عورت مارچ: ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا


گزشتہ برس خواتین کے عالمی دن 8 مارچ کو ہونے والے عورت مارچ نے گویا جھیل کے پرسکون پانی میں ہلچل پیدا کرنے والے ایک پتھر کا کام دیا۔ عورت کی آزادی سے متعلق اٹھنے والی آوازوں کو معاشرے کے بہت سے طبقات کی طرف سے ناپسندیدہ قرار دیا گیا۔ کسی نے اس مارچ کو خلاف اسلام کہا تو کسی نے اس مارچ پر غیر ملکی فنڈنگ کا الزام لگا کر اس کو سازش قرار دیا۔ مذہبی حلقوں کی جانب سے اس کو مذہب کے خلاف ایک سازش سے تعبیر کیا گیا۔

پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایم ایم اے کے اراکین اسمبلی نے توجہ دلاؤ نوٹس میں عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس میں موقف یہ اپنایا گیا کہ پاکستان میں عورت مارچ جیسے مظاہرے بنیادی طورپر دینی معاشرتی اقدار اورفیملی سسٹم کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔ جبکہ مارچ میں شریک ہونے والی خواتین کے خیالات اس سے یکسر مختلف تھے۔ خواتین کے مطابق ان کو وہ شخصی آزادی میسر نہیں ہے جو دنیا کے مہذب ممالک میں خواتین کو حاصل ہے۔

جبکہ اس کی مخالفت میں استدلال یہ ہے کہ اسلام نے دنیا کے دیگر تمام مذاہب کے مقابلے میں عورت کو زیادہ آزادی دی ہے اور اگر عورت مارچ کے شرکاء کے مطابق شخصی آزادی سے مراد یورپ جیسی آزادی ہے تو یہ بے راہ روی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مدعا کچھ یو ں ہے کہ عورت مارچ کے حوالے سے عورت کی شخصی آزادی کے لئے لگائے جانیوالے نعرے اور سلوگنز کی حمایت اور مخالفت میں ہر طرح کی دلیل فریقین کے پاس موجود ہے۔ اور بظاہر کوئی بھی فریق اپنے موقف میں ناتو نرمی پر تیار ہے اور ناہی پیچھے ہٹنے کو تیار ہے۔ ایک بارپھر ماہ مارچ کی آمد ہے اور عورت مارچ کے حوالے سے بحث شدت پکڑتی جارہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجوہات ہیں جس کی بنیاد پرپاکستان میں عورت مارچ کی ضرورت پیش آئی ہے۔ اگر ان وجوہات کا تعین کر لیا جائے تو شاید مسلئے کو سمجھنے میں ناصرف آسانی ہوگی بلکہ اس کا کوئی نا کوئی ایسا حل بھی نکل آئے گا جومعاشرے کے تمام طبقات کے لئے قابل قبول ہو۔ 2019 میں تھامس روئٹرز فاونڈیشن نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ دنیا میں خواتین کے لئے خطرناک ممالک میں پاکستان چھٹے نمبر پر آتا ہے اسی طرح انسانی حقوق کی تنظیم ہیومین رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں ہر سال کم وبیش ایک ہزار خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ جائداد میں ان کو باقاعدہ حق نہیں دیا جاتا، یہاں کی عورت ونی ہوتی ہے، دیہی زندگی میں عورت کی مشقت بھری زندگی سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ پاکستان کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے اور تعلیم اور نوکری کے حصول کے لئے عورت کا مردوں کے مقابلے میں تناسب بہت کم ہے۔ مردانہ سماج کے پاکستانی معاشرے میں عورت عدم مساوات کا شکار اور ایک ثانوی شہری کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں کی عورت کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے عورت کی زچگی کے مسائل، نقل وحرکت پر پابندی اور مالی مسائل کا بھی سامنا ہے۔

جوائنٹ فیملی سسٹم کی تمام خوبیاں اپنی جگہ مگر یہ سسٹم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹوٹ رہا ہے اگر ہم اپنے گردوپیش پر نظر دوڑائیں تومعلوم ہوگا کہ اب خواتین شاید اس سسٹم کے تحت زندگی گزارنے پر تیار نہیں ہیں جس کے نتیجہ میں یہ نظام آہستہ آہستہ خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آئے روز خاندان مختلف چھوٹے چھوٹے یونٹ میں تقسیم ہورہے ہیں اور یہ شرح شہری علاقوں میں بہت زیادہ ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ مندرجہ بالا خواتین کو درپیش مسائل صرف پاکستانی معاشرے کی خواتین کو درپیش نہیں ہیں بلکہ یہ مسائل جنوبی ایشیاء کے کم وبیش بہت سے ممالک کی خواتین کو درپیش ہیں۔ انڈیا، افغانستان، ایران، بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال اور پاکستان کی خواتین کو کم وبیش ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اس کا مطلب پھر یہ ہے کہ یہ کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک جینوئن معاشرتی مسئلہ ہے جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

خواتین کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتی کو ان کے حقوق دینا ہوں گے اور اس کے لیے محض قوانین بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ ان قوانین پر عمل درامد ہی عورت کوتحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ عورت کو معاشرے میں موجود مرد کے برابر حقوق دینے ہوں گے ایک مساوات قائم کرنی ہوگی۔ دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جو خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دیتے ہیں۔ گوکہ ان کی تعداد بہت کم ہے مگر بہرحال ایک قابل عمل مثال تو موجود ہے۔

ورلڈ بنک کی طرف سے ویمن بزنس اینڈ دی لا رپور ٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے 187 ممالک میں سے صرف چھ ممالک جن میں بیلجیئم، ڈینمارک، فرانس، لیٹویا، لیگزم برگ اور سویڈن شامل ہیں میں خواتین کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جن ممالک میں عورتوں کو سب سے کم حقوق حاصل ہیں اس میں ایشیائی ممالک سرفہرست ہیں۔ مردوں کوحاصل حقوق کے تناسب میں خواتین کو سب سے کم سعودی عرب میں 25.6 فیصد، ایران 31.2 فیصد، پاکستان 46.2 فیصد، بنگلہ دیش 49.3 فیصد، انڈونیشیا 64.3 فیصد، انڈیا 71.2 فیصد، روس 73.1 فیصد اور چین 76.2 فیصد حقوق حاصل ہیں۔

خواتین کے حقوق کے حوالے سے پاکستان جیسے ملک کے ساتھ ایک مسئلہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ہم عورت کو حقوق اسلامی فکر کے تحت دینے کے قائل ہیں جبکہ ہم عورت کے ساتھ سلوک اپنی مشرقی اقدار اور روایات کے تحت کرتے ہیں یہ ایک بہت بڑا تضاد ہے جس نے معاشرے کو الجھا کے رکھ دیا ہے۔ ہم عورت سے نکاح مذہبی طریقے سے کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ غیرت کے نام پر قتل اور ونی جیسی مکروہ روایات کے امین بھی ہیں۔ ہم عورت کے پردے کے سخت حامی ہیں مگر پاکستانی معاشرہ 70 فیصد سے زائد دیہاتوں میں بستا ہے اور وہاں پر گندم کی کٹائی، کپاس کی چنائی، چاول کی کاشت سے لے کر دیگر کاموں میں عورت مردوں کے شانہ بشانہ پردے سے بے نیاز کام کرتی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ شادی سے قبل لڑکی سے اس کی پسند کا پوچھا جائے مگر ہم اپنی روایات سماجی قدروں اور ذات پات کے تحت رشتے کرتے ہیں ایسے میں اگر لڑکی پسند کی شادی کرتی ہے تو پھر غیرت کے نام پر قتل بھی ہماری روایات کا حصہ ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ بیک وقت مختلف تضادات کا شکار ہے۔ ایک مردانہ سماج ہے جہاں ضرورت پیش آتی ہے مرد مذہب کا سہارا لیتا ہے اور حسب ضرورت اپنی روایات کے تحت بھی زندگی گزارتا ہے۔ اور یہی تضاد معاشرے کے بگا ڑ کا سبب بن رہا ہے۔ قول اور فعل کے عملی فرق کی وجہ سے معاشرہ روز بروز انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے۔

اب ان تمام ترمسائل کاحل کیا ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ دورنگی چھوڑیں اور ایک بار بیٹھ کر باہمی مکالمہ کریں۔ مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم کا انتخاب کریں کہ عورتوں کو حقوق مذہبی احکامات کے تحت دینے ہیں اگر ایسا ہے تو پھر فرسودہ اقدار اور روایات کو ختم کرنا ہوگا۔ عورت کو انسان سمجھنا ہوگا اس کو جینے کا حق دینا ہوگا۔ اگر ایسا نا کیا گیا توآئندہ آنے والے برسوں میں معاشی طورپر خود کفیل ہوتی ہوئی عورت اپنی مرضی کے فیصلے کرئے گی اور اسوقت شاید بہت دیر ہوچکی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments