بلوچستان میں خود پرستوں کی حکمرانی


میرا جب بھی کافی پینے کے ساتھ فلسفیانہ گفتگو سننے کو دل کرتا ہے تو اپنی دونوں خواہشات پوری کرنے کے لئے میں ان کے پاس پہنچ جاتا ہوں وہ کہنے کو تو بڑے افسر ہیں لیکن ان کی باتیں سننے کے بعد وہ افسر مخالف لابی کے صف اول کا سپورٹر لگتا ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ اچھے افسران کا قصور کیا ہے؟ یہاں کے انتظامی معاملات کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے دادرسی کہاں ہوتی ہیں یہاں سیاسی پشت پناہی سے محروم افسران کو کیا استعفی دینا ہوگا کیا قائداعظم کے سول سرونٹ سے خطاب اور اقوال ہم اپنے دفاتر میں ٹانک کر ان اقوال کا مذاق نہیں اڑا رہے ہیں؟

کیا ایماندار اور اصول پسند ہونا بلوچستان میں کوئی گناہ ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص پراعتماد ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ لیکن ایسا شخص جو اپنی شخصیت کو دوسروں سے بہت بڑا اور اہم سمجھنے لگے نہ صرف یہ بلکہ مزید چاہیے کہ اردگرد کے لوگ اسے غیر معمولی توجہ دیں اس کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائیں۔ تو یقینا یہ نارمل رویہ نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ ہی اگر وہ ذرا سی بھی تنقید کو برداشت نہ کرے۔ اور دوسروں کو کمتر جان کر ان کا مذاق اڑائے تو یقین جانیں کہ ایسا شخص خود پرستی اور نرگیسیت کا شکار ہے۔ جو ایک بیماری تصور کی جاتی ہے۔

ایسی شخصیت رکھنے والے شخص کو دوسروں سے تعلقات رکھنے میں مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ اس کو کام کرنے یا کام لینے میں کافی دشواری ہوتی ہے۔ کچھ یہی صورتحال ہمارے حکمرانوں کو بھی درپیش ہے۔ جو خود پرستی کے حصار میں اس طرح مقید ہیں کہ انہیں اپنے آس پاس کے لوگ بہت بونے نظر آتے ہیں۔ کہنے کو تو بلوچستان کابینہ کے بہت لمبے لمبے اجلاس ہوتے ہیں۔ جن کا دورانیہ 7 یا 8 گھنٹے معمول کی بات ہے بلکہ بعض اجلاس تو 15 گھنٹے چلتے رہے ہیں۔

یہ اتنے لمبے لمبے اجلاس کیوں ہوتے ہیں۔ اگر اس کو ایک لفظ میں بیان کرنا ہو تو اسے آسان الفاظ میں خود پرستی کہتے ہیں۔ جس اجلاس کو زیادہ سے زیادہ 2 یا 3 گھنٹے کا ہونا چاہیے وہ اتنا طویل ہو جائے تو اس کا مقصد اپنی قابلیت کو جتانا، حاظرین سے تعریف کروانا اور چند معزز ارکان کے ساتھ مذاق کرنا ہوتا ہے۔ لیکن شاید ان کو تسکین پھر بھی نہیں ہوتی یہی وجہ ہے یہاں سے فراغت کے بعد پھر ٹویٹر اور واٹس ایپ کا مورچہ سنبھال لیا جاتا ہے۔

جہاں کچھ خوشامدی قسم کے لوگ چند تعریف کے الفاظ پوسٹ کر دیتے ہیں اور یوں ذرا تسکین کا سامان پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر کسی سر پھرے نے تھوڑی سی بھی شان مبارک کے خلاف لکھا تو فوراً وہ نالائق بلاک ہو جاتا ہے۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا واہ کیا بات کی ہے مجھے بھی اختلافی کلمات لکھنے پر بلاک کیا ہے وہ میری بات کاٹتے ہوئے کہنے لگے کہ کیونکہ خود پرست شخص تنقید کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ جب کوئی شخص اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرے بلکہ اس کا دفاع کرے۔ تو یہ خود پرستی یا انا پرستی نہیں ہے تو کیا ہے۔ میں نے ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ اچھا کررہا ہو ہمیں نظر نہیں آرہا ہو۔ وہ فرمانے لگے آج سے ٹھیک 5 ماہ قبل ہمارے انصاف پسند، تعصب سے پاک، باشرع وزیراعلی کے حکم پر چیف سیکریٹری بلوچستان نے سیکرٹری فوڈ اور ڈائریکٹر جنرل فوڈ کو گندم کی خریداری نہ کرنے پر معطل کر دیا تھا۔ لیکن حقائق اس کے برعکس تھے جن کا قصور تھا وہی منصف کی کرسی پر بیٹھے تھے۔ لہذا سزا کے حقدار وہی ٹھہرا جس کی گردن میں پھندا فٹ آ جائے۔ خیر جس نے بھگتنا تھا وہ اب تک بھگت رہے ہیں۔ بیڈا کے تحت انکوائری ہوئی جس کی سفارشات انکوائری افسر جمع کروا چکے ہیں اور غالبا انکوائری میں انھیں بے گناہ قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انکوائری مکمل ہونے کے باوجود اس کی سفارشات پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ شاید اس سے حکمرانوں کی سبکی ہو گی۔ حالانکہ بیڈا کے مطابق انکوائری کو 60 یوم میں مکمل ہو جانا چاہیے۔

پتہ نہیں حکمران اپنا کون سا بغض نکال رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ٹریکینگ سسٹم ہونے کے باوجود انکوائری والی فائل حرکت نہیں کر رہی۔ اسی طرح کے ایک دوسرے کیس میں اس سے بھی بد تر صورتحال ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ریسرچ زراعت کو بھی معطل ہوئے 5 ماہ ہو چکے ہیں۔ جس کے انکوائری افسر اس صوبے میں اپنے پوسٹنگ کے دن سے اپنے سے جونئر ترین چیف سکریڑیز کی سربراہی میں بھی خندہ پیشانی سے ماتحت حیثیت میں کام کرنے والے سینئر افسر جناب سجاد بھٹہ چیرمین سی ایم آئی ٹی مقرر ہوئے۔

لیکن موصوف نے پانچ ماہ گزرنے کے باوجود اب تک نوٹس بھی نہیں کیا۔ انکوائری کو مکمل کرنا تو دور کی بات ہے چیرمین سی ایم آئی ٹی کا یہ حال ہے کہ جس کا کام ہی انکوائری کرنا ہے تو گلہ کس سے کریں۔ جبکہ ابھی حافظ ماجد کو وزیراعلی کے اپنے بقول ناقص کارگردگی کی بنیاد پر شوکاز جاری کیا اور سکریڑی صحت کے عہدے ہٹا دیا تھا امید یہی تھی کہ شوکاز کا جواب بھی سوشل میڈیا میں شکوہ جواب شکوہ کے طور آئے گا لیکن جواب تو دور ان کو دوبارہ ایک اہم ترین محکمے انڈسٹریز ڈپیارٹمنٹ کا سکریڑی لگادیا ہے شوکاز اور دوبارہ بطور سکریڑی تعیناتی میں سے ایک غلط اقدام ہیں جس کا برملا وزیراعلی کو اعتراف کرنا چاہیے ان کے تندو تیز سوالات جن کے جوابات میرے پاس نہ تھے میں نے رخصت لینے میں اپنی عافیت جانی اور روانہ ہوا کہ حکومت کا دفاع عوامی مقامات پر کرنے والوں کو کس قدر مشکلات ہوں گی میں مشورہ ہی دے سکتا ہوں اور حکمرانوں سے دست بستہ التجا ہے کہ اگر آپ لوگ ہم پر مسلط کر ہی دیے گئے ہو تو خدارا اپنی انا، خود پرستی، بغض اور کینہ کو ایک طرف کریں اور انصاف کا دامن تھامیں آخر اللہ بھی تو دیکھ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments