کرونا وائرس کی وبا یا سرمایہ کی جنگ


گزشتہ کئی ہفتوں سے ہمارے میڈیا پر چین میں کرونا وائرس سے پھیلنے والی وبا کے حوالے سے گرما گرم بحث مباحثوں کا سلسلہ جاری ہے، چین کے ایک شہر میں پھیلنے والی اس وائرس سے ابھی تک ہزاروں افراد کے لقمہ اجل بننے کی اطلاع ہیں۔ تاہم ہلاکتوں کی حقیقی تعداد کا ابھی تک کسی کو بھی علم نہیں۔ یہاں سے یہ وائرس ایران منتقل ہوگئی۔ ایران کیا منتقل ہوگئی کہ ہر طرف شور شرابہ اٹھا اور اب ایران سے آنے والے زائرین کے ذریعے وائرس کے پاکستان پہنچنے کی اطلاعات آرہی ہے۔

کل رات بارہ بجے فون کی گھنٹی بجی میں خوف زدہ ہو کر فون اٹھایا تو دوسری جانب میرے انتہائی قریبی رشتہ دار تھے سلام کے بعد جب آواز کو چیک کیا تو نارمل تھا میں نے پوچھا خیر تو ہے تو ا س نے سوال کیا بیٹا وہ چیزیہاں بھی پہنچ گئی ہے کیا؟ میں نے جواب دیا کہ کیا چیز۔ تو اس نے بتایا کہ وہ وائرس۔ وہ اس وقت انتہائی خوف کے عالم میں تھا۔ شکر ہے کہ آج پہلے آغا خان ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے اپنے وڈیو پیغام میں اس وائرس اور اس سے پھیلنے والی بیماری کے حوالے سے بتا دیا پھر سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے ساتھ مل کر اسی ڈاکٹر نے پریس کانفرنس کی اور اپنی بات دھرائی کہ یہ اتنی خطرناک بیماری نہیں۔

جب سے وائرس کے پاکستان منتقل ہونے کی اطلاع آئی ہے تب سے سوشل میڈیا پر اس مسئلے کو مسلسل پھیلایا جارہا ہے۔ ویسے بھی سنسنی پھیلانا ہمارا محبوب مشعلہ بن گیا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہم قوم شغلیہ ہیں۔ ماہرین کی باتین سننے کے بعد ایسا لگا کہ یہ وائرس تو ایڈز، کینسر اور پولیو سے بھی کم خطرناک ہے پھر پولیو کے قطروں کے حوالے سے سازشی نظریات گھڑنے والے اس وائرس کے حوالے سے اتنی پریشان کیوں ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیز کا اپنا گیم ہوتا ہے، اور اس وقت دنیا میں پروپیگنڈے کی جنگ چل رہی ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیز کرونا وائرس کے حوالے سے دہشت پھیلا کر اپنا پراڈکٹس بیج رہے ہیں۔ مثلا کراچی میں ستر روپے ماسک کی قیمت چار سو ستر تک پہنچ چکی ہے۔ جبکہ آج میں پشاور کے مختلف میڈیکل اسٹوروں میں گھوم پھیر کے آیا ہوں اکثر میڈیکل اسٹوروں میں ماسک ناپید ہیں۔

حقیقت یوں ہے کہ یہ سارا کچھ سرمایہ دارانہ نظام کا دھندہ ہے وہ جب چاہے دولت کے سہارے روئی کو پہاڑ بنا کے پیش کرتے ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ دنیا میں پیسہ بولتا نہیں بلکہ چیختا چلاتا بھی ہے۔

کوئی بھی بیماری لاعلاج نہیں ہوتی اور اسی طرح کسی بھی بیماری کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ بیماری کا علاج تو انسانی قوت مدافعت پر ہوتا ہے جب ڈاکٹر دوا دیتے ہیں تو مریض نفسیاتی طور پر تیار ہوجاتا ہے کہ ان کو دوا ملی ہے اور اس سے ان کی صحت ٹھیک ہوجائے گی یہاں سے اس بیمار کی قوت مدافعت بڑھنا شروع ہوجاتی ہے بیماریوں کا اصل علاج انسانی جسم کے اندر ہی موجود ہے کسی میڈیسن میں نہیں۔ میڈیسن صرف انسان کی قوت مدافعت بڑھارہی ہوتی ہے۔

کرونا وائرس کو اتنا خوفناک او رخونخوار جانور بنا کے پیش کیا گیا ہے کہ ان کی آمد سے قبل ہی پاکستانی عوام کا مشترکہ قوت مدافعت جواب دینے لگیں ہیں۔ یہ ایک خطرناک عمل ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق یہ وائرس جسم کے کمزور قوت مدافعت والے حصے پر حملہ آور ہوتا ہے۔ جبکہ پاکستانی قوم حواس باختہ ہوکر اجتماعی طور پر قوت مدافعت کھو چکی ہیں او ریہاں کرونا وائرس ایک وبا کی صورت میں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ گزشتہ دنوں کہیں پڑھا تھا کہ امریکہ میں ایک شخص کو سزائے موت سنائی تو ایک میڈیکل ٹیم نے مطالبہ کیا کہ اس قیدی نے ویسے بھی مرنا ہی ہے لہٰذا پھانسی کے بجائے ہم اپنے ایک میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے اسے مار دینا چاہتے ہیں، جیل حکام بھی راضی ہوگئے، میڈیکل ٹیسٹ کچھ اس طرح سے تھا کہ سانپوں کی ایک قسم ’بلیک کوبرا‘ کے ڈسنے کے بعد کتنے عرصے میں انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

قیدی یہ بات سن کر بہت گھبرا گیا، بہت اصرار کیا کہ اسے سانپ کے ڈس کے بجائے پھانسی ہی دی جائے لیکن اس کی ایک نہ چلی۔ اس کے سامنے اس خطرناک بلیک کوبرا سانپ کو لایا گیا بلیک کوبرا کی آواز سنتے ہی قیدی پر وہشت طاری ہوا۔ اس کے بعد قیدی کی آنکھوں میں پٹی باندھ کر سزائے موت کے لئے مقررہ وقت پر بلیک کوبرا سانپ کو اس کے نزدیک لایا گیا، میڈیکل ٹیم کے ایک اہلکار نے اس کے بازو پر صرف ایک عام سوئی ہلکی سی چبوا دی جس پر اس نے ایک چیخ ماری اور پھر مر گیا۔

یہ دیکھ کر سارے ڈاکٹرز دھنگ رہ گئے۔ جب اس مردہ قیدی کا میڈیکل ٹیسٹ کیا گیا تو اس کے پورے جسم میں بلیک کوبرا سانپ کا زہر بھرا ہوا پایا گیا حالانکہ سانپ نے اسے ڈسا ہی نہیں تھا، پھر اس قیدی کی موت کیسے واقع ہوئی؟ اس حوالے سے کہا یہ جارہا ہے کہ اس بندے کے ذہن میں یہ بات بٹھالی تھی کہ اسے بلیک کوبرا سانپ نے ڈسنا ہے اور اس کی موت واقع ہونی ہے تو جیسے ہی اس کے بازو پر سوئی چبوا دیا گیا اسے لگا کہ سانپ نے ہی اسے ڈسا ہے اور اس کے ذہن نے ہی سانب کا جان لیوا زہر خارج کردیا جو اس کے پورے جسم میں پھیل کر موت کا باعث بنا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی اصل بیماری یا بیماری کا علاج ویکسین یا ادویا ت سے زیادہ انسانی جسم میں موجود قوت مدافعت پر منحصر ہیں۔ اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ ہمارے علاقے میں بھی پیش آیا ہمارے ایک دوست بیمار ہو کر چیک اپ کے لئے کراچی کے ایک نامی گرامی ہسپتال گیا وہاں ان میں کینسر کی تشخیص ہوئی جب انہیں بتایا گیا تو ایک دم ان کا کینسر لیول دیکھتے ہی دیکھتے بے قابو ہوگیا اور وہ اسی لمحے موت کی آغوش میں چلا گیا۔ گویا انسانی نفسیات یا ذہن ہی وہ طاقتور مشین ہے جس سے نکلنے والی شعاعیں اور خیالات انسانی جسم کو بیماریوں سے بچاتے یا پھر مزید بیمار کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔

اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ادویات یا احتیاطی تدابیر کی کوئی ضرورت نہیں، یہ سب کچھ ہونا چاہیے مگر اس کے ساتھ ہی ذہنی طور پر بیماریوں سے مقابلے کے لئے بھی انسان کو تیار رہنا ہو گا ہے اور اپنے جسم کے اندر قوت مدافعت کو بڑھا کر بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی احتیاطی تدابیر لازم ہے۔ مگر ایک طبقے نے قوم کو ذہنی طور پر پاگل بنانے کا تہیہ کیا ہوا ہے جو چھوٹے چھوٹے مسائل کورائی کا طوفان بنا کے پیش کرتے ہوئے پوری قوم میں ہیجانی کیفیت طاری کرتے ہے۔ جس سے قوم اجتماعی طور پر ذہنی مریض بن کے رہ گئی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments