ُٓادبی و ثقافتی ادارے اور کانفرنسیں


12 ؍ 13 جنوری ساہیوال آرٹس کونسل کی سالانہ کانفرنس تھی اور ہر سال کی طرح اس سال بھی یہ کانفرنس ایک نئے انداز اور نئے موضوعات کے ساتھ منعقد ہوئی جس میں پاکستان بھر کی یونیورسٹیز سے اردو کے اساتذہ، اسکالرز اور تشنگانِ علم و ادب شریک ہوئے اور یہ دو روزہ میلہ بہت سی یادیں چھوڑ کر اختتام پذیر ہوا۔ اس سے قبل بھی راقم دو کانفرنسوں میں ساہیوال آرٹس کونسل میں شریک ہوا جن میں سے ایک کانفرنس 2018 ء میں منعقد ہوئی تھی جس کا موضوع ”عالمگیرت، ثقافت اور ادب“ تھا۔

اس کانفرنس میں تقریباً پچاس سے زائد اسکالرز اور ناقدین نے اپنے اپنے تحقیقی مقالات پیش کیے جو بعد میں ساہیوال آرٹس کونسل نے کتابی شکل میں بھی شائع کر دیے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں جو لوگ کانفرنس میں شریک نہیں ہو پائے ان کے لیے یہ کتاب ایک نادر تحفہ ہے جس میں مذکورہ موضوع اور ذیلی موضوعات پر انتہائی پرمغرز مقالات موجود ہیں۔ ساہیوال آرٹس کونسل نے ہی 2019 ء میں ایک روزہ مجید امجد کانفرنس کروائی اور راقم کی خوش بختی کہ میں اس مکالمے میں بھی شریک ہوا اور چونکہ ساہیوال کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں مجید امجد رہے تو ہم ساہیوال کو شہرِ مجید امجد ہونے کی وجہ سے بھی عزت و احترام سے دیکھتے ہیں۔

اب تیسری دفعہ 2020 ء کے آغاز میں ہی جن دو کانفرنسوں کا دعوت نامہ موصول ہوا ان میں پہلی کانفرنس ساہیوال کی تھی اور گزشتہ کی طرح اس دفعہ بھی موضوعات کا تنوع اور کانفرنس کے انتظامات حیران کن تھے جس کا سارا کریڈٹ ڈاکٹر ریاض ہمدانی کو جاتا ہے جنہوں نے ساہیوال آرٹس کونسل کے مردے گھوڑے میں جان ڈالنے کا کردار ادا کیا۔ اب اگر پاکستان کی تمام آرٹس کونسلز پر نظر ڈالی جائے تو کراچی ’لاہور اور ساہیوال بالکل نمایاں نظر آ رہی ہیں اگرچہ فیصل آباد میں بھی مشاعرے اور سیمینارز ہو رہے ہیں مگر کبھی اس سطح کی عالمی یا قومی کانفرنس وہاں نہیں ہوئی جس میں یونیورسٹیز کے اساتذہ اور اسکالرز کو شریک کیا جائے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا دیگر آرٹ کے نام پر بنائے جانے والے ادارے صرف برائے نام ہی ہیں یا محض مشاعرے کروانا ہی اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔ احمد شاہ کراچی آرٹس کونسل میں جس طریقے سے بلاتعطل کانفرنسیں کروا رہے ہیں یا کسی زمانے میں محترم عطا الحق قاسمی (جب وہ الحمرا آرٹس کونسل لاہورکے چیئرمین تھے ) لاہور میں بلاتعطل کانفرنسیں کرواتے رہے جو آج تک ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ پھر اس ادارے کو بھی نظر لگ گئی۔

اب دیگر مشرقی و مغربی این جی اوز یہاں فیسٹیولز تو کرواتی ہیں جن میں عمومی طور پر کارپوریٹ کلچر کی نمائندگی کی جاتی ہے مگر کوئی بھی باقاعدہ اردو کانفرنس کا رواج نہیں ہے۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے پلاک (پنجاب انسٹیٹیوت لینگویجز آرٹ اینڈ کلچر) میں رہتے ہوئے اس ادارے کی شناخت بحال کی۔ اب اس کے علاوہ دیگر شہروں میں موجود ادبی و ثقافتی ادارے کیا کام کر رہے ہیں ’یہ ایک اہم ترین سوال ہے جس پر حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا ہوتا۔

اسی طرح اب مختلف جامعات میں بھی اردو کانفرنسز اور سیمینارز کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جو انتہائی اچھا قدم ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مشاعرے اب ہر کالج اور ہر یونیورسٹی اپنا فرض سمجھنے لگی ہے۔ میں اس بات پر اس لیے خوش ہوں کہ کم از کم جامعات میں مشاعروں ہی سے سہی لیکن اردو کی عزت اور ساکھ بحال تو ہوئی ورنہ تو مشاعرہ اور جامعات دو متضاد رویے سمجھے جانے لگے تھے۔ تعلیمی اداروں میں فن فیئر اور میوزیکل کنسرٹ تو ہوتے تھے مگر اردو مشاعرہ یا اردو پر کوئی سیمینار خال خال ہی نظر آتا تھا سو اب یہ سلسلہ بہت بہتر ہو گیا۔

ایک دوست کے توسط سے معلوم ہوا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی مہربانی ہے کہ انھوں نے جامعات میں ہر شعبے کو ہدایت کی کہ سال میں کم از کم ایک بین الاقوامی یا قومی کانفرنس کرائے سو ہم دیکھ رہے ہیں کہ آئے روز کسی نہ کسی یونیورسٹی میں اردو پر کانفرنسز چل پڑیں جس پر جتنی داد دی جائے کم ہے۔ اس سال گورنمنٹ کالج و خواتین یونیورسٹی فیصل آباد سے بھی دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ”اردو زبان و ادب پر مختلف خطوں کے اثرات“ کا دعوت نامہ بھی وموصول ہوا جس میں شرکت کے لیے آج ہی رات روانہ ہو جاؤں گا۔

یہ کانفرنس 26 ؍ 27 فروری 2020 ء یعنی دو دن جاری رہے گی جس میں مذکورہ موضوع پر انتہائی فکر انگیز مقالات پڑھے جائیں گے۔ اگرچہ اس کانفرنس کا کریڈٹ شعبہ اردو کی چیئرپرسن ڈاکٹر طاہرہ اقبال اور شعبے کی دیگر انتظامیہ کو جاتا ہے مگر وائش چانسلر خواتین یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر روبینہ فاروق بھی داد اور خراجِ تحسین کی مستحق ہیں کہ انھوں نے اتنی شاندار کانفرنس اور اتنے شاندار لوگوں سے ملاقات کا موقع بنایا۔ یقینا ملک بھر سے تشنگانِ ادب اس کانفرنس میں بھرپور شرکت کو یقینی بنائیں گے۔

میں کوآرڈینٹر کانفرنس ڈاکٹر رخسانہ بلوچ سمیت دیگر پندرہ ممبرز کو پیشگی مباک باد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے یہ عظیم کام کیا اور اردو کی ترویج اور ترقی میں یہ کانفرنس سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ تیسری کانفرنس منہاج یونیورسٹی لاہور میں 14 ؍ 15 مارچ 2020 ء کو منعقد ہو رہی ہے جس کا کریڈٹ ڈاکٹر مختار عزمی سمیت وائس چانسلر اور دیگر کانفرنس انتظامیہ کو جاتا ہے۔ منہاج یونیورسٹی میں ہونے والی یہ کانفرنس بھی اپنی نوعیت کی ایک منفرد اور یادگار کانفرنس ہوگی جس کا موضوع ”زبان و ادب:قومی و علاقائی عصری تناظر“ ہے اور بلاشبہ دیگر موضوعات کی طرح یہ موضوع بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

قارئین یہ تین کانفرنس سال کے آغاز میں ہی پڑھنے کا موقع مل رہا ہے اور یہ تینوں کانفرنس عالمی سطح کی ہیں اور پھر اتنے اچھے اور شاندار موضوعات تو سونے پہ سہاگہ ہیں۔ ساہیوال اور فیصل آباد کانفرنس میں کلیدی خطبہ اردو کے روشن دماغ نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے دیا جو نہ صرف میرے استاد ہیں بلکہ تنقید کے میدان میں مجھے ان کی پیروی کا شرف حاصل ہے سو اس لیے بھی میرے لیے یہ کانفرنسز اہمیت کی حامل ہیں۔ منہاج یونیورسٹی کی انتظامیہ اور کانفرنس انچارج ڈاکٹر فضیلت بانو کو مبارکباد کہ انھوں نے اس یونیورسٹی میں اردو شعبے میں ایسے یادگار کام کا آغاز کیا۔

میں اس لیے بھی ان کانفرنسوں کا ذکر کر رہا ہوں کہ حکومت ایسی جامعات کو مکمل سپورٹ کرے جو واقعی علمی و ادبی ماحول کو تازہ دم رکھے ہوئے ہیں اور وہ ادبی و ثقافتی ادارے یا جامعات جہاں صرف فنڈز اور فیسیں اکٹھی کرنے کا کام کیا جارہا ہے ان کو باقاعدہ احکامات جاری کیے جائیں کہ ادارے کام کرنے سے پہچانے جاتے ہیں اور اگر کام نہیں کریں گے تو اداروں کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ موجودہ دور میں علاقائی و قومی زبان کا تشخص بحال کرنا اور اس کے بارے میں موجود خدشات کاقلع قمع کرنا علمی، ادبی اورتعلیمی اداروں کا کام ہے اور انہیں یہ کام کرتے رہنا چاہیے۔ میری قارئین سے گزارش ہے کہ خواتین یونیورسٹی فیصل آباد اور منہاج یونیورسٹی لاہور میں ہونے والی کانفرنسوں میں لازمی شریک ہوں اور علم و ادب پر ہونے والے مکالموں میں شرکت کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments