پاکستان بلیک لسٹ سے بال بال بچ گیا


منی لانڈرنگ اس وقت مملکت کا سب سے بڑا مسئلہ بھی رہا ہے کیونکہ عوام کے ٹیکسوں سے فلاح و بہبود کے کاموں میں رقم صرف کرے کے بجائے غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کیا جاتا ہے، جس سے ایک جانب مملکت کے پروگراموں کو نقصان پہنچتا ہے تو دوسری جانب مفاد عامہ کے کام بھی تیزی سے نہیں کیے جا سکتے، تاہم منی لانڈرنگ کا سب سے بڑا نقصان دہشت گردی و انتہا پسند تنظیموں کی فنڈنگ کرنے سے پاکستان میں شدت پسندی کو فروغ ملا، یہ ایک ایسا وائٹ کالر جرم ہے جسے بڑی صفائی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اس کو پکڑنا دقت طلب و قدرے مشکل ہوتا ہے، میکانکی نظام ہونے کے باوجود ترقی یافتہ ممالک میں منی لانڈرنگ کے فروغ کا سبب بنتے ہیں کیونکہ وہ ایسے قوانین بناتے ہیں جس سے منی لانڈرنگ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، وہ کالے دھن کو ان ممالک کے بنکوں میں محفوظ رکھتا ہے، اگر ترقی یافتہ ممالک منی لانڈرنگ کے حوالے سے آف شور ٹائپ کے مصنوعی قوانین بنانے سے کالے دھن گروہوں کو قانونی پشت پناہی نہ دیں تو کئی عالمی مسائل، جن میں دہشت گردی بھی شامل ہے، انہیں زک پہنچ سکتی ہے۔

1980 میں ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں نے خفیہ اور ٹیکس سے مستثنیٰ آمدنی والے ایسے اکاونٹ بنائے، جس سے خود ترقی یافتہ ممالک کو ٹیکس کی کمی کا سامنا ہوا، متعدد ممالک نے اس حوالے سے قوانین بنانے شروع کیے، امریکا نے 1986 میں اینٹی منی لانڈرنگ قانون بنایا اور پھر 1989 میں جی۔ سیون ممالک کی ایک نئی تنظیم بنائی جو اب ایف ٹی اے ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کہلاتی ہے۔ اب یہ تقریباً 39 ممالک پر مشتمل گروپ ہے، پاکستان ایشیا پیسفک گروپ کا ممبر ہے، جس میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ شامل ہیں۔

پاکستان نے 2007 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کی، جو 2010 میں نافذ عمل ہوا، تاہم ٹیکس قوانین کے جرائم میں منی لانڈرنگ کا قانون لیت و لعل اور سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوتا رہا۔ منی لانڈرنگ کے باعث کئی معاملات خراب تر ہوتے چلے گئے، بالاآخر 2012 میں پاکستان پہلی مرتبہ واچ لسٹ میں شامل کردیا گیا، پاکستان نے منی لانڈرنگ و دہشت گردی کی معاونت کے خطرات کے پیش نظر تیزی سے کارروائیاں کیں، ٹیکس جرائم سے استثنیٰ قوانین کو ختم اور کئی کمزوریوں کو دور کیا اور مستقل نگرانی کی جانب توجہ دی۔

ان اقدامات کی وجہ سے 2015 میں پاکستان کو واچ لسٹ سے نکال دیا، تاہم تاکید کی گئی کہ عالمی اداروں کی جانب سے دہشت گردی یا اُن سے وابستہ افراد کی سخت نگرانی، ایسے افراد کے اثاثے ضبط کرنا اور دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ان جرائم میں ملوث افراد کو سزائیں دینے کے عمل کو موثر رکھا جائے۔ جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف نے جون 2018 میں پاکستان کا نام ”گرے لسٹ“ میں شامل کردیا اور ایک ایکشن آف پلان پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا، ایران، شمالی کوریا کی طرح پاکستان کے سر پر بھی بلیک لسٹ میں شامل کیے جانے کے خطرات منڈلانے لگے، تاہم بھارتی لابنگ کے باوجود پاکستان مہلت لینے میں کامیاب ہوگیا اور بھارتی سازشوں کو ناکامی ہوئی۔

اکتوبر 2019 میں ایف اے ٹی ایف نے 27 نکاتی پلان پر عمل درآمد کے لئے پاکستان کو وقت دے گیا۔ جس پر جنوری 2020 میں بریفنگ ہوئی۔ پاکستان نے اپنے اعلامیہ میں کہا کہ ایف اے ٹی ایف انہیں ایسے نکات پر کام کرنے کی نشان دہی کرے، جن پر پاکستان منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں ملوث افراد کو مالی اعانت فراہم کرنے سے روکنے کے لئے عالمی معیار کے مطابق اس پر عمل درآمد کرسکے۔ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی ذیلی تنظیموں کے تعاون سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور بھارتی لابنگ کو غیر موثر کرنے کے لئے جاندار سفارتی حکمت عملی اپنائی۔

پاکستان نے دہشت گردی کی روک تھام کے ساتھ مشکوک افراد پر نگرانی کے نظام و سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کی، منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے موثر قوانین کا اطلاق شروع کیا اور بتدریج اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی اداروں سمیت تمام اداروں کے درمیان باہمی تعاون کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات شروع کیے، جس میں غیر قانونی منتقلی یا ویلیو ٹرانسفر سروسز، کیش کوریئرز و دیگر معاملات میں استغاثہ و عدلیہ کی صلاحیت کو بڑھانا بھی شامل ہے۔ پاکستان نے ایسی تنظیموں پر پابندی بھی لگائی جنہیں عالمی اداروں کی جانب سے دہشت گرد تنظیم کے طور پر شامل کیا گیا۔ ایسے افراد کے خلاف مملکت نے ایسی کارروائیاں بھی کیں، جنہیں انتظامی اور ضابطہ فوجداری کے تحت قانون کے مطابق نمٹایا جارہا ہے۔

پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے 12 ووٹ درکار تھے، جس کے لئے پاکستان نے مختلف ممالک میں سفارتی رابطے کیے۔ ترکی، چین، سعودی عرب، ملائیشیا، خلیجی ممالک نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایف اے ٹی ایف کی دی گئی سفارشات پر مملکت سنجیدگی سے کام کررہی ہے اس لئے دیرپا و مستحکم بنیادوں پر کام کرنے کے لئے وہ پاکستا ن کا ساتھ دیں گے۔ اس سے پاکستان کے بلیک لسٹ میں جانے کا خطرہ ایف اے ٹی ایف کی فیصلے سے قبل ہی ٹل گیا تھا، تاہم گرے لسٹ میں رہنے اور مکمل عمل درآمد تک واچ لسٹ میں رکھنے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے تھے۔

کیونکہ پاکستان نے 27 میں سے 14 اہداف حاصل کیے، جو بلیک لسٹ سے نکلنے کے لئے ناکافی سمجھے گئے، اس لئے بہتر کارکردگی کی وجہ سے مہلت بڑھا دی گئی ہیں تاہم بلیک لسٹ میں نہ جانا بھی اہم اَمر ہے۔ پاکستانی کے اقدامات کا عالمی سطح پر اعتراف اہم کامیابی ہے۔ 40 برس دہشت گردی سے متاثرہ مملکت میں ایسے عناصر کے خلاف موثر کارروائیوں کی کوشش ریاست کی اس عزم کا اعادہ کرتی ہیں کہ وطن عزیز میں کسی دہشت گردی کے ٹھکانوں کی کوئی جگہ نہیں اور ایسے عناصر کے خلاف سنجیدہ ہے جو شدت پسندوں کے خلاف مالی اعانت کرکے مملکت کو خطرے میں ڈالتے ہیں، ضرورت اس اَمر کی ہے کہ تمام ادارے مستقل مزاجی کے ساتھ ایسے عناصر کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں جو ملک و قوم کی بدنامی و بے امنی کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارتی لابنگ کو ایک بار شکست کا سامنا ہوا ہے اور ریاست نے ہر محاذ پر بھارت کو شرمندگی کا شکار کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments