوں نے سمپدرو کو سائنائڈ ملی مشروب فراہم کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے محبت کی خاطر ایسا کیا تھا۔

اس واقعہ کے 6 برس بعد اسپین میں دی سی ان سائڈ نامی فلم بنی جو سمپدرو کی زندگی پر مبنی تھی۔ اس فلم نے دنیا بھر کی توجہ اپنی طرف کھینچی اور آسکر انعام حاصل کیا۔ فلم کے آنے کے بعد اسپین میں یوتھینیزیا (لاعلاج اذیت سے نجات کی خاطر موت) پر بحث نے زور پکڑ لیا۔ قدامت پسندوں اور کیتھولک چرچ نے یوتھینیزیا کی پوری شدت سے مخالفت کی۔ حالانکہ اعتدال پسند عناصر نے یوتھینیزیا کو قانونی بنانے کی حمایت کی۔ 16 برس کی سماجی بحث اور یوتھینیزیا کو جرم کے زمرے سے باہر کرنے کا قانون بنانے کی دو ناکام کوششوں کے بعد آخرکار 2020 کے شروع میں ایک بل کا مسودہ منظور ہو گیا ہے۔

اس کے قانون بن جانے کے بعد یوتھینیزیا کو جرم کے دائرے سے باہر کرنے والا اسپین آٹھواں ملک ہوگا۔ کناڈا، بیلجیئم، نیدرلینڈس، کولمبیا، لگزمبرگ، سوئیٹزر لینڈ، آسٹریلیا کے کچھ حصوں اور بعض امریکی ریاستوں میں یوتھینیزیا کو پہلے ہی جرم کے دائرے سے باہر کیا جا چکا ہے۔ اسپین میں بننے جا رہے قانون کے مطابق یوتھینیزیا کے لئے وہی شخص درخواست دے سکتا ہے جو کسی سنگین اور ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہو، یا پھر کسی شدید معذوری کا شکار ہو۔ اس مریض کی حالت ایسی ہونی چاہیے جس میں زندگی کا بار اٹھانا ممکن نہ ہو۔

دنیا بھر میں یوتھینیزیا پر ہو رہی بحث کو سمجھنے کے لئے اسپین کی مثال خوب ہے۔ یوتھینیزیا کی حمایت و مخالفت کے سلسلہ میں ہر جگہ کم و بیش وہی صورتحال ہے جو اسپین میں ہے۔ مذہبی اور قدامت پسند طبقات کا استدلال ہے کہ یوتھینیزیا کا دروازہ کھل جانے سے بہت سے مسائل اپنے آپ در آئیں گے۔ یوں بھی مذہبی بیانیہ کی رو سے زندگی لینے اور دینے کا اختیار خدا کے لئے مختص ہے اس لئے انسانوں کو اپنی جان پر اختیار نہیں دیا جا سکتا۔

ایک اندیشہ یہ بھی ہے کہ اگر یوتھینیزیا کا متبادل دستیاب ہوا تو بزرگوں یا غیر ضروری خیال کیے جانے والے افراد کو اس بہانے ٹھکانے لگایا جانے لگے گا۔ یہ صورتحال اس وقت مزید مشکوک ہو سکتی ہے جبکہ خود مریض کوما میں ہو۔ بہت سے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یوتھینیزیا کی اجازت دیے جانے سے طبی خدمات متاثر ہوں گی۔ سنگین بیماریوں میں مبتلا افراد کا علاج کھوجنے میں وہ شدت نہیں رہ جائے گی جو ابھی پائی جاتی ہے۔ گھر والوں یا تیمارداروں کے دباؤ میں آکر مریض یوتھینیزیا کا راستہ منتخب کرنے پر مجبور ہو جائیں اس خدشے سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ایسا ضروری نہیں کہ گھر والے یا تیماردار مریض سے لفظوں میں اس خواہش کا اظہار کریں کہ وہ یوتھینیزیا کا راستہ چن لے بلکہ گھر والوں اور تیمارداروں کی مسلسل زحمت دیکھ کر مریض اخلاقی دباؤ میں بھی یہ راستہ چن سکتا ہے۔ یہ تمام دلائل بھلے ہی مذہبی طبقے کی طرف سے آئے ہوں لیکن ان میں بہرحال کچھ نہ کچھ وزن ضرور ہے۔ شاید یہی وجہہ ہے کہ دنیا بھر میں صرف آدھا درجن کے لگ بھگ ملک ہی یوتھینیزیا کو جرم کے دائرے سے باہر کر سکے ہیں۔

اس ساری بحث میں اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ دنیا میں ایسے افراد موجود ہیں جو بیماری کی وجہہ سے مستقل اذیت میں گرفتار ہیں۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جن کا نہ تو کوئی علاج دستیاب ہے اور نہ ہی اذیت کو کم کرنے کا کوئی طریقہ میسر ہے۔ ہم سمپدرو کی مثال بھی نہیں بھول سکتے جو مردہ جسم پر زندہ سر لئے 29 برس تک موت کا منتظر رہا۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments