ھیراکلائٹس کے شہر سے مریم مقدس کے گھر تک


18 جولائی (2010) کی صبح ناشتے کے بعد میں نے ہوٹل کلرک سے پوچھا کہ میں ایفس جانا چاہتا ہوں۔ اس نے بتایا کہ ساتھ ہی پچھلی طرف جو چوک ہے وہاں سے پاموکالے بس کا ٹکٹ خرید لوں۔ وہاں سے وین مجھے بس ٹرمینل پر لے جائے گی۔ چنانچہ ٹکٹ خرید کر وین میں بیٹھ کر بس ٹرمینل کے لیے روانہ ہوا۔ وہاں سے بس میں بیٹھ کر سفر شروع کیا۔ ایفیسس ازمیر سے 74 کلومیٹر اور موجودہ شہر سلجوق سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

راستے میں ایرپورٹ کی طرف رہنمائی کرتے بورڈ نظر آئے تو پتہ چلا کہ ازمیر ایرپورٹ کا نام عدنان میندریس ایرپورٹ ہے۔ یہ نام بچپن سے بہت سن رکھا تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ انھیں فوجی انقلاب کے بعد پھانسی دے دی گئی تھی۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ان کا نام ناپسندیدہ افراد کی فہرست سے نکل چکا ہے۔ چونکہ یہ پہاڑی علاقہ ہے اس لیے سڑک کے اطراف میں کھیتوں میں فواروں سے آب پاشی کی جا رہی تھی۔

یہ علاقہ زمانہ قدیم میں یونانی سلطنت کا حصہ ہوتا تھا جو آیونیا کہلاتا تھا۔ یہیں پر مائلیٹس نامی شہر تھا جہاں فلسفے اور سائنس کا اکھوا پھوٹا تھا۔ جب انسان نے اس دنیا میں پیش آنے والے واقعات کی توجیہ دیوی دیوتاوں کو بیچ میں لائے بغیر طبعی وجوہ سے کرنے کا آغاز کیا۔ مائلیٹس کے بھی کچھ آثار موجود ہیں اور جدید ترکی میں اسے ملیتہ کہا جاتا ہے۔

مجھے ایفسس دیکھنے کا اشتیاق اس لیے تھا کہ یہ ھیراکلائٹس کا شہر تھا۔ ھیراکلائٹس، جسے عربی کتابوں میں ہرقلیطس لکھا جاتا ہے، چھٹی صدی قبل مسیح، قبل از سقراط دور کا یونانی فلسفی تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صاحبان دانش نے ہومر اور ہیسیوڈ جیسے شاعروں کے افکار کو چیلنج کرنا شروع کیا۔ ہومر اور ہیسیوڈ محض شاعر ہی نہیں تھے یونانیوں کے مذہب کا منبع و مصدر بھی تھے۔ ان پر تنقید کی وجہ سے ان لوگوں کو تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔

کہا جاتا ہے کہ ھیراکلائٹس وہ پہلا شخص تھا جس نے نثر میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اگرچہ اس کا طرز تحریر عسیر الفہم تھا۔ اسی نے کائنات کے لیے پہلی بار کوسموس کا لفظ استعمال کیا جس کا مطلب ہے نظم و ترتیب۔ یعنی ہماری یہ کائنات الل ٹپ نہیں بلکہ نظم و قواعد کی پابند ہے۔ یہیں کوسمولوجی کے علم کی بنیاد رکھی گئی۔ اس نے فیثاغورث کے برعکس سکون کومحال اور تغیر و تبدل کو اصل حقیقت قرار دیا۔ اس کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ آپ ایک دریا میں دو دفعہ چھلانگ نہیں لگا سکتے کیونکہ ہر آن تازہ پانی بہتا آ رہا ہے۔ اس کے اس خیال کو غالب نے بھی اس مصرع میں بیان کیا تھا:

قرار داخل اجزائے کائنات نہیں۔

علامہ اقبال کا ابتدائی دور کا یہ مشہور شعر تو سبھی کو یاد ہے:

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد بس نے مجھے ایفیسس کے سٹاپ پر اتار دیا۔ وہاں اترنے والا میں تنہا مسافر تھا۔ سڑک سے آگے کوئی تین چار کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے کرایہ بیس لیرا بتایا۔ میں کسی دوسرے سے بات کرنے لگا تو اس نے کہا کہ حکومت کی طرف سے یہ طے شدہ ریٹ ہے۔ اس ٹیکسی ڈرائیور نے ایک ایسی بات بتائی جو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ مجھے حضرت مریمؑ کی رہائش گاہ تک لے کر جائے گا۔ وہاں وہ میرا انتظار کرے گا۔ پھر مجھے ایفسس کے دروازے پر چھوڑ دے گا۔ واپسی میں مجھے سڑک تک پیدل آنا ہو گا۔

حضرت مریمؑ کی رہائش گاہ کا اس مقام پر ہونا میرے لیے حیرت انگیز انکشاف تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد حضرت مریمؑ پر کیا بیتی تھی۔

حضرت مریمؑ کے متعلق ایک روایت تو یہی ہے کہ ان کی وفات یروشلم میں ہوئی تھی۔ لیکن بعض دیگر مسیحی روایات کے مطابق جب حضرت مسیح کو سولی چڑھایا گیا تو انھوں نے سینٹ جان سے سے کہا آج سے یہ تمھاری ماں ہے اور تم اس کے بیٹے ہو۔ اس کے بعد سینٹ جان حضرت مریمؑ کو ہمراہ لے کر اس علاقے میں آ گئے اور ایفسس شہر سے تھوڑے فاصلے پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر رہنے لگے۔ اس مقام پر حضرت مریمؑ نے اپنی زندگی کے آخری ایام بسر کیے اور یہیں ان کی وفات اور تدفین ہوئی۔ اس شہر میں ان کے نام کا چرچ بھی تعمیر کیا گیا۔ جس میں بعد ازاں رد و بدل ہوتا رہا۔ اس چرچ کے آثار ابھی تک موجود ہیں۔

مسیحیوں کو حضرت مریم کی قبر کی ہمیشہ تلاش رہی تھی۔ وہ اس مقام پر ایسٹر بھی منایا کرتے تھے۔ انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جرمنی کے علاقے بویریا کی ایک خاتون نے اپنا مکاشفہ بیان کیا کہ حضرت مریمؑ کی قبر ان کے مکان سے 500 میٹر کے فاصلے کے اندر واقع ہے۔ یہ نیک خاتون غیر تعلیم یافتہ تھی اور ساری عمر کبھی اپنے علاقے سے باہر نہیں گئی تھی۔ 1892 میں آثار قدیمہ کے دو ماہرین نے اس مقام پر حضرت مریم کی رہائش گاہ کو تلاش کرنا شروع کیا۔ وہاں پہاڑ کی چوٹی پر، جسے پانایا کاپولو کہتے ہیں، ایک مکان کے آثار ملے جس کے چولھے میں مقدس راکھ موجود تھی۔ اس بنا پر مسیحی دنیا میں یہ بات تسلیم کر لی گئی کہ یہ واقعی حضرت مریمؑ کی رہائش گاہ ہے۔ البتہ ان کی تربت کا کچھ سراغ نہ مل سکا۔ اس مکان کو، جس کی بعد ازاں بحالی کی گئی، رومن کیتھولک چرچ کی جانب سے مسیحیوں کی عبادت گاہ کا درجہ حاصل ہے۔

یہاں ایک چشمہ بھی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ حضرت مریمؑ اس کا پانی استعمال کرتی تھیں۔ اس چشمے کے پانی سے متعدد کرامات منسوب کی جاتی ہیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ کینسر کے مریض اور چلنے پھرنے سے معذور افراد یہاں آتے ہیں اور اس چشمے کے پانی سے صحت یاب ہوتے ہیں۔ ویسی ہی باتیں جو ہمارے ہاں بھی کی جاتی ہیں کہ لوگ چارپائیوں پر لائے جاتے ہیں اور اپنے پیروں پر چل کر واپس جاتے ہیں۔

 میں مکان کی زیارت کی نیت سے اندر داخل ہوا تو وہاں سروس جاری تھی۔ مجھے دفعتاً احساس ہوا کہ آج تو اتوار کا دن ہے۔ اس لیے میں جلدی سے دوسرے دروازے سے باہر نکل آیا تاکہ عبادت میں خلل اندازی نہ ہو۔ باہر نکل کر ایک شخص سے میں نے درخواست کی کہ وہ تصویر بنا دے۔ اس تصویر کے بعد جب میں نے دوسری تصویر اتارنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ کیمرے کا میموری کارڈ فل ہو چکا ہے۔ میں نے وہاں موجود منی چینجر سے دو سو امریکی ڈالر کے ٹرکش لیرا لیے اور ٹیکسی کی طرف چل پڑا۔ ڈرائیور بڑی بے چینی سے میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے کوئی دو کلومیٹر نیچے مجھے اتار دیا۔ وہاں ایک دکان سے میں نے کیمرے کا میموری کارڈ خریدا۔

سیاحت کے مقامات حکومتوں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ترکی حکومت تو سیاحت سے سالانہ اربوں ڈالر کماتی ہے۔ ہر جگہ پر ٹکٹ لگا ہوتا ہے۔ حضرت مریمؑ کے مکان کی زیارت پر شاید 15 لیرا کا ٹکٹ تھا۔ وہاں چرچ کی طرف سے ایک بورڈ پر یہ وضاحت بھی درج تھی کہ یہ ٹکٹ ان کی طرف سے نہیں بلکہ مقامی حکومت کی جانب سے اس مقام کی دیکھ بھال کی خاطر لگایا گیا ہے۔ ایفسس کے آثار دیکھنے کے لیے 20 لیرا کا ٹکٹ خریدا اور اندر داخل ہوا۔ سب سے پہلے جو مقام نظر آیا وہ اوپن ایر تھیئٹر ہے۔ یونانی ثقافت میں ڈرامے کو بہت اہمیت حاصل تھی اس لیے ان کے شہروں میں ڈھائی ہزار سال قبل بھی تھیئٹر بنائے جاتے تھے۔ اس وقت مجھے اس شہر کے متعلق کچھ معلومات نہیں تھیں، نہ میں کسی ٹورسٹ گروپ کا حصہ تھا تاکہ گائیڈ کی معلومات سے مستفید ہو سکوں۔ بس اپنے طور پر وہاں گھومتا پھرتا رہا۔ اس وقت وہاں کی سب سے شاندار اور قابل دید دوسری صدی عیسوی میں تعمیر ہونے والی لائبریری کی عمارت کے آثار ہیں۔

قدیم تاریخوں کے مطابق یہ شہر دو ہزار قبل مسیح میں بھی موجود تھا۔ یہاں دیوی آرٹیمس کا مندر بہت مشہور تھا۔ ایرانیوں اور یونانیوں کی جنگوں کے دوران میں یہ علاقہ ایرانی سلطنت کے ماتحت بھی رہا۔ اسکندر نے ایرانیوں کو شکست دے کر یہ شہر واپس لے لیا۔ دوسری صدی قبل مسیح میں اس پر رومیوں نے قبضہ کر لیا۔ رومیوں کے بعد سلجوقیوں نے یہاں حکومت قائم کی۔ ان کے بعد یہ علاقہ عثمانی سلطنت کا حصہ بن گیا۔

ڈیڑھ دو گھنٹے وہاں پر گزار کر واپس آیا تو دکان پر ایفسس کا تعارفی کتابچہ پڑا نظر آیا تو میں نے خرید لیا۔ اس کے بعد وہاں سے ٹیکسی لے کر سلجوق آ گیا۔ سلجوق میں سینٹ جان کے چرچ کے آثار ہیں۔ اپنے زمانے میں یقیناً یہ ایک بہت عظیم الشان چرچ ہو گا۔ وہاں کچھ تصاویر بنوائیں۔ چرچ پہاڑی پر ہے۔ اس کی دیوار سے ایک جانب نظر پڑی تو نیچے ایک مسجد دکھائی دی۔ اس مسجد کا طرز تعمیر عام ترک مساجد سے بہت مختلف تھا۔ میں چرچ سے باہر نکل کر مسجد کی زیارت کے لیے روانہ ہوا۔ وہاں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ مسجد کے اردگرد تین چار اوپن ایئر مے خانے تھے۔ مجھے بے اختیار مرزا غالب یاد آئے کہ وہ اس مقام کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہو جاتے۔ وہ تو زندگی میں بس تمنا ہی کرتے رہے: مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے۔

یہ مسجد عیسیٰ بے جامی کہلاتی ہے جسے سلجوق حکمران مہمت بے کے بیٹے عیسیٰ بے نے 1375 میں تعمیر کرایا تھا۔ مسجد کافی خوبصورت ہے۔ ترک مساجد میں یہ دیکھنے میں آیا کہ ہمارے رواج کے برعکس وہاں منبر بالعموم کوئی آٹھ دس فٹ بلند بنایا جاتا ہے۔

 وہاں سے ازمیر واپسی کے لیے پوچھا تو معلوم ہوا کہ بس اڈا پاس ہی ہے۔ ایک کوسٹر میں بیٹھ کر ازمیر واپس روانہ ہوا۔ راستے میں تعارفی کتابچہ کھول کر دیکھا تو افسوس ہوا کہ مجھے اس کو پہلے پڑھ لینا چاہیے تھا۔ میں کتنے ہی مقامات کو دیکھنے سے محروم رہا ہوں بالخصوص اس مقام کو جہاں اصحاب کہف کی قبریں بتائی جاتی ہیں۔

جب میں ہوٹل واپس پہنچا تو ابھی دن کا کافی حصہ باقی تھا۔ سوچا ازمیر کے کچھ سیاحتی مقامات کو دیکھا جائے ۔ اس وقت ڈیوٹی پر جو خاتون موجود تھی وہ انگریزی سے تقریباً نابلد تھی۔ میں نے بہت سر مارا کہ وہ مجھے ازمیر کے قابل دید مقامات کے بارے میں کچھ بتا سکے لیکن یہ سعی لاحاصل رہی۔ اب یہ تو مجھے یاد نہیں کہ کوناک کا نام کیسے سنا لیکن فیصلہ کیا کہ وہاں چلتا ہوں۔ کافی دیر تک سڑک پر پھرتا رہا۔ پھر کسی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ تھوڑے فاصلے پر میٹرو کا سٹیشن ہے۔ سیڑھیاں اتر کر میٹرو کے سٹیشن پر پہنچا اور ٹرین پر بیٹھ کر کوناک کے سٹیشن پر اتر گیا۔ وہاں سب سے پہلے مدحت پاشا جادہ سی کا بورڈ پڑھ کر اپنائیت سی محسوس ہوئی کہ میں اس نام سے واقف ہوں۔ کوناک ساحل سمندر پر بہت بارونق علاقہ ہے۔ وہاں ایک کلاک ٹاور ہے جو سلطان عبدالحمید کے زمانے میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہاں 1748 میں تعمیر ہونے والی چھوٹی سی خوبصورت مسجد ہے جسے کوناک جامی کہتے ہیں۔

کوناک سے فیری میں بیٹھ کر کارسایاکا کے علاقے کی طرف چلا گیا۔ فیری سے اتر کر وہاں ایک بازار میں گھومتا پھرتا رہا۔ ازمیر بھی انقرہ کی طرح مکمل طور پر کسی یورپی شہر کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ جب زیادہ تھک گیا تو سمندر کے کنارے ایک کیفے میں بیٹھ گیا کہ کچھ کھا پی لیا جائے۔ دو تین میزیں چھوڑ کر پندرہ بیس لڑکے لڑکیوں کی ایک ٹولی بیٹھی ہوئی تھی۔ اپنی عمروں سے وہ کالج یا یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس لگ رہے تھے۔ وہ بیئر پی رہے تھے۔ ان کی میز پر ہمارے سماوار سے ملتی جلتی ایک چیز پڑی تھی جس میں کئی لیٹر بیئر ہو گی۔ جب وہ خالی ہو گیا تو ان لوگوں نے انفرادی طور پر بیئر کے گلاس منگوانا شروع کر دیے۔

وہاں سے اٹھ کر میں دوبارہ فیری میں بیٹھ گیا۔ آتے جاتے میں نے ترک خاندانوں میں ایک تضاد نوٹ کیا۔ خاندان کی بزرگ عورت نے، جو دادی یا نانی کی عمر کی تھی، چوغہ پہنا ہوتا تھا جسے ہمارے ہاں عبایا کہا جاتا ہے۔ سر پر بالوں کو مکمل طور پر ڈھانپنے کے لیے سیاہ رنگ کا ایک کپڑا باندھا ہوتا ہے جسے ترکی میں شاید عمامہ کہا جاتا ہے۔ اس کے اوپر سکارف باندھا ہوتا ہے۔ لیکن اسی خاندان کی نوجوان لڑکیوں نے منی سکرٹ اور سلیولیس بلاوز پہن رکھے ہوتے ہیں۔ ترکی میں ترگت اوزال کے زمانے میں بڑے پیمانے پر دیہی آبادی نے شہروں کی طرف نقل مکانی کی تھی۔ دیہات سے آنے والوں اور بڑے شہر میں پیدا ہونے والوں کے لباس اور اطوار میں فرق بہت واضح تھا۔

فیری سے دوسرے کنارے پر اترنے کے بعد کچھ دیر پیدل چلتا رہا۔ اس کے بعد میں ایک بس میں بیٹھ گیا۔ جب میں نے بس والے کو بس کارڈ دیا تو اس نے کہا اس میں پیسے کم ہیں۔ وہاں جو کارڈ ملتا تھا وہ ساڑھے تین یا شا ید ساڑھے چار سفروں کے لیے استعمال ہو سکتا تھا۔ بس، ٹرین اور فیری میں ایک ہی کارڈ استعمال ہوتا تھا۔ وہ کچھ ملیون ملیون کہہ رہا تھا جو میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میرے پاس چینج نہیں تھا۔ اس کے پاس شاید کارڈ بھی نہیں تھا کہ وہ خرید لیتا۔ جب میں نے ارادہ ظاہر کیا کہ میں بس سے اتر جاتا ہوں تو اس نے اشارہ کیا کہ ٹھہرو۔ اس نے کسی اور مسافر سے کہہ کر اس کے کارڈ سے باقی رقم چارج کر لی۔ جہاں میں نے جانا تھا وہ جگہ زیادہ دور نہیں تھی لیکن بس مخلتف علاقوں، گلیوں، بازاروں سے گزرتی چلتی جارہی تھی۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ مجھے کہاں اترنا ہے۔ کوئی ایک گھنٹہ بعد بس ایک اجاڑ سے ٹرمینل پر پہنچ گئی۔ اب میں کچھ پریشان سا ہوا۔ اس وقت رات کے دس بج چکے تھے۔

خیر وہاں سے ایک اور ٹکٹ خریدا اور کچھ پوچھ پاچھ کر ایک بس میں سوار ہوا۔ ساتھ کھڑے مسافر کو میں نے ہوٹل کا نام بتایا تو اس نے مجھے اشاروں میں بتایا کہ میں سکون سے کھڑا رہوں، جب سٹاپ آئے گا تو وہ مجھے بتا دے گا۔ بس کافی دیر چلتی رہی، میں نے دو تین بار مضطرب ہو کر اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ ابھی انتظار کروں۔ کوئی ایک گھنٹے بعد جب سٹاپ آیا تو اس نے مجھے اترنے کا اشارہ کیا۔ اس وقت رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ بھوک سے برا حال ہو رہا تھا۔ ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے گیا۔ میں نے ایک ڈش اسکندر کا ذکر سنا اور پڑھا تھا۔ اس ڈش کا آرڈر کرنا چاہا تو بیرے نے بتایا کہ ختم ہو چکی ہے۔ مجھے سارے عرصے میں ایک شیش تووک کی سمجھ آئی تھی سو اسی کا آرڈر کر دیا۔

اگلی صبح میرے پا س دوپہر تک کا وقت تھا۔ گزشتہ روز ایفسس سے واپس آتے ہوئے میں نے استنبول کے لیے دو بجے روانہ ہونے والی بس کا ٹکٹ خرید لیا تھا۔ اب مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ ازمیر میں دیکھنے والے مقامات کون سے ہیں۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو دوبارہ کوناک چلا گیا۔ چند گھنٹے وہاں ہی گھومتا پھرتا رہا۔ وہاں ایک سڑک کا نام فوزی پاشا بلواری لکھا ہوا دیکھا تو مجھے پتہ چلا کہ میرا ہوٹل اسی سڑک پر ہے۔ گزشتہ شب میں خواہ مخواہ خوار ہوتا رہا۔ دوپہر کا وقت ہو رہا تھا اس لیے سوچا کہ لنچ کر لیا جائے۔ وہاں میں اسکندر کباب کا آرڈر دیا لیکن سچ یہ ہے مجھے کچھ خاص پسند نہ آیا۔ ہوٹل واپس آ کر چیک آوٹ کیا اور وین پر بیٹھ کر استنبول جانے کے لیے بس ٹرمینل کی طرف روانہ ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments