نئے اٹارنی جنرل نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی نمائندگی سے معذرت کر لی


نئےاٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف حکومتی ریفرنس میں حکومت کی نمائندگی سے معذرت کر لی ہے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا ہے کہ اس کیس میں مفادات کا ٹکراؤ ہے۔

حکومت نےایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مقدمے میں وکیل مقرر کرنے کی درخواست دی ہے۔ عدالت سے استدعا کی کہ اس درخواست کو قبول کیا جائے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کی اس کیس میں تیاری بھی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو مزید تیاری کے لیے وقت دیتے ہیں، آپ نے تین ہفتے کا وقت مانگا ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں ملکی مفاد کی خاطر ملک سے باہر جانا ہے، 20 مارچ تک مزید وقت دیں، میں کسی ذاتی کام سے بیرون ملک نہیں جا رہا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہوسکتا ہے مارچ میں ہم میں سے ایک جج کو بیرون ملک جانا ہو۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ اگلی سماعت پر کوئی التوا نہیں دیں گے، اگلی سماعت پر حکومتی وکیل عدالت کے سامنے پیش ہو۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے گزشتہ سماعت پر اونچا بولنے پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا سے علم ہوا کہ میں نےاونچی آواز میں بات کی مجھے اخباروں میں خبر پڑھ کر دکھ ہوا ہے، مگر میں نے کچھ غلط نہیں کہا تھا بس میری آواز اونچی تھی۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ پچھلی سماعت پرجو کچھ ہوا ہم اسے قبول نہیں کرسکتے تھے، وکلاء سمیت تمام افراد سے معذرت خواہ ہوں، جو ہوا اسے بھول جائیں اور آگے بڑھیں، کوشش کریں گے کہ دلائل کے دوران کسی فریق کی تضحیک نہ ہو۔

جسٹس بندیال نے کہا کہ اس سماعت کے بعد کا نتیجہ آگیا ہے، عدلیہ کو تنقید برداشت کرنی پڑتی ہے، ہم اپنے فیصلوں میں بولتے ہیں، قرآن پاک بھی غصے پر قابو پانے کا حکم دیتا ہے۔ انہوں نے سورۃ الحجرات کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ سورۃ الحجرات میں ہےکہ گمان نہ کرو یہ گناہ ہے، سورۃ میں یہ بھی ہے کہ جاسوسی نہ کرو یہ بھی گناہ ہے،انہوں نے سورۃ آل عمران کا بھی حوالہ دیا۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان نےسماعت کے آخر میں عدالت کی اجازت سے بیان دیا کہ عدلیہ کی آزادی میرے لیے مقدم ہے، عدلیہ کی آزادی سے متعلق کوئی گمان ہوا تو آپ مجھے یہاں نہیں دیکھیں گے۔

وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے عدالت میں کہا کہ اس درخواست میں فریق بنایا گیا ہے، مجھے دلائل کی اجازت دی جائے،اگرعدالت بہتر سمجھے تو حکومت کی نمائندگی بھی کر سکتا ہوں۔ اس موقع پر پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین نے فروغ نسیم کے دلائل دینے کی مخالفت کردی،جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ آپ بطور وزیر قانون دلائل نہیں دے سکتے۔

جسٹس قاضی امین نے فروغ نسیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پہلے استعفی دینا ہو گا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ میرے خلاف جو درخواست آئی ہے اس پر دلائل دے سکتا ہوں۔ عدالت نے فروغ نسیم کے خلاف درخواست پر ذاتی حیثیت میں دلائل کی اجازت دے دی۔

وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل ساقی عابد نے کہا کہ اسی عدالت نے وزرائے اعظم کو توہین عدالت کیسز میں عہدوں سے ہٹایا، فروغ نسیم اور انور منصور کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر ضرور کارروائی ہونی چاہیے۔ جسٹس عمرعطابندیال نے وائس چیئرمین عابدساقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی آپ کی درخواست پر نمبر نہیں لگا ہے، عابد ساقی نے کہا کہ ہمارا اس معاملے میں کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ فروغ نسیم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی 30 مارچ کو سنیں گے۔

واضح رہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنی مرضی کے دلائل دینے پر سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان سے استعفیٰ طلب کر لیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments