نواز شریف کی ضمانت مسترد کرنے سے حکومت مضبوط نہیں ہو گی


پنجاب حکومت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کردی ہے۔ صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا انکشاف کیا ہے۔ پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اب وفاقی حکومت کو بھجوایا جارہا ہے تاکہ وہ اس سلسلہ میں مناسب کارروائی کرسکے۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ نے پنجاب حکومت کے فیصلہ کے خلاف عدالت میں اپیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

نواز شریف 19نومبر سے لندن میں مقیم ہیں جہاں ان کے طبی ٹیسٹ اور علاج کا سلسلہ جاری ہے۔ انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسانی بنیادوں پر 8 ہفتے کے لئے ملک سے باہر جاکر علاج کروانے کی اجازت دی تھی۔ اس وقت نواز شریف العزیزیہ ریفرنس کیس میں سزا پانے کے بعد کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے لیکن ان کے جسم میں پلیٹلٹس کی اچانک کمی کے باعث انہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔ لندن روانگی کے بعد سے ان کے علاج کے بارے میں کوئی خاص معلومات سامنے نہیں آئیں بلکہ گزشتہ ماہ کے دوران سوشل میڈیا پر نواز شریف کی ایک تصویر نے ان کی بیماری کے بارے شبہات کو تقویت دی تھی۔ اس تصویر میں وہ اپنے اہل خاندان کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھے دکھائی دے رہے تھے۔

راجہ بشارت نے بھی اس معاملہ کی تفصیل بتاتے ہوئے یہی عذر پیش کیا ہے کہ نواز شریف کے نمائیندوں نے حکومت پنجاب کو ان کے علاج اور بیماری کے بارے میں مناسب تفصیلات فراہم نہیں کیں جس کی وجہ سے ان کی ضمانت میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت پنجاب کو یہ اختیار اسلام آباد ہائی کورٹ کے 29 اکتوبر 2019 کے ایک فیصلہ میں حاصل ہؤا تھا جس میں عدالت نے آٹھ ہفتے کی ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر علاج کے لئے اس مدت میں توسیع کی حاجت ہو تو پنجاب حکومت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ پنجاب حکومت نے اس معاملہ پر اس سے پہلے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ صوبائی وزیر قانون نے خود ہی یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ پنجاب حکومت کے فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے نواز شریف کی ضمانت جاری رہی ہے تاہم اب انہیں ملک سے گئے ہوئے 16 ہفتے گزر چکے ہیں۔ مناسب دستاویزی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ضمانت نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ نواز شریف کی ضمانت اور بیرون ملک روانگی کا معاملہ طبی یا انسانی ہمدردی سے زیادہ سیاسی معاملہ ہے۔ گزشتہ سال کے آخر میں جب عدالتیں نواز شریف کو ریلیف دے رہی تھیں تو حکومت نت نئی شرائط عائد کرکے نواز شریف کی روانگی مؤخر کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ عدالت نے العزیزیہ کیس میں ان پر جو جرمانہ عائد کیا ہے وہ اس کے مساوی رقم کی ضمانت فراہم کرکے ہی بیرون ملک جاسکتے ہیں۔ تاہم لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کا یہ عذر مسترد کردیا تھا اور نواز شریف اپنے بھائی شہباز شریف کے ہمراہ بیرون ملک روانہ ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

تحریک انصاف کی حکومت کے لئے ایک مقدمہ میں سزا یافتہ ہونے کے باوجود نواز شریف کو ملک سے جانے کی اجازت دینا نہایت مشکل فیصلہ تھا کیوں کہ اس سے سابقہ لیڈروں کی کرپشن کے بارے میں عمران خان اور تحریک انصاف کا بیانیہ غلط ثابت ہوتا تھا۔ عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد تواتر سے یہ اعلان کرتے رہے تھے کہ وہ بدعنوان لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس حوالے سے خاص طور سے نواز شریف اور آصف زرداری کا نا م لے کر الزام عائد کئے جاتے رہے تھے۔ تاہم عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں حکومت بے بس تھی۔ نواز شریف کو بیرون ملک روانگی کا موقع دراصل ملک میں بگڑتی ہوئی معاشی و سیاسی صورت حال کی وجہ سے ملا تھا۔ شہباز شریف نے اپنے رابطوں کے ذریعے مقتدر حلقوں تک رسائی حاصل کی اور اپنے بھائی کو بیرون ملک لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ گزشتہ نومبر سے شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کا صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہونے کے باوجود لندن میں ہی مقیم ہیں۔ ملک سے ان کی غیر حاضری بھی سیاسی بحران یا منصوبہ بندی کا اشارہ دیتی ہے۔

اس دوران یہ اندیشے تقویت پکڑتے رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے شہباز شریف کے ذریعے اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت کرنے اور تحریک انصاف کا متبادل فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس سال کے شروع میں حکومت نے جب اچانک آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ طے کرنے کے لئے قانون سازی کا فیصلہ کیا تو مسلم لیگ (ن) کی طرف اس ترمیم کی غیر مشروط حمایت کو بھی پارٹی میں نواز شریف کے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیہ پر شہباز شریف کی مصالحانہ اور اسٹبلشمنٹ کی بالادستی قبول کرتے ہوئے سیاست کرنے کی حکمت عملی کی کامیابی قرار دیا گیا تھا۔ ملک کے جمہوری حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کے اس تبدیل شدہ سیاسی مؤقف کو جمہوری جد و جہد کے لئے دھچکا قرار دیا گیا لیکن نواز شریف نے لندن سے یا مریم نواز نے لاہور سے اس حوالے سے خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھا۔

تحریک انصاف کی حکومت نے نواز شریف کی بیرون ملک روانگی پر ہزیمت اٹھانے کے بعد مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے انکار کردیا۔ اس کے بارے میں اگرچہ یہی عذر پیش کیا جاتا ہے کہ ان پر بدعنوانی کے متعدد مقدمات ہیں جن کی وجہ سے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ حالانکہ یہ عذر دراصل تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ بچانے کی ناکام کوشش ہے۔ اس طرح اس سیاسی نقصان سے بچنے کی کوشش کی جارہی ہے جو نواز شریف کی روانگی کی وجہ سے محسوس کیا جاتارہا ہے۔ اب حکومت پنجاب نے نواز شریف کی ضمانت کی مدت میں توسیع سے انکار کرکے اپنے اس مقدمے کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف کی صوبائی اور مرکزی قیادت بہت اچھی طرح جانتی ہوگی کہ اس فیصلہ کا کوئی عملی نتیجہ نکلنا ممکن نہیں ہے۔ نواز شریف اس وقت تک واپس نہیں آئیں گے جب تک سیاسی حالات موافق نہ ہوجائیں یا عدالتوں سے انہیں مقدمات میں بری نہ کردیا جائے۔

اس پس منظر میں حکومت پنجاب کا فیصلہ نہ تو ’غیر منطقی‘ ہے اور نہ ہی ناقابل فہم، البتہ اس کا اعلان اور اس فیصلہ کے بارے میں پریس کانفرنس منعقد کرکے پنجاب حکومت کے تین وزیروں نے جس طرح اپنی بے بسی اور نااہلی کا ثبوت فراہم کیا ہے وہ حیرت انگیز ضرور ہے۔ یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ پنجاب حکومت نواز شریف کے بارے میں عمران خان کی ہدایت یا خواہش کے برعکس کوئی فیصلہ کرسکتی ہے۔ راجہ بشارت نے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین رشید اور وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے ہمراہ جس فیصلہ کا اعلان کیا ہے وہ بلاشبہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی خواہش و ہدایت کے مطابق ہی ہؤا ہے۔ لیکن اس بات کو کوئی جواز موجود نہیں ہے کہ یہ فیصلہ کرنے میں 8 ہفتے صرف کردیے گئے۔ اس دوران نواز شریف اپنی ضمانت کی مدت پوری ہونے کے باوجود آرام سے لندن میں مقیم رہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر فیصلہ وفاقی حکومت کو ہی کرنا ہے تو پنجاب حکومت اپنی تجویز اور رائے سرکاری مواصلت کے ذریعے اسلام آباد بھجوادیتی۔ اس کے لئے تین وزیروں کی پریس کانفرنس منعقد کرکے نواز شریف کی سیاست یا مظلومیت کو تشہیر دینے کی کیا ضرورت تھی؟

نواز شریف اور دیگر سیاسی لیڈروں کے بارے میں نیب کی کارروائیوں کو عام طور سے سیاسی انتقامی کارروائی سمجھا جارہا ہے۔ اکثر معاملات میں نیب ملزمان کو کئی کئی ہفتے حراست میں رکھنے کے باوجود عدالت میں کوئی قابل قبول ثبوت پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج ہی سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کی ضمانتیں منظور کی ہیں۔ ان دونوں کو بالترتیب آٹھ ماہ اور دو ماہ حراست میں رکھنے کے باوجود نیب کی طرف سے الزامات کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آسکا تھا۔ دیگر متعدد معاملات میں بھی یہی طریقہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان میں چوہدری شوگرمل کیس میں نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت کا معاملہ بھی شامل ہے۔ بدقسمتی سے بدعنوانی کے بارے میں ملک کی رائے عامہ تقسیم ہے۔ عمران خان کے حامی ان کے سیاسی مخالفین کو بدعنوان قرار دیتے ہیں لیکن ان کے مخالف مختلف اداروں کی کارروائیوں کو حکومت کا سیاسی انتقام سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں نواز شریف کے معاملہ میں زیادہ احتیاط اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی۔

تحریک انصاف کو حکومت سنبھالے اب ڈیڑھ برس ہوچکا ہے۔ اس دوران معاشی حالات بدتر ہوئے ہیں۔ مہنگائی میں اضافہ نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ وزیر اعظم اور حکومت بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ملکی معیشت کا علاج کیا جاچکا ہے، اگلے برس کے دوران حالات تبدیل ہوجائیں گے۔ لیکن آئی ایم ایف کی شرائط اور معاشی فیصلوں پر اس کے مسلط کئے ہوئے نمائیندوں کے اختیار کی وجہ سے بہتری کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت آمدنی میں اضافہ کا ہدف پورا کرنے میں ناکام ہے اور اندرونی و بیرونی قرضوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوچکا ہے۔ ان حالات میں عمران خان نواز شریف یا آصف زرداری کو چور کہہ کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اب انہیں اپنی کارکردگی کا جواب دینا ہوگا۔ اب یہ دلیل ناقص ہوچکی ہے کہ سابقہ لیڈروں نے اپنی لوٹ مار کے لئے ملک پر قرضوں کا بوجھ لادا تھا۔ اب اس بات کا جواب دینا پڑے گا کہ اگر ماضی میں قرض بدعنوانی کی وجہ سے لئے جاتے تھے تو موجودہ حکومت کے مختصر دور میں سرکاری اخراجات صرف قرضوں کے سہارے کیوں پورے ہورہے ہیں۔

معاشی بہتری اور حکومتی امور میں شفافیت و مہارت کا ثبوت فراہم کئے بغیر اب نواز شریف کی ضمانت روکنے یا مریم نواز کو ملک میں پابند کرنے سے حکومت کی مشکلیں آسان نہیں ہوں گی۔ ان غیرضروری امور پر حکومت، وزیروں اور سرکاری اہل کاروں کا وقت برباد کرنے کی بجائے بہتر ہوگا کہ عمران خان معیشت کی اصلاح کا منصوبہ پیش کریں اور حکومت کی فعالیت کا ثبوت فراہم کیاجائے۔ ورنہ حکومت کی ساکھ اور اتھارٹی بحال ہونے کا امکان نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments