نئے پاکستان کا بیانیہ اور بھوک کی یلغار


فرض کریں ایک مذہبی مبلغ بڑے زور و شور سے اپنی تقریر ایک ایسے مجمع کے سامنے کر رہا ہو۔ جس کا بھوک کے مارے برا حال ہو تو کیا ہو گا؟ یہ مبلغ مذہب کی تعلیمات کی تشریحات کر کے اس مجمع کو کس حد تک متاثر کر پائے گا؟ جن کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہوں۔ اس کا ایک سیدھا سادھا جواب ہے کہ بھوک کے مارے اس مجمع کے ذہن و قلب میں مبلغ کی تقریر دل پذیر اترنے کی بجائے ان کی نظروں کے سامنے وہ گول گول چپاتیاں گھوم رہی ہوتی ہیں جن سے وہ اپنی بھوک مٹا پائیں۔ اب واعظ صاحب لاکھ فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیں جب تک مجمع کی شکم کی آگ نہیں بجھ پائے گی اس وقت تک سارا زور بیان اکارت ہوگا۔

ایک فلسفی جب کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کا کام ایک ایسے شخص کے سامنے کرے گا جس کے حلق کے نیچے کئی روز سے ایک لقمہ کھانے کا نہ اترا ہو تو وہ شخص کائنات کے ان سربستہ رازوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے میں کتنی دلچسپی دکھائے گا؟ ایک ایسے شخص کے سامنے منطق سے فلسفے کا سفر، اس کے استقرائی اور استخراجی رویے، فکر انسانی کا ارتقاء اور فلسفیانہ مسائل کی گتھیاں سلجھانا کیا معنی رکھتا ہے جس کے بچے کئی روز سے بھوک سے بلک رہے ہوں؟

ایسے شخص کے سامنے ان دقیق موضوعات کا ذکر کرنا تو لاحاصل ہی ٹھہرے گا کیونکہ اس کے سامنے زندگی کی سب سے تلخ حقیقت کھڑی ہوتی ہے کہ کیسے وہ اپنے اور اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کا انتظام کرے۔ فلسفی صاحب لاکھ چاہیں کہ وہ شخص اس کی باتوں کو توجہ سے سنے اور انہیں اپنے اندر سمو لے تو ان کی یہ کوشش بے کار ہو گی۔ اس وقت اس شخص کے نزدیک روٹی کے سامنے سارا فلسفہ ہیچ ہے۔ مذہبی مبلغ کا فصیح و بلیغ بیان دو روٹی سے شکست کھا جاتا ہے۔

یہ تمہید باندھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ آج کے حکمرانوں کا ایک بیانیہ ہے۔ یہ بیانیے کا ڈھنڈورا گزشتہ انتخابات سے قبل خوب پیٹا گیا۔ الیکشن ہوئے۔ موجودہ حکمران الیکٹ یا سلیکٹ ہیں کی بحث سے قطع نظر اقتدار میں اگئے۔ انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کے دعوے اور نعرے ہوتے ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد عمل کی مشکل راہوں کا مسافر بننا پڑتا ہے۔ حکمرانوں کا کرپشن کے خاتمے کا بیانیہ سر آنکھوں پر اور ملکی دولت کی لوٹ کھسوٹ کے سامنے بند باندھنے کا تہیہ خوش آئند۔

اس بیانیے کی بخیے ادھیڑ نے کی بجائے اصل مدعا پر آتے ہیں۔ عوام نے آپ کو ووٹوں سے نوازا تاکہ آپ اقتدار میں آکر ان کی زندگیوں میں آسانی لائیں۔ مسائل کی کڑی دھوپ میں راحت و سکون کا سائبان بنیں۔ مشکلات و تکالیف کے طوفان بادو باراں میں ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنیں۔ لیکن ڈیڑھ سال کے اقتدار میں آ پ اپنے بیانیے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے پائے گئے۔ ہر جاہ، ہر وقت ایک ہی فرمان عالی شان کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔

اس بیانیے کا اظہار آپ ان کروڑوں لوگوں کے سامنے کر رہے ہیں جن کی زندگی کا محور و مرکز دو وقت کی روٹی کا حصول ہے اور جو آپ جے عہد بے اماں میں مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہم جیسے نکتہ چینوں پر اعتبار نہ کریں لیکن اپنے ہی اداروں کے اعداد و شمار پر نظر ڈال لیں۔ ادارہ شماریات اور اسٹیٹ بنک مہنگائی کی دہائیاں دے رہے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے افراط زر 12 سال کی بلند ترین شرح 14.6 فیصد پر پہنچ گیا ہے۔

ایک معاصر قومی روزنامے میں معیشت پر لکھنے والے کالم نگار کے مطابق روپے کی قدر میں گزشتہ ڈیڑھ سالوں میں تقریباً 50 فیصد کمی اور امپورٹ پر ریگولیٹری کسٹم ڈیوٹی کے نفاذ کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات، خوردنی تیل اور دیگر خام مال کی امپورٹ کی لاگت میں اضافہ، بینکوں کے شرح سود میں اضافے سے مالی اور پیداواری لاگت میں اضافہ، زرعی سیکٹر بالخصوص کاٹن، گیہوں اور گنے کی فصل اور خراب کارکردگی کی وجہ سے ٹماٹر، پیاز، مٹر، مرچیں، گاجر، پالک کی قیمتوں میں 11 سے 36 فیصد اضافہ ہوا۔

چکن کی قیمت میں 17.5 فیصد، انڈے 14 فیصد، آٹا 13 فیصد، دالوں کی قیمت میں 10 فیصد اضافہ ملک میں مہنگائی کا اصل سبب بنا۔ نان فوڈ آئٹمز میں افراط زر کا جائزہ لیں تو ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 14 فیصد، کپڑے اور جوتوں کی قیمتوں میں 10.5 فیصد، ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں کی سروسز میں 10.8 فیصد اور دیگر خدمات کے شعبے میں 12.3 فیصد اضافہ ہوا۔

اس طرح فوڈ اور نان فوڈ اشیاء کی قیمتوں میں گزشتہ 3 مہینوں دسمبر 2019 ء میں 12.42 فیصد، جنوری 2020 ء میں 13 فیصد اور فروری میں 14.3 فیصد ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو گزشتہ 12 سالوں میں ملک میں مہنگائی کی سب سے اونچی شرح ہے، جس میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ سرفہرست ہے۔

یہ اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ڈیڑھ سالہ اقتدار میں زور بیان کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ ان اعداد و شمار نے عوام کے لیے بنیادی ضروریات کا حصول مشکل سے مشکل تر بنا دیا ہے۔ اب ایک ایسی صورت حال میں جب ملک کے عوام دو وقت کی روٹی کے لیے اپنی جان کھپا رہے ہوں اور حکمران وقت ایک بھرے مجمع میں نعرہ مستانہ بلند کرے کہ بڑی گرفتاریوں کا حکم دے دیا ہے اور جلد کرپشن کم ہو جائے گی تو اس بیانیے کا ان عوام پر کیا خاک ہونا ہے جو ان دنوں فقط روٹی کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔

جہاں بنیادی انسانی ضروریات کا حصولِ مشکل تر بن جائے وہاں حکمران وقت کا کرپشن کے خلاف بیانیہ ماند پڑ جاتا ہے۔ آپ نے ڈیڑھ سالہ اقتدار میں اس بیانیے کا ڈھنڈورا پیٹنے کی بجائے عوام کے شکم کی آگ بجھانے کا کوئی بندوبست کیا ہوتا تو آپ بھی معتبر ہوتے اور آپ کا بیانیہ بھی اثر رکھتا۔ آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جب بھی حکمران کرپشن کے خلاف بیانیے کا اظہار کرتے ہیں تو عام فرد یا تو اس پر توجہ نہیں دیتا اور اگر دے بھی دے تو فوراً اشیائے ضروریہ کے مہنگے دام اس بیانیے کے پہیوں میں سے ہوا نکال دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments